بھارتی مرکزی وزیر داخلہ شنڈے نے
تسلیم کیا کہ ہندوستان میں دہشتگردی کے سازشی عمل میں درپردہ ہاتھ بی جے پی
اور آر ایس ایس کا ہے۔وزیر داخلہ کا یہ بیان خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔اس
سازشی اورسیاسی کھیل میں دہشتگردی کے حوالے سے باقاعدہ سرکاری سطح پر پہلی
بار اعتراف کیا گیا کہ بھارت میں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ ہیں جس میں
فرقہ پرستانہ فروغ کےلئے مذموم تربیت فراہم کی جاتی ہے ۔انھوں نے اعتراف
کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد اور مالیگاﺅں میں جو دہشت گردانہ دھماکے
میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے ان کاروائیوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس
ملوث ہیں۔سرکاری سطح تو پہلی بار یہ اعتراف سامنے آیا ، اس سے پہلے بھی
متعدد مواقع پر یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس بھگوا
دہشت گردی (ہندو دہشتگردی) پھیلا رہی ہیں اور انھوں نے اپنی سازشی سیاست
اور عمل سے بد امنی پھیلائی ہوئی ہے۔بھارتی لیڈر آنجہانی بال ٹھاکرے کا
بیان قابل غور رہا ہے کہ"جب تک ہندو بم ہندوستان میںمسلمانوں کےخلاف
استعمال نہیں کئے جائیں گے اسوقت ہندوستان میں ہندوﺅں کےخلاف مسلم بم بنتے
رہیں گے اور استعمال ہوتے رہیں گے۔"بال ٹھاکرے کے اس بیان کے بعد بی جے پی
اور آر ایس ایس کیجانب سے متشدد کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں اور دہشت گردی کے
تربیت کیمپوں میں اضافہ ہوا ۔بھارت میں سنجیدہ طبقہ بی جے پی اور آرایس ایس
کی اس قسم کی کاروائیوں پر متفکر نظر آتا ہے اسی لئے پی جے پی اور آر ایس
ایس کے مسلم نمائندوں عباس نقوی اور شاہنواز حسین کیجانب سے صفائی پیش کرنے
پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
بھارت کے مرکزی معتمد ِ داخلہ آر کے سنگھ نے بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں
دہشت پسندانہ حملوں میں ایسے 10دہشتگردوں کی نشاندہی کی جو آر ایس ایس اور
اُس سے ملحقہ تنظیموں سے راوبط رکھتے ہیں۔انھوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ، مکہ
مسجد (حیدرآباد) اور اجمیر درگاہ شریف میں دھماکوں کی تحقیقات میں انکشاف
کیا کہ انکے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آر ایس ایس ان واقعات میںملوث ہے۔آر کے
سنگھ کے مطابق سنیل جوشی دیواس(متوفی) اور مہو میں 1990 ءسے3 200ٰ ءتک
کارکن رہنے والا سمجھوتہ ایکسپریس واقعے میں ملوث تھا۔سندیپ ڈانگے(مفرور)،
رام جی کلنسگر (مفرور) سمجھوتہ ایکسپریس ،مکہ مسجد اور درگاہ اجمیر شریف کے
دہماکوں میں ملوث ہیں۔ یہ 1990ءسے 2006ءتک مہو ،اندور ،اترکاشی اورساجھا
پور میں آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔معتمدداخلہ نے آر ایس ایس کے گرفتار شدہ
کارکنان لوکیش شرما ، سوامی اسیمانند،و مکیش باشانی دیویندر گپتا، شندر
سیکھر لیوے اور کمل چوہان کا بھی ذکر کیا جو ا دہشتگردی کے واقعات میں ملوث
اور حکومتی تحویل میں ہیں۔
قابل ذ کر بات یہ ہے کہ جب معتمدداخلہ آر کے سنگھ نے پہلی بار سرکاری سطح
