ملک کے سیاسی منظر نامہ پر جو
چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے ’’انتشار۔ ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف حکمراں
بلکہ حزب اختلا ف بھی نہ صرف انتشار و بے سمتی کا بلکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے
اس انتشار و بے سمتی اور بوکھلاہٹ کے فروغ میں حسب معمول ٹی وی چیانلز کا
رول نمایاں و بے حد نقصان دہ رہا ہے۔ ملک کے حالات کا قدرے تفصیل سے بیان
طوالت کا طالب ہے جس کے لیے ہمارا یہ کالم کافی نہ ہوگا لہٰذا چند اہم امور
پیش خدمت ہیں جن کا تعلق مسلمانوں سے خاص طور پر زیادہ ہے۔
ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعا ت کی ذمہ داری ایس ایس اور بی جے پی پر
ہونے کی بات کوئی انوکھا انکشاف نہیں ہے اس کھلے راز سے سب ہی واقف ہیں
لیکن جب مرکزی وزیر داخلہ شنڈے نے و اشگاف الفاظ میں ’’ہندوتوا‘‘ کے
علمبرداروں کی دہشت گردی میں آر ایس ایس کا نام لے لیا تو اس بیان پر بی جے
پی کا تو یہ حال ہوا کہ بی جے پی قائدین تلملاکررہ گئے۔ پارلیمان نہ چلنے
کی دھمکی تک دے ڈالی (سچ کڑوا ہوتا ہے)۔
شنڈے صاحب کے زبانی خرچ سے ہنگامہ تو ہوگیا لیکن فائدہ ؟ (کچھ نہیں)۔ ہونا
تو یہ چاہئے تھے کہ وزیر باتدبیرجن کے خلاف ثبوت تھا ان کو گرفتار کرکے ان
پر مقدمہ چلاتے (ثبوت ہونے کا دعویٰ بھی جو کیا تھا) جس طرح ہیمنت کرکرے نے
بغیر اعلان و ہنگامہ کے کرنل پروہت اور سادھوی پر گیہ ٹھاکر اینڈ کمپنی کو
پکڑا تھا۔ شنڈے تو اس سے زیادہ اور بہت کچھ کرسکتے تھے۔
شنڈ ے صاحب نے ہی آرام آرام سے اعلان کیا تھا کہ ایک ماہ بعد (28جنوری تک )
مسئلہ تلنگانہ کا فیصلہ کردیا جائے گا لیکن ایک دوسرے مرکزی وزیر غلام نبی
آزاد (لگے ہاتھوں موضوع سے ہٹ کریہ مشورہ نوٹ فرمالیں کہ کسی بچہ کا بھی
نام ’’غلام محمد، غلام احمد، غلام رسول، غلام علی، غلام حسن یا غلام حسین
نہ رکھیں پتہ نہیں بچہ بڑا ہوکر کس کا غلام بن جائے؟نے چند دن یہ حیرت
انگیز انکشاف فرمایا کہ ایک ماہ کا مطلب ایک ماہ یا 30دن، ایک ہفتے کا مطلب
7دن نہیں اور کل کا مطلب آنے والا کل نہیں بلکہ غیر محدود مدت ہوسکتی ہے۔
یعنی مسئلہ تلنگانہ کا حل یا تصفیہ ’’ٹائین ٹائین فش‘‘ کی 27/1کی رات شنڈے
صاحب نے شرمندگی یا شرما حضوری میں بھی اعلان کردیا کہ مزید وقت درکار ہے۔
مرکزی کابینہ کے دو اہم وزیروں کے دو مختلف اور متضاد بیانات مذاق بن کر رہ
گئے ہیں۔ یہ انتشار ہی نہیں نااہلی، اور وزرأ میں عد م رابطے کا ثبوت ہے
سوال یہ ہے کہ کیا شنڈے نے ایک تلنگانہ کا فیصلہ ایک ماہ میں کردینے کا
اعلان آزاد سے مشورہ کے بعد کیا تھا یا نہیں؟ اگر کیا تھا تو آزاد نے
اعتراض کیوں نہیں کیا تھا؟ اور آزاد کو عین وقت پر مزید وقت اور غیر معینہ
