دنیا بھر میں خون مسلم کی ارزانی
ہے ۔کفار مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔
عرصہ دراز سے مسلمان اسی صفحہ ہستی میں پستا رہا اوراب چاروں اطراف سے حصار
تنگ کر کے مسلمانوں کو زد کوب کیا جا رہا ہے۔ اگر تاریخ پرنظر دوڑایں تو وہ
گواہی دیتی ہے کہ مسلمان ہمیشہ سے یہود و نصاری کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے
ہیں ۔مسلمانوں کو اس دنیا سے ختم کرنے کے لیے یہود و نصاری نے طرح طرح کے
طریقے آزمائے مسلمانوں کے اندر سے غدار تلاش کیے ان کی ہی بدولت جنگوں میں
مسلمانوں کو شکست دی ۔ ٹیپو سلطان جیسے عظیم مجاہد کو ایک غدار کیوجہ سے
شہید کیا گیا یہ تمہید میں نے اس لیے بندھی کے کچھ دن قبل پاکستان کے ایک
بڑے روزنامے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق ’’بھارتی خفیہ
ایجنسیوں نے سی آئی اے، موساد کے اشتراک سے پاکستان کے خلاف سرگرمیاں تیز
کردیں بھارتی خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ نے کھربوں روپے کے بجٹ اور جدید پراپیگنڈا
مشینری کے ساتھ پاکستان کے خلاف جس نیٹ ورک کو چند ماہ قبل قائم کیا تھا وہ
اب ممبئی، دبئی ، کابل اور لند ن کے علاوہ امریکہ میں اپنے خفیہ دفاتر کے
ذریعے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان دفاتر کے ذریعے سندھی، بلوچی اوراردو،
انگریزی زبانوں میں کتابیں اور لٹریچر تقسیم کئے جا رہے ہیں اس کے علاوہ
خفیہ ذرائع او ر غیرقانونی طریقوں سے سندھ، بلوچستان او ر آزاد کشمیر کے
مختلف علاقوں میں پاکستان مخالف لٹریچرپہنچایا جاتا ہے ۔جس میں مبینہ طور
پر سفارتی آداب کو نظر اندز کرتے ہوئے’’ ڈپلومیٹک بیگز‘‘ کو بھی استعمال
کیا جاتا ہے۔ انتہائی معتبر ذرائع نے اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ’’ را‘‘ نے
پاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا جاسوسی اور ملک کے مختلف حصوں میں
تخریب کاری کروانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کا خوف ناک منصوبہ بنایا ہے۔
پاکستان کی فوجی تنصیبات پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں مبینہ طور
بھارتی خفیہ ایجنٹ ملوث رہے ہیں ۔زبان اور نسل کی بنیاد پر ملک کے مختلف
صوبوں میں منافرت پھیلانے کی غرض سے زیادہ تر انٹرنیٹ اور خفیہ پیغاما ت جو
مختلف ذرائع سے لوگوں کو پہنچائے جاتے ہیں۔ ان میں پاکستان کی سیاسی
پارٹیوں کو ملوث کرنے کے لیے شرمناک ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ جس
کا مقصد ملک میں سیاسی معاشی اور امن عامہ کی صورت حال کو بگاڑنا اور سیاسی
پارٹیوں کے مابین کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ پاکستان میں بھارت کی تین مختلف
خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے سیاسی، دفاعی، معاشی، لسانی، سماجی اور سائنس و
ٹیکنالوجی کے تمام اداروں میں کسی نہ کسی حوالے سے مداخلت کرتی ہیں اس کام
کے لیے امریکی سی آئی اے کا مکمل تعاون بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو حاصل ہے۔
بلوچستان اور سندھ میں بھارتی خفیہ ایجنٹوں کی آمد ورفت زیادہ تر دبئی اور
کابل کے راستے سے ہوتی ہے بھارتی سفارت کاوں میں اکثریت جو خفیہ سرگرمیوں
کی بھر پور تربیت حاصل کرتی ہے ان سفارتکاروں کی تعیناتی بھی پاکستان اور
افغانستان میں خاص طور پر عمل میں لائی جاتی ہے ۔’’را‘‘ نے سند ھ میں ہندو
آبادی میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھاری سرمایہ تقسیم کیا ہے اور مقامی
لوگوں کو تربیت جدید اسلحہ اور پرو پیگنڈا کے ہتھیاروں سے لیس کر کے سندھ
اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ہندو