پر ہندو دہشت گردی کے حوالے سے انکشافات کئے تو آر ایس ایس نے اپنے دس
کارکنان کے تعلق جڑے جانے پر آر کے سنگھ پرشدیدتنقید کی ۔ آر ایس ایس کے
ترجمان رام مادھو کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی کے افسر نے اپنے آقاﺅں کی
خوشنودی حاصل کرنے کےلئے بڑی عجلت پسندی سے مشتبہ افراد کے نام ظاہر کئے
ہیں ۔ آرایس ایس نے آر کے سنگھ کےخلاف قانونی چارہ جوئی کی دہمکی بھی دی
ہے۔دوسری جانب "ہندو دہشت گردی"کی اصطلاح استعمال کرنے پر وزیرداخلہ سشل
کمار شنڈے کے خلاف ایک گرم محاذ کھل گیا اور عوامی دباﺅ سے مجبورر ہوکر
کانگریس نے شنڈے کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "دہشت گردی
کا کوئی مذہب نہیں ہوتا"۔بھارتی جنتا پارٹی نے بھی حکومت کو دہمکی دی تھی
کہ اگر سشیل کمار شنڈے اپنا الزام ثابت نہیں کریں گے یا معافی نہیں مانگیں
تو ان کےخلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔جس سے کانگریس قیادت
خائف ہوگئی اور کانگریس کے جنرل سیکرٹری جناردھن وریدی کو وضاحت پیش کرنا
پڑی کہ"کانگریس نے کبھی بھی "ہندو دہشت گردی "یا "زعفرانی دہشتگردی"کے
الفاظ استعمال نہیں۔جناردھن وریدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ وضاحت پیش
کی کہ اُن کے نزدیک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ کیجانب سے شائدزبانی
لغزش ہوئی ہے" اس لئے کہ مالیگاﺅں اور مکہ مسجد دھماکوں میں جو لوگ ملوث
پائے گئے ہیں ،وہ آر ایس ایس سے جڑے ہیں۔جنار دھن وریدی کے اس بیان کے بعد
، وزیرداخلہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنے بیان سے منحرف ہوجائیں لہذا
انھوں نے بھی اپنے جنرل سیکرٹری کے بیان کو درست قرار دیا کہ" یہ ان کی
زبان کی لغزش تھی۔اے آئی سی سی نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہے"۔کانگریس
اوروزیر داخلہ کے بیانات کی یہ تبدیلی ایسے وقت سامنے آئی جب بھارتی وزیر
خارجہ سلمان خورشید بھی سشیل کمار شنڈے کے انکشاف کے حوالے سے تصدیق کرچکے
تھے ۔جناردھن وریدی سے جب یہ پوچھاگیا کہ وزیرداخلہ نے "ہندو دہشتگردی
"کالفظ کیوں استعمال کیا ؟ تو ان کہنا تھا کہ "اُن کا یہ مطلب نہیں تھا
،کوئی بھی کانگریسی لیڈر اس طرح کا بیان نہیں دے سکتا ،بعض مرتبہ ایسا ہوتا
ہے کہ کسی اظہار ِخیال کےلئے مناسب الفاظ نہ ملنے پر زبانی لغزش ہوجاتی
ہے۔اب یہ تنازعہ یہیں پر ختم ہونا چاہیے"۔یہ کہتے ہوئے کانگریس کے جنرل
سیکرٹری اس بات کو بھی نظر انداز کرگئے کہ دہلی صوبہ کے کانگریس صدر اور
شمالی مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ جے پی اگروال بھی وزیرداخلہ کے بیان کی
تصدیق و حمایت کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ "ملک کا وزیرداخلہ کوئی بھی بات
بنا ثبوت کے نہیں بولتا اور ان کے پاس مکمل ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر انھوں
نے ہندو دہشتگردی کی بات کہی ہے"۔اب چاہے بھارتی حکومت اپنے اقرار اور
اعتراف پر مکر جائے لیکن دنیا پر واضح طور پر یہ بات سامنے آچکی ہے کہ
بھارت میں انتہا پسندی کے تربیت کیمپ موجود ہیں۔جو ہندو انتہا پسندی کو
فروغ دے رہے ہیں جس سے خطے میں امن کو خطرات لاحق ہیں۔ |