مدت درکار ہونے کا ادراک کیوں ہوا؟ صاف ظٓہر ہے کہ مرکزی حکومت کو تلنگانہ
کے قیام، تلنگانہ عوام کے جذبات اور تلنگانہ کے عوام کے مسائل سے قطعی کوئی
دلچسپی نہیں ہے اور حکومت اپنی نااہلی، کمزوری اور انتشار کے باعث کوئی
حتمی فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ہے۔
مرکزی وزرأ شنڈے اور آزاد کے بیانات سے قبل ہم آندھراپردیش کے کانگریسی
اراکان پارلیمان اور قائدین کے ان بیانات پر غور کررہے تھے جن کا سرکاری
موقف سے نہ صرف تعلق نہیں ہے بلکہ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات سے سنگھ پریوار
کے موقف کی تائید ہوتی ہے مثلاً رکن پارلیمان گوردھن ریڈی نے حیدرآباد کی
تاریخی عمارت چار مینار سے متصل مندر (جس کا 1967ء) تک کوئی وجود نہ تھاکو
چارسوسالہ قدیم بتادیا!۔ چند روز قبل آندھراپردیش کے ایک چھوٹے سے شہر
راجمندری میں کانگریسی رکن پارلیمان وی ارون کمار نے آندھراپردیش کو متحد
رکھنے کی تائید کے لیے منعقدہ ایک اجلاس میں تلنگانہ قائد کے چند رشیکھر
راؤ کو مرحوم سید قاسم رضوی کا جانشین بتایا اور سنگھ پریوار اور 1947-48
کے اخبارات کی اور آل انڈیا ریڈیو کی زبان میں نہ صرف رضا کاروں مرحوم رضوی
صاحب بلکہ حضور نظام مرحوم کے من گھڑت، مفروضہ اور غیر مستند مظالم کی
داستانیں جذباتی انداز میں بیان کی ہیں اسی اجلاس میں پردیش کانگریس کے صدر
بوتسا ستیہ نارائینہ کے شریک ہونے کا آخر کیا جواز تھا؟ اور اگر وہ بے
اصولی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شریک ہوہی گئے تھے تو ان کو وی ارون کمار کی ایک
ایسی تقریر جو نہ صرف فرقہ واری بلکہ علاقائی نفرت و تعصب کو فروغ دینے کا
باعث ہے اعتراض کرنا چاہئے تھا لیکن کانگریس پر طاری انتشار اور بوکھلاہٹ
نے ہر ناروا اور ناجائز بات کو روا اور جائز بنارکھا ہے۔ کانگریس
آندھراپردیش میں ایک مسئلہ کو دوسرے مسئلہ پر سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال
کررہی ہے اور یہ دومسئلے ہیں تلنگانہ اور ایم آئی ایم کے خلاف حکومت کی
انتقامی کارروائیاں اور ان دونوں مسئلوں کو برقی بلوں میں اضافہ اور مسلسل
و متواتر پڑھنے والی مہنگائی اور قیمتوں پر توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا
جارہاہے۔
مہاراشٹرا میں دھولیہ کا فساد، پولیس کے محکمہ کے ترجمان رسالے میں انسپکٹر
سجاتا پاٹل کی نفرت اور تعصب سے بھر پور نظم کی اشاعت، جان بچاکر بھاگنے
والے مظلوم مسلمانوں پر گولیاں چلانے اور مسلمانوں کا مال و متاع لوٹنے
والے پولیس والوں اور ان کے افسران کے خلاف سخت ترین کارروائیوں کی جگہ
رسمی کارروائیاں کمزوری سے زیادہ انتشار اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں وجہ یہ
