پانچ فروری کا پس منظر

۱۱ فروری کا دن ریاست جموں کشمیر میں بسنے والے ہر خاص و عام کیلئے کسی تعارف کا محتاج نہیں جب ریاست کے ایک عظیم سپوت کو دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پہ لٹکاکر شہید کیا گیا ۔انکاجرم صرف اتنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کی حقیقت اور مادر وطن کی غلامی کا حقیقی سبب کیا رہا ہے وہ یہ راز جان گئے تھے ۔اور دشمن نے سمجھا کہ اگر انہیں زندہ رہنے دیا گیا تو شائد انکے وہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں گے ۔

اس اندوناک واقع کے بعد ریاست میں خامشی سی چھا گئی جو بلا شعبہ کسی انجانے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔اسکے ساتھ ہی ریاست کے اس حصے میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا ۔اس بار ان انتخابات کی خاص بات اسمیں ایک نئے اتحاد مسلم متحدہ محاز (مسلم یونائٹڈفرنٹ )کی شرکت تھی اور اس اتحاد کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے بھارتی حکمرانوں نے بوکھلاہٹ عالم میں کئی غیر اخلاقی و غیر انسانی اقدام اٹھائے اور یونائٹڈ فرنٹ کو ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور یوں وہ اتحاد جو اگلے روز یقینی کامیابی کی منزل پہ تھا اسے دھاندلی سے ناکام بنادیا گیا جسکے باعث ریاستی عوام میں غصہ فطری عمل تھا ۔اور دوسری جانب اسلام آباد کے فوجی حکمراں بھی پنجاب اور کشمیر میں ایسی فورسز کی تلاش میں تھے جو وہاں کی تحاریک کو جدید خطوط پہ استوار کر سکیں ۔

چالیس برسوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ وفا نہ کرنا ،۱۱فروری 1984کو ریاست کے عظیم گوریلہ لیڈر محمد مقبول بٹ کی شہادت اور پھر عام انتخابات میں ریاستی عوام کے ووٹ کے حق پہ شب خون مارنے نے عجیب اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی عوام کا غصہ خطرے کے نشاں سے آگے بڑھا تو انہوں نے غلامی کے ان طویل گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات کیلئے ہتھیار اٹھا لئے اور31جولائی1988کو بھارتی حکمرانی کیخلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا فضا آزادی کے دلفریب نعروں سے گونجنے لگی اوریہ تحریک قطعی طور پر شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کے نظریات و وژن ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی امنگوں کی ترجمان ثابت ہوئی ۔لبریشن فرنٹ کے اس اقدام نے تحریک آزادی کشمیر کو مقبولیت کے ساتویں آسمان پہنچا دیا یہی وجہ تھی کے اسے راتو رات تاریخی عروج ملا یہاں تک کہ وہ بھارت جو کل تک مسئلہ کشمیر پر بات تک کرنے کو تیار نہ تھا وہاں اس بات کے چرچے عام ہوئے کہ کشمیر اب بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔اس اثنا ء میں اسلام آباد جو اس تحریک کا سب سے بڑا خیر خواہ تھا تحریک کا کنٹرول کے حصول کی کوشش کرنے لگا اور سلسلہ آگے بڑھابد اعتمادی میں روز افزوں اضافہ ہوا نتیجتاً میدان کار زارمیں ریاستی عوام کی وہ قوت جو دشمن کیخلاف استعمال ہونا چاہیے تھی ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے لگی اور تحریکی سواد اعظم لبریشن فرنٹ سازشوں کا شکار ہونے لگا اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے والے اپنے اپنے نام سے منسوب دھڑے قائم کر کے ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہونے لگے اور جو ہاتھ دشمن کی شہ رگ پہ ہونے چاہیے تھے ایک دوسرے کے گریباں پہ تھے۔اسکے پیچھے جو عوامل کارفرماتھے وہ اپنی کامیابی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔جسکا ثبوت یہ کافی ہے کہ پاکستان کے تین بار وزیر مملکت رہنے والے کشمیری نژاد وزیر مملکت کی موجودگی میں شہید کشمیر کے دست راست قائد تحریک امان لﷲ خان کو اربوں روپئے کا پیکیج پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ یہ سب آپ کو ملیگا بدلے میں آپکو صرف اپنے نظریات ، اغراض و مقاصد کو بدلنا ہوگا لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیاتب حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تمام مراحات و سہولیات جماعت اسلامی پاکستان کو تفویض کر دی جائیں اور ایسا ہی ہواجس کے بعد جماعت اسلامی پاکستان نے وہاں حذب المجائدین کو مضبوط کیا ۔ ان کٹھن اور نامصاعد حالات کے باوجود لبریشن فرنٹ نے جدوجہد کو جاری رکھا اور تحریک آزادی میں خاطر خواہ کامیابیاں ملتی رہیں اور اہم بات یہ کہ جوں جوں تحریک آزادی آگے بڑھتی رہی گیارہ فروری کے دن کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا اوریوم مقبول ریاست کے طول وعرض میں ہی نہیں پوری دنیا میں موجود کشمیریوں کے لئے اہمیت اختیار کر گیااور پوری دنیا میں بڑے تزک و احتشام سے منایا جانے لگا۔تب 1990 میں قاضی حسین احمد مرحوم جو اس وقت جمات اسلامی پاکستان کے امیر تھے نے جماعت کی جانب سے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا علان کیا جبکہ لبریشن فرنٹ سے ناراض پاکستانی حکمرانوں نے اسکی مکمل حمایت کی ۔اور اس طرح پانچ فروری یوم کشمیر بننے لگا ۔اور ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی جسے ریاست کے محکوم ومظلوم عوام نے اپنے خون سے سینچا کو ہتھیانے اور گیارہ فروری کے تاریخی دن کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے اس طرح کے گھناؤنے کھیل کھیلے گئے جسکا انجام سب کے سامنے ہے۔

کسی بھی ملک کی معیشت میں گھنٹے اور منٹ بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور جب کوئی ملک ایک مکمل دن اپنا کاروبار بند رکھتا ہے تو وہ اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرتا ہے سو اگر پانچ فروری کو اہل پاکستان پورہ دن اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں انکی محبت اور ہمدردی کو کبھی نظر انداز نہیں جا سکتا لیکن ان کا کیا کیجیے جنہوں نے ہمیشہ اپنے ہی عوام کواندھیرے میں رکھا اور انہیں یہ بتایا گیا کے وہ کشمیری عوام سے یکجہتی کر رہے ہیں مگر معصوم پاکستانی عوام کو یہ علم نہیں کہ انہیں جو بتایا جاتا رہا وہ کتنا بڑا فریب ہے جھوٹ اور مکاری ہے ۔ اسلئے اہل پاکستان کو چاہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی فریبکاریوں کا حصہ بنتے ہوئے اتنا بڑا نقصان نہ کریں کیونکہ اسکا کشمیریوں کو کچھ فائدہ نہیں ہونا اسلئے اگر اپکو کشمیریوں کیساتھ یکجہتی کرنا ہے تو ۱۳ اگست کو منائیں یا گیارہ فروری کو منائیں جو کہ کشمیر کی تاریخ کے اہم ترین دن ہیں ۱۳ اگست جب دنیا نے ریاستی عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور دوسرا جب دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کے دعویداروں نے آزادی کا مطالبہ کرنے کے جرم میں محمد مقبول بٹ کو شہید کر دیاتھا۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.