49ممالک کی افواج اپنے جدید ترین
اسلحہ کےساتھ ، افغانستان کی سرزمین پر جارحیت کرکے اپنی بھرپور عسکری قوت
کےساتھ مکمل قبضے کےلئے مصروف ہے۔ لیکن ان کے بنیادی اہداف ابھی تک حاصل
نہیں ہوسکے ہیں۔اقوام عالم جانتی ہے کہ امریکہ اور انیٹو افواج کو
افغانستان میں شکست کا سامنا ہے اور محض مخصوص علاقوں کے مکمل افغانستان پر
بلا شرکت غیرے قبضے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔اپنی ناکام کیفیت
کی بنا ءپر وطن واپس جانے والے اپنی جان بچنے پر جہاں خوشی مناتے ہیں تو
دوسری جانب لاحاصل جنگ کی وجہ سے نفسیاتی مریضوں کی بڑھتی تعداد بھی نیٹو
ممالک کےلئے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔گھر واپس جانے فوجیوں میں خود کشی
کا رجحان خطرناک حدتک پایا جاتا ہے، جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو ممالک
کے فوجی ، افغان جنگ کے اثرات کو قبول نہیں کرسکے اور طرح طرح کی نفسیاتی
بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ کچھ اسی کیفیت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب
برطانیہ کے شہزادہ ہیری نے افغان جنگ کو ویڈیو گیم کھیلنے کے مترادف قرار
دے دیا۔نوخیز شہزادے کی اس ادا پر طالبان جہاں چراغ پا ہوئے تو اقوام عالم
کیجانب سے بھی اس بیان پر تنقید ہوئی اور ایسے نا پسند کیا گیا۔نوخیز
شہزادے کے اس بچگانہ پن کو محض لاپراونہ تربیت اور بے حسی ہی قرار دیا جا
سکتا ہے ۔ اخلاق باختہ ہیری کی ذہنی بیماری کو کیا نام دیا جائے کہ جب وہ
خود اپنی عریاں تصاویر کےساتھ تاج برطانیہ کےلئے سبکی اور شرمندگی کا باعث
بنا ہوا ہے اور برطانیہ کے مقتدر شاہی حلقے میڈیا کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے
کہ اس بیمارذہن بچے کی عریاں تصاویر شائع کرکے شاہی خاندان کو مزید ننگا
اور رسوا نہیں کیا جائے۔ادھر شاہی خاندان اس ذہنی بیمار شہزادے کےلئے منت
سماجت کررہا تھا تو منشیات کا عادی ، جنسی بیمار شہزادہ ہیری اپنے میڈیا پر
اس بات پر برہم تھا کہ اُس کی نجی عریاں تصاویر ،ذاتی معاملہ تھا "فضول
باتیں"شائع کرکے انہیں ان کی نجی زندگی کے استحقاق سے محروم کیا جارہا
ہے۔شہزادہ ہیری جو کہ تاج برطانیہ کے وارثتی حقداروں کی فہرست اپنے والد
اور بڑے بھائی کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں،برطانوی اخبارات پر یہ کہتے ہوئے
بھی سخت تنقید کی کہ میڈیا نے ان کے بھائی شہزادہ ولیم اور بھابھی کیتھرین
کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ یہ بات منظر عام پر لے آئیں کہ شہزادی
کیتھرین ماں بننے والی ہیں۔شہزادہ ہیری افغانستان میں اپنی تعیناتی کے پانچ
مہنیوں پر محیط عرصے کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل امریکی شہر لاس ویگاس کے ایک
ہوٹل میں اپنی عریاں تصاویر کی برطانوی اخبارات میں اشاعت پر کسی شرمندگی
کا اظہار کرنے کے بجائے میڈیا پر برہم نظر آرہے تھے کہ میڈیا کو کسی ذاتی
زندگی میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔انھیں اس بات کا قلق ضرور تھا کہ ان
تصاویر کی اشاعت میں ان کے خاندان کی ناکامی کے بعد ، تاج برطانیہ رسوا ہوا
جس کا انھیں افسوس ہے۔لیکن وہ پھر بھی اسی بات پر مصر رہے کہ یہ تصویریں ان
کی نجی زندگی کی تھیں۔اخلاقی انحطاط کا شکار پرنس ہیری کی نفسیاتی کفیت کا
اندازہ با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ افغان جنگ میں ان کی دماغی حالت کیا