ہے کہ کرپشن اور ناانصافیوں میں ملوث حکومت پولیس سے خائف ہے کیونکہ اسی
پولیس نے ماضی میں حکومت کے اشارے پر مظالم کئے ہیں۔ راج ٹھاکر نے بہاریوں
کے خلاف جو بہتان طرازی کی اس پر کانگریس کی خاموشی اور کارروائی سے گریز
اورمستحکم حکمت عملی سے محرومی اور انتشار سے بھر پور حکومت عملی پر عمل
ہے۔
یو پی اے کے دوسرے دور میں حکومت کے بیشتر فیصلے عوام کے خلاف اور ان کے
لیے ناپسندیدہ رہے ہیں بلکہ کئی فیصلے تو یو پی اے میں شامل یا کانگریس کی
حلیف جماعتوں سے مشاورت کے بغیر اور ان کی مرضی کے خلاف کئے گئے ہیں لیکن
مسئلہ تلنگانہ کے حل کے لیے مشاورت اور باہمی رضامندی کی ضرورت ہے؟ آخر کیا
ظاہر کرتی ہے۔
مہاراشٹرا جیسی اہم ریاست میں کانگریس شردپوار اور ان کی اہم جماعت این سی
پی سے دوری کے لیے آمادہ ہے لیکن سونیا گاندھی کے ہم مذہب اور مقرب خاص
انٹونی (وزیر دفاع) پر شردپوار کو اہمیت اور ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں
ہے چاہے شردپوار شیوسینا کے ساتھ ہوجائیں اور کل شیوسینا کے ساتھ این ڈی اے
میں شامل ہوجائیں اور ملک پر عملاً بی جے پی کا راج ہوجائے۔
مرکزی حکومت اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے جو امداد فراہم کرتی
ہے اس کا گجرات اور بہار میں استعمال برائے نام ہوا ہے لیکن مصلحتوں کی
شکار اور مودی اور نتیش کمار سے بری طرح خائف اور خاموش ہے کسی کو پتہ نہیں
ہے کہ روپیہ کہاں جارہا ہے؟ امداد جاری کرنا اور اس کے استعمال پر نظر نہ
رکھنا آخر کیا ہے؟ نہ صرف مذہبی بلکہ علاقائی اور ذات پات کا تعصب و منافرت
دن بہ دن بڑھ رہی ہے جس کے ثبوت مہاراشٹرا میں بہاریوں کے خلاف راج ٹھاکرے
کی مہم جنوبی ہند میں شمال مشرقی ہند کے باشندوں کے خلاف چلائی گئی مہم کے
خاطیوں کو کیا سزا ملی؟ تعصب سے پاک خیال کئے جانے والے ٹاملناڈو میں
مسلمانوں کے خلاف کمل ہاسن کی فلم کا مسئلہ ہے دلتوں پر مظالم اسیش نندی
جیسے لوگ پسماندہ طبقات اور دلتوں کو جرائم پیشہ بتاتے ہیں۔ نوجوانوں کو
انڈین مجاہدین کا کارکن بتاکر گرفتار کرنا اور ثبوت نہ رکھنا اور پختہ
ثبوتوں کا حامل ہونے کے باوجود آر ایس ایس اور مسلم دشمن دہشت گردوں کے
خلاف صرف بیان بازی اور عمل سے احتراز انتشار اور صرف انتشار ہے۔
میڈیا کے پروپگنڈے کا شکار ہوکر26/11کے اصلی ماسٹر مائنڈ ڈیوڈ ہیڈلی کی جگہ
حافظ سعید پر ساری توجہ مرکوز رکھنا۔ ہیڈلی کے جرائم کو چھپانے کے لئے
امریکہ نے 26/11کے اصل مجرم ہیڈلی کی جگہ حافظ کو دہشت گرد اور ان کے لیے
انعام کا اعلان کیا اور ہم ہیڈلی کو بھول کر حافظ سعید کی فکر میں لگ گئے۔
پروپگنڈے سے متاثر حکومت نے بے شمار غلط فیصلے کئے ہیں اور اپنے انتشار و
بوکھلاہٹ کا مظاہر ہ کیا ہے۔ یہ سب کب تک چلے گا؟ |