معروف صحافی نجم سیٹھی صاحب اپنے
ایک پروگرام میں فرما رہے تھے کہ ہمارے ملک میں” امین اور صادق کا فیصلہ
کون کرے گا، جو یہ طے کرے گا اس کے خلاف بھی دس انگلیاں اٹھیں گی“۔ملک کے
ایک بڑے صحافی کا یہ جملہ پوری قوم کے لیئے باعث فکر اور شرم ہے۔ اس جملے
میں مایوسی بھی واضع ہے لیکن مجھے کم ازکم مایوسی نہیں ہے خصوصاََ عدلیہ کی
آزادی اور چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کے اقدامات کے بعد تو
باالکل بھی نہیں۔اب تو اچھے دنوں اوراچھے معاشرے کے وجود میں آنے کی خوش
گمانی پیداہوئی ہے۔
تاہم ملک باالخصوص کراچی کی صورتحال پر نہ صرف اس شہر بلکہ پورے ملک کے
لوگوں کی تشویش بجا ہے۔فیس بک پر میں نے22 جنوری کی رات گیا رہ بجے اپنے
اسٹیٹس پر اس تشویش کا اظہار کیا کہ کراچی میں آج بھی 14افراد نامعلوم
قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔12 بجکر 14منٹ پر مقامی چینل کے کیمرہ
مین سرور رضا نے تبصرہ کیا کہ ” سولہ افراد قتل ہوئے سر! “۔ چند گھنٹے بعد
میرے استاد اور سینئر صحافی نادرشاہ عادل صاحب نے تبصرہ کیا ” گذشتہ
24گھنٹوں میں 22 لوگ ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں انو ر میاں“۔
23 جنوری کی صبح روزنامہ جسارت میری نظروں کے سامنے تھااس کی لیڈ اسٹوری کی
سرخی تھی ” کراچی پولیس کے قابو سے باہر ہوگیا، چیف جسٹس “۔کراچی میں امن و
امان کی صورتحال کے حوالے سے جاری مقدمہ کی سماعت کے دوران اس روز عدالت
میں کیا ہوا اس کے لیئے عدالت میں ہونے والے مکالمے ملاحظہ کیجئے۔
چیف جسٹس : کیاکراچی کے حالات بہتر ہوئے یا مار دھاڑ کا سلسلہ جاری ہے؟
کراچی میں سو فیصد حالات کنٹرول میں نہیں ہوئے لیکن صورتحال اب بہتر ہے،
چیف سیکریٹری نے جواب دیا۔
چیف جسٹس ( برہمی کا اظہار کرتے ہوئے) آج بھی کراچی میں لاشیں گری ہیں اور
آپ کہتے ہیں کہ صورتحال بہتر ہورہی ہے؟ متحدہ کے ایم پی اے منظر امام کو
ماردیا گیا تو پھر کون محفوظ ہے؟ اگر ایک ایم پی اے دو محافظوں سمیت مارا
گیا ہے تو پھر کیسے پہتری آئی ہے؟ چیف جسٹس نے مزیدکہا کہ سندھ کی پولیس
سیاست زدہ ہوچکی ہے،جہاں کام نہ کرنا ہو کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں۔انہوں نے
کہا کہ اجمل پہاڑی کیسے رہا ہوا اس کا بھی جواب دیں؟کامران مادھوری کو بھی
چھوڑ دیا گیا۔
پولیس حکام : عدالت کے دباﺅ پر اجمل پہاڑی کو چھوڑدیا گیا۔
چیف جسٹس : جب ثبوت فراہم نہیں کیئے جائیں گے تو عدالتیں رہائی کا ہی حکم
دیںگی۔سیاست اور مفادات سے بالا تر ہوکر اقدامات کیئے جائیں توکراچی امن
قائم ہوسکتا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل: پانچ ہزار طالبان کراچی میں داخل ہوچکے ہیں۔
چیف جسٹس:طالبان کوئی ایسی چیز نہیں جنہیں حکومت کنٹرول نہ کرسکے۔
ایڈوکیٹ جنرل: ایک ہفتے کا ٹائم دیدیں اچھے نتائج دکھائیں گے۔
چیف جسٹس : کراچی کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اگر پولیس ٹھیک
نہیں ہے تو پھر کیا کریں گے؟اپنی حکومت سے کہہ دیں آج شام تک پولیس کو
