وعدے خلافیاں جمہوریت کیلئے نقصان دہ

پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ وعدوں اور معاہدوں کو ناصرف توڑا گیا بلکہ انھیں پامال بھی کیا گیا جس کی وجہ سے سیاسی لوگوں کو عزت اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن ان کی دولت اور ان کے اختیارات کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر نوئے فیصد لوگ سیاسی لوگوں کو وعدہ خلافی کی عادت کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں عموما یہ مشاہدہ الیکشن کے دنوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاسی لوگ عوام سے وعدے کرتے ہیں کہ وہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کو حل کریں گئے جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو ایسے غائب ہوتے ہیں کہ اگلے الیکشن تک ان کی شکل عوام کو بھول چکی ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں اگر کہا جائے کہ ہمارے ہاں وعدہ توڑنے اور وعدہ خلافی کو سیاست کہتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا بات ہو رہی تھی وعدوں اور معاہدوں کی کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان میں اصل جمہوریت کو زندہ کرنے کی ایک کوشش کئی گئی تھی جو کہ بعد ازاں ناکام ثابت ہوئی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چئیر مین صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کے درمیان مری میں ملاقات ہوئی تھی مجھ سمیت کئی لوگوں کو ایسا لگا کہ اب پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے صرف اور صرف عوام اور پاکستان کی بہتری کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا نا صرف وعدہ کیا بلکہ ایک معاہدہ بھی کیا اور بعض رپوٹس کے مطابق قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسمیں بھی کھائی گئی مگر کیا ہوا ؟نا صرف وعدے سے روگردانی کی گئی بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا وعدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عام لوگوں نے محسوس کیا کہ پاکستان اور عوام کی خاطر کیے گئے وعدے محض دکھلاوئے کے علاوہ کچھ نہ تھے بلکہ ان کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر عوام کا کیا گیا وہ تو پہلے بھی مشکلات کا شکار تھے اب بھی مشکلات کا شکار ہیں پہلے بھی وہ بنیادی ضروریات زندگی سے دور تھے آج اور بھی زیادہ دور ہو رہے ہیں وعدے خلافیوں کا یہ سلسلہ صرف حکمرانوں اور جماعتوں کا آپس میں ہی نہیں بلکہ نوئے فیصد عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھا جاتا بات ہو رہی تھی وعدوں کی تو یہاں ایک بات جو غور طلب وہ یہ ہے کہ وہ وعدے جو ملک کی دو سری بڑی جماعت سے کیے گئے ان کو جس وقت توڑا گیا تھا کیا وہ جماعت اس کے لیے عدلیہ سے رجوع نہیں کر سکتی تھی اور اس جماعت نے اس وقت جب یہ وعدہ اور معاہدہ کیا تھا اس کو قانونی شکل دینے اور وعدے سے انخراف کی صورت میں بطور گارنٹی کس کس کو شامل کیا تھا کیونکہ حالیہ دنوں میں حکومت کو تحریک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے وختے میں ڈالا ہوا ہے اور جن کے مطالبات کو غیر آئینی اور غیر قانونی کہا جا رہا ہے اور پاکستان کے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ واقعتا غیر قانونی اور غیر آئینی مطالبات ہیں ان سے جو مذکرات کیے گئے وہ بھی کسی بھی طور پر درست تسلیم نہیں کیے جا رہے کیونکہ تحریک مہناج القرآن نہ تو پاکستان کی کوئی بڑی سیاسی پارٹی ہے اور نہ ہی پاکستان کی پارلیمان میں اس کی کوئی نمائندگی ہے ان کا یہ مطالبہ بھی مذکہ خیز ہے کہ پاکستان الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دیا جائے اور بقول ان کے اتنے دنوں میں نئے الیکشن کروائے جائیں اب جبکہ ان کا پارلیمان میں کوئی حصہ ہی نہیں تو وہ کس لحاظ اور کس قانون اور قاعدے کے تحت ایسا کہہ رہے ہیں اور وفاقی جماعت سے کیے جانے والے معاہدے کو قانونی حثیت دلانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے ایسا کو ن سا جادو ہے ان کے پاس کے حکومت ان کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے جبکہ اس کے برعکس جب مسلم لیگ (ن)کے ساتھ کیے گئے وعدے اور معاہدے توڑے گئے تھے تو ان کے پاس ناصرف وفاق بلکہ ایک پورے صوبے کی حکمرانی تھی وہ چاہتے تو اپنی آئینی پوزیشن کے بل بوتے پر حکومت کو نا صر ف پریشر رائز کر سکتے تھے بلکہ حکومت کو گرا بھی سکتے تھے ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اتنا بڑا وعدہ توڑا گیا اور مسلم لیگ (ن)نے تو آج تک اس کی آئینی اور قانونی حثیت واضح کی اور نہ ہی کسی بھی پلیٹ فارم پر اس کی گارنٹڈ سے پوچھنا گوارا کیا کہ یہ وعدہ کیوں توڑاگیااس بات کو ذہن میں رکھ کردیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان کے وہ الفاظ سچ نظر آنے لگتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چئیرمین صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف میں اندرون خانہ بہت سے معاملات پہلے سے طے شدہ تھے ان کو صرف پردہ سکرین پر اپنے منتخب اداکاروں کے ساتھ پیش کرنا باقی تھا جو کہ پچھلے چار ،پانچ سالوں میں پیش کر دیا گیا ایک بات بھی اس کی پکی دلیل معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی حکومت ڈھگمگاتی ہے اس کو سب سے پہلے اپنا کندہ پیش کرنے والوں میں میاں نواز شریف صاحب ہی ہوتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ کیا حکو مت اور مسلم لیگ(ن) میں تمام معاملات پہلے دن سے ہی طے ہو چکے تھے اس کا جواب آنے والے الیکشن کے نتائج اور حکومت بننے کے بعد معلوم ہو جائے گا کیونکہ پاکستان میں جو جمہو ریت نافذ ہے اس میں کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی کا کمال ہوتا ہے لہذا جب بھی کوئی اپوزیشن پارٹی کسی حکمران جماعت کو اس وقت اپنا کندہ پیش کرئے جب وہ گر رہی ہو تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس کے بدلے میں وہ بھی اس کی ڈیمانڈ کو پورا کرئے گی اور اس سارے معاملے میں ملک اور عوام کے نقصان کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اپنی اپنی جماعت کا نفع و نقصان دیکھا جاتا ہے اس لیے پاکستان میں وعدوں اور معاہدوں کو توڑنا کوئی نئی بات نہیں یہ خرید فرخت کی سیاست پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے اس لئے شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں اور اس سے خدانخواستہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جو کہ جمہوریت پسند حلقوں کے لئے باعث تشویش ہے۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208543 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More