خاندانوں کے بعض افراد کی بھارت نقل ومکانی اسی سلسلے کی کڑی ہے ہندو
خاندانوں کی اس نقل مکانی کو عالمی میڈیا میں پیش کر کے پاکستان کو بدنام
کیا گیا ’’را‘‘ نے برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ عرب ممالک میں اپنے گھناؤنے
مقاصد کے لیے چالیس ملین ڈالرزسے بھی زائدرقم مختص کر رکھی ہے۔ متحدہ عرب
امارات قطر ،اومان ،اردن، مصر اوسر یمن میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال
کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ اقوام
عالم کویہ باور کرایا جائے کہ سرزمین پاکستان پر عرب مجاہدین تربیت حاصل
کرتے ہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اس گھناؤنے عمل میں بھرپور معاونت کر
رہی ہے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے’’ را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے
والے صحافیوں کے ذریعے خود ساختہ ٹیبل سٹوریز لکھوائی جاتی ہیں‘‘ مجھے اس
رپورٹ کو پڑھنے کے بعد کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی اور ہونی بھی نہیں چاہیے
تھی کیوں کہ ہمارے ملک میں بلیک واٹر کے ریمنڈ ڈیوس جیسے اہلکاروں کو جب
کھلی چھٹی دی جائے ۔ دن دیہاڑے پاکستانیوں کوسرعام شہید کر کے بعد ازں رہا
ہو جائے۔ ہمارے ادارے اپنے ہی بیٹوں،بیٹیوں،ماؤں کو پیسوں کی خاطر اغیار کے
حوالے کرتے رہے تو غیروں سے کیسا شکوہ کیا جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ
پاکستان میں فرقہ وارایت کوہوا دینے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس میں بھارتی
ایجنسیاں ملوث ہیں ۔کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی کافی عر صہ سے کھٹک رہے
ہیں تحریک طالبان پاکستان اتنے طویل عرصے تک اپنے آپ کو کس طرح قائم دائم
رکھے ہوئے ہے؟افرادی قوت کے علاوہ معاشی قوت ان کے پاس کہاں سے آ رہی ہے؟
حکومت وقت نے بلوچستان کے حوالے سے بارہا کہا کہ غیر مکی ہاتھ ملوث ہے لیکن
اس غیر ملکی کا نام بتانے سے ناجانے کیوں گریز کیا جا رہا ہے ؟ بلوچستان کے
نوجوان کیوں بھارت جاتے ہیں اور ان کو اتنی آسانی سے وہاں آنے جانے کی
اجازت کیسے ہے ؟ ان کے احساس محرومی کو اتنی ہوا بیرونی قوتیں کیوں دے رہی
ہیں؟ یہ وہ سولات ہیں جن کے جوابات تلاش کرتے کرتے میں تو تھک گیا ہو۔ماہ
اگست کے دوران گلگت اور بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو قتل کیا
گیا اور انڈین میڈیا نے اس معاملے کو فرقہ وارایت کی ہودینے میں کوئی کسر
نہ چھوڑی۔انڈین میڈیا میں شیعہ سنی فساد کا نام دیکر لڑوانے کی ناکام کوشش
کی گئی ۔ ہماری حکومت بھی اس معاملے میں نجانے کیوں بے بس نظر آتی ہے اور
ایسے واقعات کو وہ ہمیشہ پاکستان کی ایک مذہبی جماعت جس کے رہنماکو حال ہی
میں حکومت پنجاب نے سعودیہ سے واپسی پر ائیرپورٹ پر گرفتار کیا ہے۔حالانکہ
مولانا اسحاق نے قتل عام اور کافر والی پالیسی کوترک کر کے مفاہمتی پالیسی
کو اپنا لیا ہے یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک روزنامے میں ان کا چھپنے
والا انٹرویو ہے ۔اب اس تحقیقاتی رپورٹ پر بات کر لی جائے اس کے مطابق سی
آئی اے کے ساتھ ساتھ اب موساد نے بھی اس مکروہ فعل میں اپنا کردار ادا کرنا
شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل شروع ہی سے مسلمانوں کے مخالف رہا ہے
خصوصاًپاکستان سے اس کی دشمنی کچھ زیادہ ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کا اس
کو قبول نہ کرنا ہے۔اسی تناظر میں یہاں ایک واقعہ تحریر کرتا چلوں ہمارے
ایک دوست مسجد نبوی میں درس و تدریس سے کافی عرصہ وابستہ رہے ہیں ان کے
بقول میں مسجد نبوی میں درس دے رہا تھا اسی دوران وہاں ایک نوجوان آ کر