سیاست سے پاک کردیں،سندھ پولیس سیاست زدہ ہوچکی ہے۔
چیف جسٹس کے اقدامات قابلِ تحسین ہیں لیکن جب عمل درآمد کرنے اور کرانے
والی اتھارٹی ہی سیاسی طور پر آلودہ ہو تو پھر کس طرح امن ہوگا؟عدلیہ کس
طرح تن تنہا امن کے قیام کی ضامن ہوسکتی ہے؟عدالتیں جس طرح کام کررہی ہیں
اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی میں ناکام
حکمرانوں کو کون لگام دے گا؟انہیں کون بتائے گا کہ جو حکومتیں امن بھی قائم
نہیں کرسکتی ایسی حکومتوں کی مہذب معاشروں میں وجود کی گنجائش نہیں ہوتی۔
کراچی میں پہلے سال کے پہلے مہینے میں اب تک 147افراد کو گولیاں مارکر ہلاک
کیا جاچکا ہے۔
متحدہ ،جماعت اسلامی ،مہاجر قومی موومنٹ ،مسلم لیگ نواز اور اے این پی کے
مقامی عہدیدار بھی جانوں سے جارہے ہیں۔دہشت گرد جس کو چاہے ہلاک کررہے ہیں
، کوئی بھی تو محفوظ نہیں ہے ۔
سپریم کورٹ صوبائی حکومت میں شامل تینوں جماعتوں پیپلز پارٹی ، متحدہ وقومی
موومنٹ اور اے این پی کو امن وامان کی خرابی، قتل و غارت او ر بھتہ کی
وصولی جسے جرائم کا ذمہ دار قراردے چکی ہے۔
لیکن ان تینوں جماعتوں کی ڈھٹائی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اوپر
لگنے والے اس سنگین الزام کے باوجود اپنے بے تکے مﺅقف کے ساتھ آئندہ کے
انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں، انہیں نہ عام افراد نہ اپنے کارکنوں کی
ناگہانی اموات کا دکھ ہے انہیں بس انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہونے اور پھر
پانچ سال کے لیئے لوگوں پر ” مسلط “ ہونے کی جستجو ہے۔اس فکر میں اے این پی
اور متحدہ کے درمیان تازہ قربتیں پید ا ہوگئیں ہیں۔اللہ کرے کہ یہ دوستی
امن کا باعث بنے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکم دیا ہے کہ سیاست اور مفادات سے بالا تر
ہوکر کراچی میں امن کے لیئے اقدامات کیئے جائیں لیکن مذکورہ تینوں حکومتی
جماعتوں نے قتل و غارت اور بھتہ کے واقعات کو بالائے طاق رکھ دیاہے اور
اپنے مفادات کی تکمیل کے لیئے سب کچھ بھلا دینے پر تیار ہوچکے ہیں۔لاشوں پر
سیاست کی احیاءاسے نہیں تو کس کوکہا جائے گا؟
اپنے ووٹرز کو سکون تک فراہم کرنے میں ناکام ہوجانے والی جماعتیں دوبارہ
پھر اقتدار میں آنے کے خواب دیکھنے لگیں اور صرف اسی مقصد کے حصول کے لیئے
سرگرم ہوجائے تو کیا کہا جائے ؟
کیایہ عام اور نارمل ذہنیت کے لوگوں کی پارٹیاں ہیں؟سوال یہ ہے کہ آخر ان
کو کن وجوہات کی بناءپر اپنی دوبارہ کامیابی کی توقع ہے؟ یہ تو وہ حکومتی
پارٹیاں ہیں جو گذشتہ پانچ سال میں کراچی کو اگر کچھ دیا ہے تو وہ لاشیں
ہیں اور لیا ہے تو بھتہ ، اور سکون ہے۔ان پارٹیوں کے لیڈرز کی بے حسی اور
ڈھٹائی پر ان کے نفسیاتی مریض ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت دہشت گردوں کا قلع قمع نہیں
کرسکتی لیکن حکومت کرنے والی جماعت یا اتحادی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں
ناکام ہوجائیں تو یہ ان کی حکمرانی کی ناکامی ہوتی ہے۔ایسی صورت میں ذمہ
دار وزیر یا پارٹی کو اپنے عہدے استعفیٰ دیدینا چاہئے اور ورنہ حکومتی سیٹ