ہوگئی ہوگی۔20ہفتے افغان صوبے ہلمند میں معاون پائلٹ کی حیثیت سے اپنی فوجی
زمے داری انجام دینے والے برطانیہ کے مٹکتے شہزادے کے اس بیان کو مضحکہ خیز
ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے افغان جنگ کو ویڈیو گیم کھیلنے کے
مترادف قرار دیا ۔ ویسے بھی امریکہ،برطانیہ جیسے ممالک میں ویڈیو گیمز اور
فلموں کا ان کی زندگی پر گہرا اثر ہے کہ ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ
ویڈیو گیم جیت گئے تو زمینی جنگ بھی با آسانی جیت جائیں گے ، لیکن جب بڑے
ڈرائنگ رومز سے تپتے میدانوں میں اصلی جنگ سے انھیں نبر آزما ہونا پڑتا ہے
تو ان آٹے دال کا بھاﺅ پتا چل جاتا ہے۔لاتعداد فوجیوں کا سکون آور ادویہ
اور منشیات کا ستعمال ، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل میں
اضافہ ، نیٹو افواج کےلئے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔اپنے گھروں سے دور یہ ویڈیو
گیمز کھیلنے والے فوجی جب اپنے گھروں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی نیپکن گیلی
ہوجاتی ہے اور روتے بلکتے بچوں کی طرح جلداز جلد اپنے گھروں میں واپس لوٹ
جانے کی خوائش اور ارمان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں
کہ وکی لیکس کیجانب سے جاری سفارتی کیبل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ "امریکی
اہلکاروں اور حامد کرزئی کو یقین تھا کہ برطانوی فوج ہلمند صوبے کو تنہا
محفوظ نہیں بنا سکتی، لہذا جب 2007سے2009تک کی کارکردگی کو شدید تنقید کا
نشانہ بنایا گیا اور امریکی میرینز روانہ ہوئے تو انھیں اطمینان ہوا۔ایک
سفارتی مراسلے کے مطابق امریکی جنرل ڈین میکنل نے برطانوی فوج کی غلط تدبیر
پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے منشیات کی فروغ میں برطانوی فوج کی ناکامی پر
اپنے تحفظات کا ظہار کیا تھا۔ اسی برطانوی فوج کے شہزادے کیجانب سے جب ہزہ
سرائی کی گئی تو طالبان نے بھی ایسے بزدلانہ بیان قرار دیا۔افغانستان میں
2001ءسے اب تک ہلاک ہونے برطانوی فوجیوں کی تعداد 423سے بڑھ چکی ہے جبکہ
افغان اہلکاروں کے ہاتھوں برطانوی فوجیوں کی ہلاکت بھی انھیں پریشان کرتی
ہے ، گرین اینڈ بلیو جنگ کی وجہ سے بھی برطانوی فوجی نفسےاتی مسائل کا شکار
ہوچکے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت نے افغانستان میں تعینات فوجیوں کی
حوصلہ افزائی کےلئے گزشتہ برس فلمی یا نمایاں شخصیات کو افغانستان بھیجنے
پر چار لاکھ پونڈز(پانچ کروڑ روپے )سے بھی زیادہ کی رقم خرچ کرنا پڑی
تھی۔برطانوی وازرت دفاع کےمطابق اس قسم کے کئی دوروں کا اہتمام کیا گیا
تھا۔مشہور فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم ،نغمہ نگار کیتھرین جینیکن ،اور ایکس فیکڑ
پروگرام کی جج پاپ سٹار شیرل کول نے افغانستان میں زخمی ہونے والے اور
نفسےاتی الجھنوں کا شکار فوجیوں کو دورہ کرکے ڈھارس دی تھی۔چونکہ شہزادہ
ہیری اپنے خاندان میں اپنے چچا شہزادہ اینڈریو کے بعد پہلے فرد تھے جو کسی
میدان جنگ میں گئے اسلئے خیال یہی کیا جاتا ہے کہ نازک اندام ، نوخیز اور
عیش پرست زندگی گزارنے والے شہزادے پر جنگ نے منفی اثرات مرتب کئے، جس کی
وجہ سے انھیں جب وطن لوٹنا پڑا تو دیگر فوجیوں کی طرح انھیں بھی نفسیاتی
عارضہ لاحق ہوچکا تھا۔اسلئے انکا یہ بیان محض کسی پاگل کا بڑھک پن سے زیادہ
کچھ نہیں اور یہ برطانوی شہزادے کا پاگل پن ہے- |