برطانیہ کے عظیم وزیر اعظم سر
ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ’’ انتہائی تیزرفتاری سے تحلیل اور معدوم ہوجانے
والی جھوٹی امیدوں پر تکیہ کرنا عوامی قیادت کی سب سے بڑی غلطی ہے‘‘۔ چرچل
نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب دنیا کے قائدین نے ابھی دوسروں کو جھوٹی
تسلیاں دینے اور جھوٹ کے دکھ سہنے کا رواج عروج پر نہیں پہنچایا تھامگر
دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں ایک جانب تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت کے
عروج کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت نے عوام کو جھوٹی امیدوں پر زندہ رکھنے کا
گر سیکھا تو دوسری طرف بڑی طاقتوں نے ان ممالک کے سربراہان کو طفل تسلیوں
پر اپنا غلام بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں تو یہاں پر ہماری قیادت ابتداء ہی سے جھوٹی
امیدوں پر زندہ ہے اور قوم کو طفل تسلیوں پر سانسیں لینے پر مجبور کیے ہوئے
ہے۔ ایوب خان ہوں یا ضیاء الحق جیسے ماضی کے آمر یا تاریخ کے سب سے زیادہ
اختلافی آمر پرویز مشرف صاحب ہر ایک امریکہ اور دیگر غیر ملکی طاقتوں کی
جھوٹی امیدوں اور تسلیوں پر حکومت کرتے رہے لیکن جب مشکل وقت آیا تو سب
جانتے ہیں کہ انہی غیر ملکی طاقتوں نے آمران وقت کو پہچاننے سے بھی انکار
کر دیا‘ سچ بات ہے اپنی عوام سے زائد غیروں پر تکیہ کرنے والوں کا انجام
کچھ یونہی ہوا کرتا ہے۔ آمروں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہوتا رہے گا وہ ایک
جانب مگر جمہوریت کے دعوے داروں نے کب کب دھوکا نہیں کھایا ہے۔71 کی جنگ
میں غیروں کی جھوٹی امیدوں پر بیٹھے رہے اور بحری بیڑا بحر ہی میں تیرتا
رہا اور ہم خیالوں میں رہے۔
غیروں کی جھوٹی امیدوں پر رہنے کی سزا تو ہم بھگتتے رہے ہیں مگر اندرونی
طور پر بھی ہماری عوامی قیادت بقول چرچل جھوٹی امیدوں پر تکیہ کرتی رہے اور
ہم ان لیڈروں پر تکیہ کرکے غربت کے آخری کنارے پر اپنی قوم کو پہنچانے میں
کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہم آج تک ان عوامی قائدین کی جانب سے کئے جانے والے
وعدوں پر اس بچے کی طرح یقین کرتے چلے آئے ہیں جس کو ڈاکٹر نے میٹھاکھانے
سے منع کیا ہو اور اس کے والدین اسے میٹھا کہہ کرکڑوا کھلا دیا ہو‘ ایسے ہی
ہمارے لیڈران ہم کو میٹھا دکھا کر کڑوا کھلا رہے ہیں اور ہم جان بوجھ کر ان
کی جھوٹی تسلیوں پر سر تسلیم خم کئے رہتے ہیں۔ میاں صاحب کا دور تھا تو
کبھی ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے وعدے کئے گئے تو کبھی ملک سے کشکول
توڑنے کے وعدے۔ موجودہ دور آیا تو ہم روزانہ ہی ایک وعدے سنتے اور اگلے دن
اس کو ٹوٹتے دیکھتے ہیں۔کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا وعدہ ٹوٹتے
دیکھا تو کبھی ملک میں سرمایہ کاری کے وعدے کرچی کرچی ہوئے۔ غربت ختم ہوتے
دیکھنے کے وعدے پر یقین کرتے ہوئے اس قوم نے غریبوں کو خود کشی کرتے دیکھا
تو بچوں کو سر بازار نیلام کرتے بھی دیکھا۔ نہ جانے کس کس اسکیم کے وعد وں
پر غریبوں نے یقین کیا لیکن کونسے غریبوں تک امداد پہنچی معلوم نہیں۔
قیمتوں کی کمی کا وعدہ تو پورا نہ ہوا مگر پٹرول کی قیمتوں نے دن میں تارے
ضرور دکھا دئیے ۔ سی این جی بند ہوتی ہے اس وعدے پر کہ گھریلو صارفین کو
گیس ملے گی مگر کہاں سے دن میں دو وقت اور وہ بھی عین کھانا پکانے کے وقت
گیس چولہوں میں دکھائی ہی نہیں دیتی ہے۔
آمرانہ دور حکومت کو برا کہنے والے ہم لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ اس دور
میں تو فقط جلد سے جلد الیکشن کروانے کے وعدے ہوتے تھے مگر اس جمہوری آمریت
کا کیا کہنا کہ ہمارے جمہوری دعوے داروں اور جمہوری علمبرداروں نے کس مہذب
اور جمہورانہ رویوں کے ساتھ ہمیں طفل تسلیوں پر نہیں رکھا۔ کوئی دن نہیں
گزرتا جب ہم کسی نئے وعدے ‘ جھوٹی تسلیوں اور دعوؤں کی زد میں نہیں آتے ہیں
۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اب بے شمار ٹی وی چینلزنے اور صحافیوں کی بھرما ر نے
ہمارے لیڈران کو دعوے کرنے اور وعدؤں کی تسلیوں کے لیے وسیع العریض مواقع
فراہم کر دیئے ہیں ۔
الیکشن کا دور شروع ہونے کو ہے۔ بہت جلد ہم بے شمار دعوؤں اور وعدوں کے نئے
دور میں داخل ہونے کو ہیں اور اس بار تو سوشل میڈیا پر بھی عوام کو بے وقوف
بنانے کے لیے نت نئے جتن کیے جا رہے ہیں ‘ المیہ تو یہ ہے کہ جلسوں میں
شاید عوام کو بے وقوف بنانا مشکل ہوتا ہے لیکن سوشل میڈیا خاص طور پر فیس
بک پر کس آسانی سے خوبصورت الفاظ و تصاویر کے ذریعے جوانان پاکستان کے
ذہنوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ چند ہی دن میں جانے
والی حکومتوں اپنے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہونگی تو کہیں دوسری
جماعتیں جھوٹے خواب دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہونگی اور ہم پھر سے
اس یقین کے ساتھ کہ تبدیلی آنے کو ہے اگلے پانچ سال کے لیے نئے وعدہ شکنوں
کو اپناحکمران بنا کر اپنے سروں پر مسلط کر لیں گے ۔ |