اللہ بھلا کرے ہمارے مدبر صدرِ
مملکت جناب آصف علی زرداری کا جن کی فلسفیانہ سوچوں سے اور کوئی متاثر ہو
نہ ہو میں تو عرصہ دراز سے زانوئے تلمذتہ کیے بیٹھی ہوں ۔مجھے ہمیشہ اُن
میںشاعرِمشرق حضرت اقبال ؒ کے اُس شاہیں کی جھلک نظرآتی ہے جو لہو گرم
رکھنے کے بہانے تراشتا رہتا ہے ۔اُنہوں نے فرمایا
پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کے پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
یہ محترم بلوچ سردار بھی لہو گرم رکھنے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے اور
ہمراہیوں کو یہ سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں کہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ افتاد
اسی لئے ایک معاملہ ابھی بیچ منجدھار میں ہوتا ہے اور وہ دوسرا چھیڑ لیتے
ہیں۔اُن کی اِس پریکٹس سے اُن کا اپنا لہو گرم ہو نہ ہو لیکن اپوزیشن کا
لہو تو بعض اوقات اُبلنے لگتا ہے اور دور ہی سے ایسی آوازیں آنے لگتی ہیں
جیسے اُبلتی ہنڈیا سے ڈگ ڈگ کی آواز آرہی ہو ۔ایسے میں مجھے بیچارے ، بھولے
بھالے چوہدری نثار پر بہت ترس آنے لگتا ہے جو عالمِ بے بسی میں لوگوں کو
قائل و مائل کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں لیکن سب عبث ، بیکار ، بے سود کہ صدرِ
محترم نے الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسی ٹیم مقرر کر رکھی ہے جو کج بحثی میں
یدِ طولیٰ رکھتی ہے اور بعض اوقات تو اِس میدان میں وہ محترم ڈاکٹر طاہر
القادری کو بھی مات دیتی نظر آتی ہے ۔اِس ٹیم کا” خواتین ونگ“ تو اتنا دبنگ
ہے کہ اپنے آپ کو بڑی ”توپ شے“ سمجھنے والے اینکرز بھی اُن کا پانی بھرتے
نظر آتے ہیں ۔”نظر لگے نہ کہیں اُ ن کے دست و بازو کو“ مجھے تو بعض اوقات
یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ ابھی اُٹھ کر اینکر پر اپنے جوڈو کراٹے
کے سارے داو ¿آزمانا شروع کر دیں گی۔زرداری صاحب کے اسی ”حسنِ انتخاب“ کی
وجہ سے لوگ بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ ”ایک زرداری ، سب پہ بھاری“ ۔
عین اُس وقت جب انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی ، زرداری صاحب نے قوم کے
سَر پر پاکستانی ”بی۔جے۔پی“ کو لا بٹھایا ۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی۔جے۔پی)
نے ہمیشہ بھارت واسیوں کا سُکھ چین چھیننے کی کوشش ہی کی ہے اور خصوصاََ
اقلیتوں کے ساتھ تو اُن کی چھیڑ چھاڑ چوبیس گھنٹے جاری ہی رہتی ہے اور اب
تو اُن کے وزیرِ داخلہ نے بھی بی ۔جے ۔پی کی صلاحیتوں کا اعتراف کر لیا ہے
۔قوی اُمید ہے کہ پاکستانی بی۔جے۔پی بھی پاکستان میں علاقائی اور لسانی
منافرت پھیلانے میں بھارتی بی۔جے۔پی کا نعم البدل ثابت ہو گی اور امن کی
آشا کے لیے ممد و معاون ثابت ہو گی۔
بہرحال جس کسی نے بھی ”بہاولپور جنوبی پنجاب “ یعنی بی۔جے۔پی جیسا نام
تجویز کیا ہے اُس کی عظمتوں کو سلام کہ وہ خوب جانتا ہو گا کہ اب دما دم
مست قلندر” ہووے ای ہووے“ جس کی ہلکی پھلکی جھلکیاں تو میانوالی ، بھکر اور
سرگودھا میں نظر آنا بھی شروع ہو گئی ہیں اور یہ تو ابھی” ابتدائے عشق ہے ،
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا“۔ہمارے محترم ڈاکٹر طاہر القادری نے شہروں کو
یرغمال بنانے کی رسم تو ڈال ہی دی ہے اور میں چشمِ تصّور سے دیکھ رہی ہوں
کہ آنے والے دنوں میں لوگ قادری صاحب کے دھرنے کو بھول جائیں گے بالکل ویسے
ہی جیسے اُن کے مینارِ پاکستان پر جلسے کے بعد لوگ عمران خاں صاحب کے جلسے
کو بھول گئے تھے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ”بہاولپور جنوبی پنجاب“جیسا معنی
خیز نام اکابرینِ ایم کیو ایم نے ہی تجویز کیا ہو گا کیونکہ ایک تو وہ آجکل
عشقِ پنجاب میں ”گوڈے گوڈے“ دھنسے نظر آتے ہیں اور دوسرے ”کھیڈاں گے نہ
