کشمیر، ۵ فروری اور قاضی حسین احمد
(syed abrar gardezi, rawalpindi)
قاضی حسین احمد نے جب 1987ءمیں
جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھالی تو مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد
آزادی کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ کشمیری محسوس کر رہے تھے کہ پر امن جدوجہد
کے ذریعے بھارت سے آزادی پاناممکن نہیں،اس کے لیے مسلح جدوجہد ناگزیر
ہے۔بیس کیمپ اس سلسلے میں ہمیشہ کی طرح یکسر بے حس تھا، یہاں کے آقاؤں کے
وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جنھیں روزانہ صبح و شام آزاد کشمیر ریڈیو
مظفرآباد ”تم بھی اٹھو اہل وادی ‘ ‘کی صدائیں دیتا ہے، وہ نہ صرف اٹھ چکے
ہیں بلکہ پوری طرح بیدار ہو چکے ہیں۔ چنانچہ 1989ءمیں جہاد کا غلغلہ بلند
ہوا اورجنت ارضی پر کئی دہائیوں سے دبی آزادی کی چنگاری شعلہ جوالہ بنی تو
ہزاروں مجاہدین و مہاجرین قافلہ در قافلہ فلک بوس برفانی چوٹیاں عبور کر کے
تحریک آزاد· کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیرآنا شروع ہوئے تو مظفر آباد و
اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، اس مشکل
مرحلے پر بیس کیمپ میں جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ اور کچھ دیگر تنظیموںنے
ان مہاجرین اور ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا بیڑہ اٹھایا مگر یہ کام
اتنا سہل نہ تھا ۔کسی بھی جماعت کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ جوق در جوق
آنے والے ان وفا شعاروں کو چند روز مہمان رکھ سکیں، قریب تھا کہ آزادی کا
سہانا خواب دلوں میں سجا کے آنے والے بیس کیمپ میں مارے مارے پھرتے یا پھر
مایوسی کا شکار ہوجاتے کہ قاضی حسین احمد نے ملتان میں اسلامی جمعیت طلبہ
کے اجتماع عام سے اہل پاکستان کو مخاطب کیااور قوم سے اپیل کی کہ کشمیر سے
ہزاروں نوجوان، مرد، بزرگ اور خواتین آزادکشمیر پہنچ رہے ہیں لیکن
آزادکشمیر اور پاکستان کی حکومتیں ان کی مدد نہیں کررہیں، پاکستانی قوم آگے
بڑھ کر ان کی مدد کرے۔انہوں نے پاکستان کے عوام کو اہل کشمیر کی پشت پرلا
کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا اوراسے عملی شکل دینے کے لیے ۵ فروری1990ءکا دن
کشمیری عوام سے یک جہتی کے اظہار کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔اقتدار کے
ایوانوں میں بیٹھے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی بیرونی
دباؤکے باوجود پیچھے نہ رہے۔انھیں بھی قوم کی آواز کے ساتھ ہم آواز ہونا
پڑا۔پھر اقوام عالم نے دیکھا کہ کراچی سے خیبر تک پاکستانی قوم نے بے مثال
جذبے سے اہل کشمیر کو باور کرایا کہ ”اے اہل کشمیر!آزادی کی اس جدوجہد میں
تم اکیلے نہیں،ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“قوم، حکومت، حزب اختلاف اور حزب اقتدار
ہی نے نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں اور طبقات نے کشمیریوں کے ساتھ یک
جہتی کا دن منایا۔ اس عظیم الشان یک جہتی کے مظاہرے نے ایک طرف کشمیریوں کو
عزائم و حوصلے بلندکیے اور دوسری طرف پوری دنیا کوباور کرایا کہ کشمیرصرف
کشمیریوں کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم اور اس کے بچے بچے کا مسئلہ
ہے۔یوںقاضی حسین احمد نے کشمیریوں کی اس تحریک کو پاکستانی رائے عامہ میں
اونرشپ دی۔
قاضی صاحب دل و جان سے تحریک آزاد· کشمیر کے پشتی بان بنے تو دامے درمے،
قدمے سخنے ہر اعتبار سے مجاہدین و مہاجرین کشمیر کی مدد کو اپنا وظیفہ بنا
لیا۔قاضی صاحب سے کشمیر کی آزادی کے لیے جو بھی بن رہا تھا کر رہے تھے۔ ان