اپ سے علیحدگی اختیار کرکے قوم سے اظہار یکجہتی کرنا چاہئے۔حکومت میں رہتے
ہوئے حکومت کی ناکامی کا رونا پیٹنے کی مثال صرف پاکستان ہی میں ملتی
ہے۔متحدہ دنیا کی وہ واحد جماعت ہے جو حکومت میں رہتے ہوئے ایک سے زائد
مرتبہ حکومتی اقدامات پر احتجاج کرچکی ہے۔ ساتھ ہی وہ بھتہ وصولی اور ٹارگٹ
کلنگ پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے اصولی طور پر یہ طے کرلیاہے
کہ کسی بھی واقعہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے دکھاوے کا احتجاج
کرکے دوبارہ اپنے معمولات میں مشغول ہوجانا چاہئے بعد ازاں قوم خود ہی سب
کچھ بھول جائے گی۔
تقریباََ دو ماہ قبل وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے
ہوئے کراچی میں غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لئے آپریشن کی ضرورت پر
زوردیا تھا جس پر قومی اسمبلی میںایک قرادد بھی منظور کی گئی لیکن متحدہ نے
اس آپریشن کی ان الفاظ کے ساتھ مخالفت کردی تھی کہ آپریشن صرف کراچی میں ہی
نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونا چاہئے کیونکہ پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ
موجودہ ہے۔ متحدہ نے اپنے مﺅقف کی حمایت میںدوسرے ہی دن قومی اسمبلی میں
قرارداد پیش کی۔ قومی اسمبلی میں ہونے والی ان کارروائیوں سے ایسا محسوس
ہورہا تھا کہ عوامی نمائندے غیرقانونی اسلحہ کی برآمدگی میں سنجیدہ ہیں
لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ثابت ہوا کہ نہ توپیپلز پارٹی کے لوگ اور نہ ہی
متحدہ اور اے این پی غیرقانونی اسلحہ کی برآمدگی کے خلاف آپریشن کے حق میں
ہیں۔نومبر کے آخری عشرے میں جس معاملے پر شور تھا وہ اب سب بھول چکے ہیں،
عوامی نمائندے بھی اور عوام بھی۔لیکن یہ اسلحہ مسلسل آگ اگل رہا ہے ۔اس سے
نکلنے والی گولیوں نے شہر کی ساکھ کو بری طرح متاثر بھی کیا ہے ۔غیرقانونی
اسلحہ کا استعمال جس قدر عروس البلاد میں ہے اتنا ملک کے کسی بھی شہر میں
نہیں ۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا جس قدر خون ریزی کراچی میں
ہوتی ہے اتنی تو ملک کے قبائیلی علاقوں میں بھی نہیں ہوتی اور جس قدر اسلحہ
سے سوات اور دیگر علاقوں میں انسانی جانیں لی جاچکی ہیں اس سے زیادہ کراچی
میں لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاچکاہے۔ وہاں طالبان اور شدت پسندکارروائی کرتے
ہیں، دھماکہ بھی ہوتے ہیں لیکن اب توکراچی میں دھماکہ بھی ہورہے ہیں اور
ایک ساتھ دو دو دھماکے ہوجاتے ہیں۔سوات اور قبائیلی علاقوں کے امن کے لیئے
فوج کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہے تو کراچی میں فوجی آپریشن کیوں نہیں کرایا
جاسکتا؟۔یہ سوال کراچی والے ان کے اپنے عوامی نمائندے ہونے کے دعویداروں سے
پوچھتے ہیں۔ ۔۔۔ہے کوئی عوام کا خیر خواہ جو اس کا جواب دے گا؟شائد کوئی
نہیں اس لیئے ہمارے ملک میں امین اور صادق بھی تو ندارد ہیں۔ بس قوم صرف
اللہ توکل پر زندگی گذاررہی ہے۔۔۔۔کرے بھی تو اور کیا کرے؟ |