سلمان رشدی٬ پرویز الہی٬ بے نظیر بھٹو اور ہم عوام

موجودہ نائب وزیر اعظم پرویز الہی نے 23جون 2007ءلاہور کے دورہِ شاہ پور کانجراں میں بکر منڈی کے افتتاح کے موقع پر اپنی پنجاب کی وزرات اعلی میں پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ایک سخت بیان دےتے ہوئے کہا تھا کہ"بے نظیر بھی اُسی طرح قصور وار ہے جس طرح گستاخ ِ رسول سلمان رشدی قصور وار ہے ۔دو مرتبہ وزریر اعظم رہنے والی بے نظیر ملک سے باہر جاکر اسلام کا نام ہی بھول گئی اور وہ شاتم رسول سلمان رشدی کی رعایت میں زیادہ فکر مند نظر آتی ہیں، عوام کبھی بھی گستاخ ِ رسول اس کی حامیوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔"آج یہی پرویز الہی بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے منظور نظر ہیں اور بے نظیر بھٹو کےلئے والہانہ نعرے لگانے لگانے والے جیالے اپنی لیڈر کے بارے میں پرویز الہی کے بیانات کو بھول کر مفاہمت کی پالیسی کو کامیاب بنانے کےلئے نام نہاد جمہوریت اور پانچ سالہ حکومت کی تکمیل پر خوش نظر ٓاتے ہیں۔ پرویز الہی کی نظیر بھٹو مرحومہ کے خلاف یہ تقریر اس وقت سامنے آئی جب سلمان رشدی کے خلاف مسلم امہ کی جانب سے شدید غم وغصے کا اظہار کیا جارہا تھا اوراُس وقت محترمہ نے بیان دیا کہ"سلمان رشدی پر خود کش حملہ جائز قرار دینے پر حکومت اعجاز الحق کو برطرف کرے"۔مرحومہ کے اس بیان پر شدید ردعمل ہوا تھا اور راولپنڈی میں مری روڈ ، فیض آباد ، شمس آباد ، اسلام آباد میں آبپارہ چوک اور پارلیمنٹ لاجز میں بینرز آویزاں کئے گئے جن پر بے نظیر بھٹو کے خلاف"رشدی کی وکیل بے نظیر ، رشدی سے بے نظیر کی ہمدردی امت مسلمہ کےلئے لمحہ فکریہ ہے"جیسے نعرے درج تھے۔جبکہ اُس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور ، زکوة محمد اعجاز الحق نے کہا کہ" بے نظیر بھٹو ، سلمان رشدی کی وکالت نہ کریں"۔اُس وقت کے پنجاب اسمبلی کے سپیکر افضل ساہی نے کہا تھا کہ" شاتم رسول واجب القتل ہے اور ان کے سامنے آیا تو وہ خود اسے قتل کردیں گے"۔جبکہ پنجاب اسمبلی نے بے نظیر بھٹو کے خلاف حکمراں جماعت نے وزیر اعلی پرویز الہی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے روئے اور بے نظیر کے بیان پر احتجاجی واک واٹ بھی کیا۔ جبکہ او آئی سی کے مبصر اور سنیئر مذاکرات کار محمد فیصل نے اپنے ایک بیان میں بے نظیر بھٹو کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ" انھوں نے سلمان رشدی کی حمایت میں بیان جاری کرکے سوا ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے ۔" سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے مرتدمصنف سلمان رشدی آج کل بھارت کے دورے پر ہیں اور بھارتی حکومت ایسے مکمل پروکوٹول دے رہی ہے جس پر بھارتی مسلمانوں میں زبردست اشتعال ،غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ لیکن پاکستانی مسلمانوں کی دماغی حالت اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ وہ اُس وقت کو بھول گئے جب پوری دنیا میں سب سے زیادہ احتجاج پاکستان میںکیا جا رہا تھا ۔پاکستانی عوام اپنی سیاسی یاداشتوں کی حوالے سے بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔ پرویز الہی اور بے نظیر بھٹو کے حوالے سے چھ سال پرانی خبر کا مقصد یہی یاد کرانا تھا کہ ہم اپنے" لیڈروں "کے اقوال و افعال تک کو فراموش کردےتے ہیںکل تک شاتم رسول کی گردان کرنے اور قاتل لیگ کہنے والے آج ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں لیکن عوام میں احساس کی معمولی رمق بھی باقی نہیں ہے کہ ان کا محاسبہ کر سکیں۔جس طرح امام خمینی کے 23سال بعد بھی رشدی کے خلاف فتوی کے باوجود ، شاتم رسول زندہ ہے اور اسلام کی تضیحک کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے تو اس اصل سبب یہی ہے کہ پاکستان سے لیکر ہر مسلم ممالک میں اتنی قابلیت اور اہلیت و جرات ہی نہیں ہے کہ اسلام کےخلاف ہونے والی سازشوں کو روک سکیں۔اس کی بنیادی وجوہات اہم جز عوام میں سیاسی شعور کی کمی اور اسلاف پرستی کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ہم اپنے مستقبل کے فیصلہ کرنے کےلئے قطعی طور پر فہم سے کام نہیں لیتے اور ان لوگوں کو دوبارہ مسلط کر لیتے ہیں جو ہمیشہ ہماری کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ اقتدار کےلئے جہاں سیاسی جماعتیں عوام کو اپنے منشور کے حوالے سے دھوکے میں رکھتی ہیں تو دوسری جانب عوام بھی خود فریبی میں مبتلا ہوکر ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ ان ہاتھوں میں دے دیتی ہے جو ان سے مخلص نہیں ہوتے۔پاکستان میں متوقع انتخابات سے قبل جس طرح سیاسی جماعتوں میں وڈیرے ، اور با اثر افراد اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کر رہے ہیں وہ عوام کےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ پانچ سال تک خاموشی کے ساتھ اپنی وزارت سے فوائد اٹھانے والے ممکنہ حکومت کی بالادستی کے تصور کے تحت کبھی تحریک انصاف ، تو کبھی مسلم لیگ ، میں دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی نشستوں پر کامیابی کےلئے مخالف جماعتوں کے اراکین شامل کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے تو دوسری جانب پارٹی بدلنے کا مقابلہ جاری ہے۔ یہیں پر سوچنے کی بات ہے کہ اگر سیاسی جماعت اپنے منشور پر گامزن ہے تو پھر چند روز قبل شامل ہونے والے دوسری جماعتوں کے اراکین کو انتخابات کےلئے ٹکٹ کیوں دے رہی ہے؟۔اصل میں پاکستان میںسب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں احتساب کا کوئی عمل موجود ہی نہیں ہے ۔جاگیر دار ، صنعت کار ، وڈیرہ ، خوانین اور سردار وں کا حق صوبائی ، قومی اور سنیٹ کی نشستوں پر مستحکم ہے۔جب ملک میں 227سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوں تو قابل غور بات ہی یہی ہے کہ کتنی سیاسی جماعتیں فعال ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کر رہی ہیں۔الیکشن کمیشن نے انتخابات میں جب پچاس ہزار روپے فیس رکھنے کی تجویز رکھی تو اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انتخابات غریب کےلئے ممنوع ہیں۔عوام کو بھول جانے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا ۔ انھیں دیکھنا ہوگا کہ انکی درست نمائندگی کون کر رہا ہے؟ ۔اپنی حالت میں تبدیلی کا خواب آنکھوں میں سجانا ہے تو پھر عملی کردار بھی ادا کرنا ہوگا ۔ ورنہ پھر اچھی طرح سمجھ لیں کہ اپنے مستقبل کا انتخاب عوام کےلئے ممنوع ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.