1947 ء میں جب پاکستان کے قیام
کی تحریک چلی تو اس میں کشمیر کے مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی پوری
دلجمعی،یکسوئی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ نہ صرف حصہ لیا بلکہ پاکستان کے
قیام کیلئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیاں دیں ۔کشمیری مسلمان کی پاکستان
کے ساتھ محبت و تعلق کی وجہ صرف کلمہ طیبہ تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا
۔۔۔۔۔؟ اس نعرے نے اہل کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا۔چنانچہ 17 جولائی
کو جب برطانوی ہاؤس آف لارڈز نے آزادی ہندکا قانون منظور کیاتو بغیر کسی پس
و پیش کے جموں کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرس نے 19 جولائی کو پاکستان کی قرارداد منظور کر لی تھی جو آج تک
تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی نظر آتی ہے کہ برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کا
جو طریقہ اختیار کیا ،اُس کی رو سے جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ
ہونا چاہیے تھا مگر انگریزوں اور ہندؤوں کی باہمی سازشوں کی وجہ سے ایسا نہ
ہو سکا جس کی وجہ ہندؤاور انگریز اس بات سے بلکل لاعلم نہ تھے کہ ریاست
جموں وکشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان وجود و تشکیل
میں مکمل اور دفاعی و زرعی اعتبار سے خود مختار ہو جائے گا۔
اس لیئے دیدہ دانستہ کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا گیا۔بلاشبہ یہ بہت بڑا المیہ
اور حادثہ تھا لیکن آج اس سانحہ کا نقصان کشمیر کو تو ہو ہی رہا ھے مگر اس
کے ساتھ ساتھ جو پاکستان کو ہو رہا ہے اور جس کے خطرات میں دن بہ دن مسلسل
اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے شاید اس کا اندازا لگانا بھی مشکل ہے ۔بہر حال
خالانکہ ہم پر بحیثیت پاکستانی لازم ہے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی زمہ
داری پوری کریں جو ہم پر فرض بھی ہیں اور قرض بھی، ٓاُن لاکھوں کشمیری
شہداء کا قر ض جنہوں نے قیام پاکستان کیلئے اپنی جانوں کو قربان کیا ۔
بلاشبہ میں شہداء کشمیر کو فرض کے اوراق پہنا کر خون کی سیاہی سے لکھنے کی
بھی کوشیش کروں تو بھی لکھنے سے قاصر ہوں مگر کچھ سمجھنے اور سمجھانے کی
غرض سے اپنے قلم سے اجازت کا طلبگار ہوں ۔اگر ہم اپنے نقشے پر نظر دوڑاہیں
تو جموں و کشمیر کے50513مربع میل پر بھارت مسلط ہوا نظر آتا ہے اور 64 سال
گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ
پاکستان ابتک اپنی پہچان اور شناخت مکمل کرنے میں ناکام ہے۔اگر حقائق کی
عینک سے تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہوے کہ سب سے پہلے ڈوگرہ
حکمرانوں کے ستائے لاکھوں کشمیری ہجرت کرنے پر مجبور ہوکر بڑی تعداد کے
ساتھ پنجاب آکر آباد ہوئے پھر بعد تقسیم ہند 1965ء،1971 ء،1989ء میں شروع
ہونے والی تحریک کے دوران بھارتی مظالم سے تنگ آکر لاکھوں کشمیریوں نے
پاکستان ہجرت کی ۔مقبوضہ کشمیر کے 700 قبرستان کشمیر کی جرات و بہادری اور
آزادی کے جزبے سے لگن کا مظہر ہے ۔ابتک ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید،23
ہزار خواتین بیوہ،ایک لاکھ 7ہزار 4سو 59 بچے یتیم اور ایک لاکھ سے زائد
خاندان اُجڑ کر برباد ہو چکے ہیں۔2010ء میں بھارتی فوج نے گزشتہ 23 سال4ماہ
کے تمام ریکارڈ توڑ کر کشمیریوں کے سرخ آنسوں کے ساتھ سمندر میں بہا کر ظلم
کا ایسا طوفان لایا جس کی مثال میں لکھنے سے قاصر ہوں۔فوج نے ظلم کے نئے
