ٓٓٓٓآئیے آج پھر اپنے ملک کی بات
کرتے ہیں۔ ملک کے بالائی علاقوں موسم بدستور سرد ہے لیکن بالائی اورسیاسی
ایوانوں کا موسم گرم ہے۔انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں لیکن ان کے ملتوی
کئے جانیں کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔پنجاب میں نئے صوبے کے قیام بارے مین
کمیشن کی رپورٹ ایسے وقت میں منظر عام پر لائی گئی ہے جب انتخابات سر پر
ہیں ۔مگر اس رپورٹ سے ہزارہ صوبے کے نعرے کی احیاءکردی گئی ۔ممکن ہے آئندہ
چند روز میں سندھ میں بھی ایک اور صوبے کے ضرورت کی آواز کراچی سے دوبارہ
آنے لگے۔جہاں ابھی صرف گولیاں چلنے اور لاشیں گرنے کی بازگشت ہے۔
جب میں یہ تحریر کررہا تھا اس وقت ایوان صدر میں صدر آصف زرداری کی صدارت
میںاجلاس ہورہا تھا۔اطلاعات کے مطابق اجلاس میں نگراں حکومت کے قیام اور
کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر خصوصی طور پرغور کیا جارہاتھا۔
پیر کا دن زیادہ گرم اس لیئے محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماسینیٹر رضا
ربانی نے اطلاع دی کہ ملک میں دو تین سال کے لیئے غیر آئینی نظام مسلط کرنے
کی سازش کی جارہی ہے۔جبکہ کرائم کی پیشگی اطلاع دینے والے وفاقی وزیراے آر
ملک نے تازہ مخبری کی ہے اور بتایا کہ کراچی میں فروری کے پہلے ہفتے
میںدہشت گردی کی بڑی لہر شروع ہونے کاخدشہ ہے۔وزیر داخلہ نے اپنی اطلاع میں
ایک ضروری وضاحت یہ بھی کی کہ ممکنہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں طالبان
ملوث نہیں ہیں۔ ویسے بھی کوئی کارروائی رونما ہونے سے قبل ہی اس میں کون
ملوث ہیں اور کون نہیں ہیں یہ بتانے کی صلاحیت اور قابلیت صرف اے آر ملک ہی
رکھتے ہیں؟۔شائد طالبان نے ان کو یقین دلادیا ہے کہ اب بہت ہوگیا ہم تھک
گئے ہیں اس لیئے مزید کچھ ایسا ویسا نہیں کرینگے ۔ملک صاحب نے پانچ سال کے
دوران” دلاسے اور ایسی خوفناک اطلاعات کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا۔اس لیئے
ان کے بارے میں مزید بات کا ابھی موڈ نہیں ہے۔بس صر ف اتنا جاننا ہے کہ اگر
فروری سے جو کچھ ہوگا وہ خطرناک لہر ہے تو ان دنوں بلکہ گذشتہ پانچ سال سے
کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کیا کوئی کم خطرناک تھا یا پھر کوئی تفریحی
پروگرام ؟۔
بات کرتے ہیں رضا ربانی صاحب کی اطلاعات اور انتخابات کی۔
انتخابات سے قبل نگراں سیٹ اپ کے لیئے عاصمہ جہانگیر کا مجوزہ نام بھی
سیاسی مارکیٹ میں اچھال دیا گیا ہے تاکہ اس نام پررائے لے لی جائے۔ عام
خیال یہ ہے کہ عاصمہ صاحبہ کے نام پر صرف ان قوتوں کو اعتراض نہیں ہوگا جو
ہمارے ملک کی این جی اووز کی سرپرستی اور انہیں ڈالر فراہم کرتی ہیں۔دوسری
طرف الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنایا جارہا ہے حالانکہ اس کمیشن کے چیئرمین
کی تقرری اپوزیشن کی رائے اور مشورے سے عمل میں لائی گئی تھی۔تھوڑا سا ذہن
پر زور ڈالیں تویاد آجائے گا کہ الیکشن کمیشن پرپہلی بار اعتراض
طاہرالقادری نے کیا تھا۔ لگتا ہے کہ طاہرالقادری کی بات پر توجہ نہ دینے کی
صورت میں یہ ہی کام میاں نواز شریف کی پارٹی سے کرانا ہوگاپہلے ہی سے طے
کیا جاچکاتھا۔ہم سب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نوازشریف کی مسلم لیگ پر
