صرف پاکستانی پر موت کا رقص جاری ہے

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستانی حکومت فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ورلذرپورٹ 2013میں حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو تحفظ فراہم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی فورسز پر ایک بار پھر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا گیا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے نام پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہیں۔جبکہ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر علی دایان حسن نے بین الاقوامی ادارے کو انٹرویو دےتے ہوئے مذہبی اقلتیوں میں شیعہ برادری کے قتال پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انھوں نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ شیعہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کو جلد سے جلد سزا دیں جائیں۔

علی دایان حسن کی جانب سے پاکستان میں تشدد کی لہر کو صرف مذہبی اقلیت تک محدود رکھنے کا عمل سمجھ سے بالاتر ہے کہ شیعہ برادری کو پاکستان میں اقلیتی برادری کیوں قرار دیا جارہا ہے۔جبکہ دہشت گردی کے حوالے سے جتنا نقصان مسلک کے اعتبار سے اہلسنت و الجماعت (سنی مکتبہ فکر) کا ہوا ہے اتنا پوری دنیا میں کسی دوسرے مسلک کا نہیں ہوا۔ علی دایان حسن کا بیان پاکستان میں فرقہ وارانہ عدم استحکام کا باعث بنے گا ۔ انھیں فرقہ واریت کے حوالے سے بیان دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔یہ درست ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں شناخت کرکے شیعہ برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن کچھ ایسی ہی کیفیت دیگر مکتبہ فکر کی بھی ہے جس میں ان کے مدارس ، مساجد اور مزارات اور علما اکرام کے ساتھ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ قتل چاہیے ، شیعہ کا ہو یا سنی کا ، یا کسی بھی مذہب کے نام لیوا کا ہو ، قابل مذمت ہے۔لیکن یہ سب کچھ پاکستان میں سوچی سمجھی سازش کے تحت کروایا جارہا ہے ۔ مسلک اورفرقہ وارانہ تناظر میں عوام کے درمیان کوئی رنجش نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر پاکستان میں اس وقت خانہ جنگی کی صورتحال ہوتی۔جبکہ تیسری قوت کا تمام زور ایسی حوالے سے ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکائی جاسکے ، لیکن انھیں اپنی سازشوں میں ناکامی کا سامنا ہے ۔ ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے حوالے سے اس بات پر انکار نہیں ہے کہ تمام صوبائی ،اور مرکزی حکومت عوام کے تحفظ میں ناکام ہوچکیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عوام الناس میں تصویر کا صرف ایک رخ دیکھا کر فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ علی دایان حسن کا حالیہ بیان اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کی جانے والی مثبت کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔خیبر پختونخوا اس وقت انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ جہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں صرف بے گناہ مسلمان شہید ہو رہے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں پاک افواج کے ساتھ ، بے گناہ عوام کو بغیر کسی مذہبی وابستگیکے نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں تعلیمی ادارے تباہ کئے گئے۔یہاں کوئی شیعہ ، سنی کا مسئلہ نہیں تھا کہ انتہا پسند ، کسی اقلیت کو اس کے مسلک یا عقائد کے بنا ءپر قتل کرتے ۔بلکہ دہشت گردوں کے نزدیک صرف خوف وہراس پھیلا کر عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے ہیں ۔اور حکومت ناکام ۔۔ اسی طرح پنجاب یا سندھ میں بھی اجتماعی طور پر انتہا پسندوں کی جانب سے سب سے زیادہ نقصان غیر شیعہ کو دیا گیا ۔ لیکن اس میں انھوں نے کوئی تخصیص نہیں رکھی اور شدت پسندی کی گوریلا جنگ میں صرف عام عوام کو جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا ۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں کے ساتھ غیر بلوچوں کا بڑی تعداد میں قتل عام کیا گیا اور صرف زبان کی بنیاد پر بلوچستان کو پنجابیوں اور پٹھانوں کے لئے نو گو ایریا بنا دیا گیا ۔ پنجابیوں اور پٹھانوں کے لئے صرف وہی علاقے محفوظ ہیں جہاں بلوچ اکثریت میں نہیں ہیں۔

انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کو بھی بڑے جانی نقصان کا سامنا رہا ہے اور بیرونی خطرات کے علاوہ اندرونی ریشہ دوانیوں کے سبب عوام میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی متواتر کوشش کی جاتی رہی ہے۔جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ،۔جب سرحد پار دشمن پاک فوج کے جوانوں کے سرقلم کرکے یو ٹیوب پر چلائے گا تو ان کے خلاف یا ان کے ہمدردوں کے خلاف پاک فوج کی جانب سے ہر قسم کی کاروائی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حالت جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ایک مکان کو گرنے سے بچائیں اور دوسرے پر حملہ کریں ۔حالت جنگ میں غیروں کے ساتھ اپنوں کا بھی نقصان ہوتا ہے ۔ملکی سلامتی و بقا ءکے لئے اگر پاک فوج کچھ ایسے اقدامات بھی کرتی ہے جس پر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو تکلیف ہے تو ایک پاکستانی اپنی فوج پر کامل یقین رکھتے ہوئے ،کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد و عمل کرتا ہے۔پاکستان اس وقت مکمل طور پر لہو ، لہو ہے ۔پورے پاکستان میں موت کا رقص جاری ہے ۔انتہا پسند ، شدت پسند اور دہشت گرد صرف پاکستانیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ جیسے ہم سنی ، شیعہ ، پٹھان ، پنجابی ، بلوچ ، مہاجر میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ملک دشمن کی نظر میں جانی و مالی نقصان جیسے دیا جارہا ہے وہ پاکستان کا شہری ہے۔ ایسے کسی کے عقائد اور مسلک سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ وہ شیعہ کو اگر شہید کرتا ہے تو اس کا مقصد اتحاد و اخوات کی فضا کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اور اگر وہ سنی کوشہید کرتا ہے تو اس کا مقصد انارکی اور پاکستان کو انتشار میں مبتلا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ علی دایان حسن دہشت گرد صرف پاکستانی کو شہید کرتے ہیں کسی کواقلیت کے نام پر ، شیعہ یا سنی سمجھ کر نہیں کرتا ۔یہاں پاکستان میں صرف پاکستانی کی موت پر دہشت گردی کا رقص جاری ہے ۔ کسی اقلیت پر نہیں !!
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.