محفل میں بیٹھ گیا محفل ختم ہوئی تو وہ نوجوان مجھ سے مصحافہ کرنے کے لیے
آیا میں نے اس سے پوچھا کہاں سے آئے ہو تو اس کا کہناتھا کہ فلسطینی ہوں
میں فلسطینی نوجوانو سے کافی محبت کرتا ہوں میں نے اس کو اپنے پاس بیٹھا
لیااور اس سے گفتگو کرنے لگامیں نے اس سے پوچھاکہ تم لوگ اسرائیل سے کب تک
لڑتے رہو گے حالانکہ تمہارے پاس مالی اور افرادی قوت بھی نہیں ہے ؟ اس کا
جواب آج بھی میرے دماغ پر محفوظ ہے اس کا کہنا تھاجب تک پاکستان قائم ہے ہم
لڑتے رہے گے ہماری تمام تر امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں لیکن افسوس کہ ہم
نے آج ان کی امیدوں پر پانی پھیرنے پر کوئی کسر نہیں چھوڑی۔2006میں امریکی
سی آئی اے کے سابق اہلکارر الف پیٹر کی پیشن گوئی جس سے بظاہر امریکہ کی
حکومت خود کو الگ تھلگ قرار دیتی ہے اب ایک زندہ حقیقت بن چکی ہے اس حوالے
سے حکومتی اداروں کے پاس پورے ثبوت موجود ہیں کس طرح امریکہ سی آئی اے نے
2005میں بلوچستان میں دہشت گردوں نے بزنس میں سرمایہ کاری شروع کی اور کس
طرح یہاں حالات خراب کئے گئے۔ اس سارے معاملے میں جنرل پرویز مشرف کو بھی
بری الذمہ خیال نہیں کرتے کہ جن کے سبب اکبر بگٹی جیسا بڑا نام جس نے ہمیشہ
پاکستان کی جنگ لڑی وہ مشرف کی بدتمیزی کے سبب دشمنوں کے کیمپ میں جاے پر
مجبور ہوا اس چیز کو استعمال کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے اسرئیلی موساد اور
بھارتی را نے پنا کردار اد ا کیا تھا۔ جس میں ایران بھی پیچھے نہیں رہا
ایران کے شہر زاہدان میں واقع بھارتی قونصل خانہ ہی بلوچستان میں علیحدگی
کی تحریک کا مرکزقرار پایا ۔انڈیا افغانستان میں اپنے کیمپ قائم کر کے
تحریک طالبان کو سپورٹ کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی
پر عمل پیرا ہے لیکن یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے ایجنسیاں سب کچھ
جانتے بوجھتے بھی کھل کر اس پر بات کیوں نہیں کرتیں؟ دوسری طرف امریکی
کانگریس میں پاکستان توڑنے کی قراداد پیش کی گئی اور اس میں جواز بلوچستان
میں لاپتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سرراہ ملنے والی لاشوں کو بنایا
گیا ۔ امریکی حکومت کمال مہارت سے خود کواس عمل سے الگ دکھانے کی کوشش کرہی
تھی مگر اس سارے عمل میں اس کا ہاتھ پوری طرح سے دکھائی دے رہا تھا قرارداد
پیش کرنے والے رکن کانگریس کے بارے میں شواہد موجود ہیں کہ وہ ایک طویل
عرصے تک بھاری لابی کا ایک متحرک مہرہ رہا تھا اور ماضی میں بھی پاکستان کے
خلاف مختلف قسم کی آوازیں بلند کرتا چلا آ رہا تھا۔ مگر اس وقت چونکہ اسے
سی آئی اے کی حمایت براہ راست حاصل ہے لہذا امریکی کانگریس میں قرارداد تک
بات پہنچ چکی ۔ ہمارا ازالی دشمن بھارت ہمیشہ سے بغل میں چھری اور منہ میں
رام رام والی پالیسی پر عمل پیر ا رہا افسوس کے اسلامی تعلیمات کے مطابق
مومن ایک بل سے دوبار ڈسا نہیں جاتالیکن یہاں ہم بار بار ڈسے جا رہے ہیں
اور اب اسے پسندیدہ ممالک کے فہرست میں شامل کرنے پر مرے جا رہے ہیں۔ اور
وہ ہے کہ اس خوبصورت ملک کو دوبارہ توڑنے کے در پر ہے آخر کب تک ہم بے وقوف
بنتے رہے گے ۔ بھارتی میڈیا نے کچھ دن قبل وہاں یاترا کے لیے جانے والے
زائرین پر کافی شور غل کیا تھا کہ ان کو ہاں تحفظ نہیں ہے اس لیے یہ بھارت
آ رہے ہیں حالانکہ بعد میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی پاکستان کو بدنام
کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں
یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہمارا سچا دوست کون اور ہمارا دشمن کون ہے اور یہ
فیصلہ ہمیں کھولی آنکھوں سے کرنا پڑے گا۔ |