”فرینڈلی اپوزیشن “کاالزام پورے جمہوری دور میں لگا رہا۔اب اچانک انتخابات
کرانے والی اتھارٹی پر انگلیاں اٹھانے کے عمل کو قوم” دوستانہ چال “ کیوں
قرار نہیں دے سکتی؟
جس طرح حکومت کو ختم کرنے کی بھر پور کارروائی اس اپوزیشن نے کئی دھمکیوں
کے باوجود کبھی نہیں کی۔ اس لیئے لگتا یہ ہی کہ یہ سب بھی ایک خفیہ ڈیل کے
باعث ہورہا ہے تاکہ کسی بھی طرح انتخابات تاخیر کا شکار ہوجائیں اور سب جوں
کا توں رہے، کم از کم پنجاب تو ”میاںبرادران “ سے دور نہ ہوپائے۔
رضا ربانی صاحب بہت سو کے لیئے قابلِ عزت ہیں ان کی بات کو نظر انداز کرنا
کم از کم میرے لیئے آسان بات نہیں ہے لیکن انتخابات سر پر ہوں اور یہ کہہ
دیا جائے کہ ”دو تین سال کے لیئے غیر آئینی نظام لانے کی سازش کی جارہی
ہے؟“ان کی زبان سے مضحکہ خیز لگتا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بات پھر کسی
خوف کاپیش خیمہ ہوسکتی ہے۔جی ہاں خوف ، موجودہ حکومت کا تازہ خوف صرف یہ ہی
تو ہے کہ انتخابات کی صورت میں آئندہ کامیابی ہوگی یا نہیں؟ اور ناکامی کی
صورت میں پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت کو اگلی منزل کے لیئے راستہ ملے
گا بھی یا نہیں؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس قوت نے موجودہ جمہوری حکومت کے لیئے راستہ ہموار
کیا اور سیاست دانوں سے غیرآئینی طور پر مذاکرات کرکے بدنام زمانہ این آر
او پر دستخط کرائے کیا وہ اب یہ سب بھلا چکی ہے؟کیا وہ قوت این آر او سے
استعفادہ حاصل کرنے والوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ” صاف راستہ“
فراہم کردے گی؟ایسی صورت میں خود اس قوت کی ذمہ داریاں کیا ہونگی؟
یہ ہی وہ خوف ہے جس کے باعث حکومت میں رہتے ہوئے بھی رضا ربانی اور
عبدالرحمٰن ملک مایوسی اور خوف کی باتیں کررہے ہیں۔
خدشہ ہے کہ کراچی کے بارے میں وزیرداخلہ کی اطلاعات کے مطابق وہ سب کچھ
ہوگا اور دیگرایسی وجوہات پیدا ہوجائیں گی جن میں نئے صوبے کا قیام سب سے
اہم ہے کو بہانہ بناکر انتخابات ملتوی کردئےے جائیں گے ۔ہوسکتا ہے کہ
انتخابات کے التواءکا اعلان نگراں حکومت کے ذمہ آئے لیکن اگر نگراں حکومت
کا معاملہ ہی طے نہ ہوسکے تو یہ پھر” روایتی انداز“ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
قوم کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ آج جب 28جنوری کو کراچی میں ووٹوں کی تصدیق
کے لیئے مزید فوج کی خدمات حاصل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اسی کے ساتھ
وزیرداخلہ کی جانب سے فروری سے کراچی میں دہشت گردی کی خطرناک کارروائیوں
کی بات ’ کیوں کی گئی ؟ بہرحال ان کی یہ بات ’ نوشتہ دیوار “ پڑھنے پر
مجبور کررہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں میں جو بھی ہوں اگر اطلاعات
مصدقہ ہیں تو انہیںپہلے ہی گرفتار کرنے کے لیئے بے بسی کیوں ہے؟ضروری ہے کہ
کارروائیاں ہونے کے بعد حکومت حرکت میں آئے اس سے قبل بھی تو کارروائی کی
جاسکتی ہے؟وزیرداخلہ صاحب نے ان اطلاعات کی تشہیر ضروری سمجھی جبکہ دہشت
گردوں سے نمٹنے کے لئے انہوں نے کہا کہ میں جلد ہی اس حوالے سے اجلاس بلاﺅں
گا۔ اللہ کرے وزیرداخلہ اے آر ملک اور رضا ربانی کی باتیں غلط ثابت ہوں
۔لیکن اس بارے میں صورتحال آنے والے دنوں میں واضع ہوسکے گی۔بس انتظار
کیجئے ۔ |