نئے خربے و ہتھکنڈے اختیار کیے اور انتہائی خطرناک اسلحہ استعمال کیا،شہداء
کے جنازوں پر فائرنگ کی گئی یہاں تک کے کندھا دینے والوں پر بھی رحم نہ کیا
گیا7 سال کی نازک کلیوں سے لیکر 80 سال کے قابل احترام بزرگوں کو شہید کیا
گیا نوجوانوں کے جسم کے نازک اعضاء کو نشان لگا کرنشانہ بنایا گیا جس کی
وجہ آج تک سینکڑوں نوجوان اندھے اور اپاہج نظر آتے ہیں۔2010 ء میں بھارتی
فوجیوں کی فائرنگ سے 255 کشمیری جن میں 16 خواتین اور67 معصوم بچے شامل
تھے،12 خواتین سمیت کئی مرد صحافی اور 2960 عام افراد کو گرفتار کیا گیا 88
خواتین کی عصمت داری کی گئی۔2010 ء کی سب سے اہم بات 7 سال سے لیکر 80 سال
تک کے معصوم کشمیری اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر آگ کے شعلوں اور بارود کی
بارش میں بھی پاکستانی پرچم لہرا کرپاکستان زندہ باد کے نعرے لگا لگا کر
پاکستان کے ساتھ وفاداری اور محبت کا ثبوت دیتے رہے۔ان حالات میں عقیدت اور
محبت کی داستانیں اپنے خون سے رقم کرنا کشمیری قوم کا ہی شیوہ رہا ہے۔یہ
وفا و جفا کا عجب معرکہ ہے ایک طرف کشمیریوں کی وفا ہے تو وسری طرف ہمارے
حکمرانوں کی جفا ہے،ایک طرف کشمیریوں کی پاکستان کیلئے دلچسپی ہے تو دوسری
طرف ہمارے حکمرانوں کی عدم دلچسپی ہے جس کا اندازا 2011 کی رپورٹ سے بخوبی
لگایا جا سکتا ہے جہاں بھارتی فوجیوں کا ظلم و ستم جاری ہے وہاں عقل سے
خالی، سمجھ سے بالاتر ہمارے حکمرانوں نے بھارت کو تجارت کے لحاظ سے پسندیدہ
ملک قرار دے کر سند محبت کی انتہا کر دی۔جس کا صدمہ کشمیری قوم کے ساتھ
ساتھ پاکستان کی لچار عوام کو بھی بہت ہوا مگر بیچاری لچار ہے۔ابھی یہ زہم
بھرنے بھی نہ پایا تھا کہ پارلیمانی کشمیری کمیٹی نے اس فیصلہ کی توثیق
کرکے کشمیریوں کو یک اور گہرا صدمہ پہنچایاافسوس کی بات تو یہ ہے کہ
پاکستان کے حکمرانوں کی ساری دلچسپی بھارت کا اعتماد حاصل کرنے کی طرف ہے
جو کہ سب سے زیادہ مشرف دور میں انجام پاتا رہا جو ہمارے لیے سو فیصد نقصان
ثابت ہواجس کا نتیجہ ہمارے حکمران کشمیریوں کا اعتماد گنوا بیٹھے پھر اک
وقت ایسا بھی آیا جب بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی براہ
راست 5 فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے پر اعتراض کرتے
رہے اور کہتے رہے اس دن کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیاں اعتماد کو
نقصان پہنچے گا ۔جس کا مطلب پاکستان کو کھلاکھلم کشمیر سے دستبردار ہونے کے
لیے کہنا ہے۔
خدانخواستہ اگر پاکستان جموں و کشمیر سے دستبردار ہوتا ہے تو اس کا مطلب
پاکستان اپنی پہچان اور شناخت کے بغیر ہی رہے گا جبکہ جس کی کوئی پہچان اور
شناخت نہیں ہوتی اُسے دنیا میں کہیں تسلیم نہیں کیا جاتا ۔اگرچہ ہمارے
حکمران کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کرتے نظر نہیں آتے مگر وہاں پاکستانی قوم
بھی پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔؟ نعرے کا حق ادا کرتی نظر نہیں آتی ۔صد افسوس
آج 64 سال گزرنے کے باوجود فروری2013 کا پاکستان بھی دنیا کے نقشے میں
نامکمل نظر آرہا ہے ۔ آج وقت کی اہم ضرورت پاکستانی قوم بلحصوص طلبہ و
طلبات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر اپنی اور اپنے جانثار کشمیریوں کی
آزادی کیلئے فکر و سوچ کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک ہونا ہو گا ورنہ تاریخ
اپنے دامن میں سب سمیٹ رہی ہے۔
اگر آپ اب بھی نہ سمجھے تو بعقول شاعر۔۔۔تمہاری داستاں تک نہ ہو گی
داستانوں میں ۔۔۔۔ |