کھیڈن دیاں گے“ اُن کی پالیسی کا جزوِ لاینفک ہے ۔اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ
جب کراچی میں امن نہیں تو پھر ملک کے باقی حصوں میں کیوں ہو؟۔بی۔جے۔پی صوبہ
بنانے کے حق میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر نعرے لگانے والی ایم کیو ایم دراصل
اپنے اُن تشنہ خوابوں کی تکمیل چاہتی ہے جو 1992 ءمیں ادھورے رہ گئے اور
اُن کے قائد کو رات کے اندھیرے میں فرار ہونا پڑا ۔مفرور قائد نے پچھلے
دنوں ایک ڈرون حملہ کیا جس میں اُن کا ٹارگٹ حضرت قائدِ اعظم ؒ کی ذات تھی
۔لیکن ہوا یہ کہ مفرور قائد اپنے چلائے ہوئے ڈرون میزائل کا خود ہی شکار ہو
گئے ۔اُسی حملے میں اُنہوں نے سندھیوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ
اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُردو بولنے والے الگ
صوبے کا مطالبہ کر بیٹھیں ۔یہ ہے وہ تشنہ خواہش جس کی تکمیل کے پیچھے ایم
کیو ایم گزشتہ بیس سالوں سے دیوانہ وار دوڑ رہی ہے ۔اب اگر نئے صوبوں کی
رسم چل نکلتی ہے تو ایم کیو ایم کو بھی بلا شرکتِ غیرے اپنا صوبہ مل جائے
گا اورپھر ”گلیاں ہو جان سونیاں وچ مرزا یارپھرے“ ۔
سنجیدہ بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے جو بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے
کاشوشہ چھوڑا ہے اُس کی کوئی آئینی حیثیت ہے نہ قانونی۔یہ محض جنوبی پنجاب
سے کچھ سیٹیں ہتھیانے کا بہانہ ہے اور کچھ نہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری
نثار درست فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی صوبہ بنانے میں مطلق دلچسپی نہیں
رکھتی ۔پنجاب اسمبلی نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب ،دو الگ الگ صوبوں کی
سفارشات کی گئی تھیںلیکن پیپلز پارٹی نے محض ہلچل مچانے کے لئے ایک ہی صوبہ
بہاولپور جنوبی پنجاب بنانے کا شوشہ چھوڑ دیا۔آئینی طور پر پنجاب اسمبلی کی
منظوری کے بغیر پنجاب کے اندر نئے صوبے نہیں بن سکتے اور پنجاب اسمبلی ایک
کی بجائے دو صوبوں کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے ۔اِس لحاظ سے
اگر دیکھا جائے تو نواز لیگ پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہو نہ ہو لیکن پیپلز
پارٹی ہر گز نہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر ایک گھر کو ٹکڑوں
میں بانٹ دینے کی حامی نہیں اور خصوصاََاُس وقت تو ہر گز نہیں ،جب صاف نظر
آ رہا ہو کہ وڈیرے اور جاگیردار محض ذاتی ”بندر بانٹ“ کے لیے یہ منصوبہ
سازیاں کر رہے ہیں ۔
اگر بہتری کے لیے پنجاب کی تقسیم ضروری ہے تو کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو
سکتا ہے لیکن پہلے کوئی بتائے تو سہی کہ اِس تقسیم میںعوام کی کون سی بہتری
مضمر ہے اور اُن کا کون سا بھلا ہونے والا ہے ؟۔پہلے ہی پاکستان میں ہر بچہ
پیدا ہوتے ہی پچاسی ہزار روپے کا مقروض ہو جاتا ہے ۔اب اگر پنجاب کی تقسیم
کر دی جائے تو کیا کسی نے اندازہ لگایا ہے کہ اس تقسیم کے بعد اخراجات کتنے
گنا بڑھ جائیں گے ؟۔نئے گورنر ، نئی اسمبلیاں ، نئے وزرائے اعلیٰ اور
وزراءکی فوج ظفر موج ،نئے چیف سیکرٹریز اورآئی جیزپر اُٹھنے والے اخراجات
کتنے ہونگے؟۔یہ تو طے ہے کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے سے عوام کا تو مطلق
کوئی بھلا نہیں ہو گا البتہ اِن کے لیے مختص بجٹ وزیروں شزیروں کی جیبوں
میں ضرور چلا جائے گا۔شاید اسی کا ادراک کرتے ہوئے عوام نے نہ تو آج تک
صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے کوئی تحریک اٹھی ہے اور نہ ہی (آئی آر آئی کی
رپورٹ کے مطابق) جنوبی پنجاب کے عوام نیا صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔یہ سب
کچھ چند وڈیروں ، لٹیروں اور گدی نشینوں کے اذہان میںاپنی لوٹ مار کے لئے
پکنے والی پلاننگ ہے۔ |