کا بس چلتا تو خود ہتھیار بدست ہو کر دشمن پرجھپٹ پڑتے لیکن قدرت نے انہیں
ایک اور محاذ پر مامور کر رکھا تھا اور وہ تھا سیاسی اور سفارتی محاذ۔ اس
محاذ پر انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں کھپا دیں۔ قاضی حسین احمد نے کشمیر کے
ساتھ یک جہتی کے اس تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے پورے ملک میںکشمیرپر درجنوں
قومی کانفرنسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا( یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے )۔ وہ
کام جو حکومتوں کے کرنے کا تھا ، قاضی حسین احمد اور ان کی جماعت نے اس کا
بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے قدم قدم پر تحریک آزاد · کشمیر کو قوت فراہم کرنے کے
ضروری وسائل فراہم کیے اور رہبری کی۔قاضی صاحب نے پاکستان میں جماعت کی
ساری تنظیم اور برادر تنظیموں کو کشمیر اور اہل کشمیر کی خدمت کے لیے وقف
کر دیا۔ اہل خیر کے سامنے خود جھولی پھیلائی اورخدمت اور کشمیر سے وابستگی
کا ایک والہانہ انداز متعارف کروایا۔ملک کے اندر رائے عامہ بنانے کے ساتھ
ساتھ انہوں نے سفارتی محاذ پرخصوصی توجہ دی ۔ دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں
کی قیادت کو یہ اہداف دیے کہ اپنے اپنے ممالک میں رائے عامہ اور حکومتوں کو
کشمیر کی صورت حال اور بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جائے اوربھارتی عزائم بے
نقاب کیے جائیں۔الحمدﷲاسلامی تحریکوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں پوری مسلم
دنیا میںکشمیر کے حوالے سے مثالی کام کیا۔ شملہ معاہدے کے بعد او ۔ آئی ۔سی
کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میںپہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے
مسئلہ کشمیر کی باز گشت سنی گئی اور اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی
میں حق خود ارادیت کے ذریعے مسئلے کے حل کرنے پر زور دیاگیا۔او آئی سی نے
بعد ازاں کشمیر رابطہ گروپ اور کشمیر ریلیف فنڈ قائم کیے اور حریت کانفرنس
کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی دیا گیا۔پھر یہ مسئلہ او آئی سی کی
وساطت سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں
میں زیر بحث آیا۔ اس سارے عمل میں اگرچہ بنیادی کرداراہل کشمیر کی لازوال
قربانیوں کا ہے مگر بین الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان اور او آئی سی کو
مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنے میں قاضی صاحب کا تاریخی کردار ہے،
جسے کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔اس کا اعتراف سابق وزیر اعظم آزاد
کشمیر ممتاز راٹھور کر چکے ہیں جن کا اپناتعلق پیپلز پارٹی سے تھا،راٹھور
صاحب نے نہ صرف قاضی صاحب کی مظفر آباد آمد پر انہیں گارڈ آف آنر پیش کرنے
کا اعلان کیا بلکہ کشمیر کاز کے لیے ان کی شان دار خدمات پر انہیں ”نشان
کشمیر“ بھی پیش کیا ۔
قاضی صاحب پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے پشتی بان کے طور پر اپنی خاص
پہچان رکھتے تھے ۔انہیں سارے جہاں کا درداپنے جگر میںلینے کا طعنہ بھی دیا
جاتا تھالیکن کشمیر اور اہل کشمیرکے ساتھ ان کا تعلق بہت منفرد تھا۔اس تعلق
کی دو جھلکیاں ناقابل فراموش ہیں:جب پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت نے
لائن آف کنٹرول سے متصل آبادی پر شیلنگ کر کے ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونے
پر مجبور کر دیاگیا اور وادی نیلم کا محاصرہ کر لیا تھا توپیرانہ سالی اور
دو بائی پاس آپریشن ہو نے کے باوجودقاضی حسین احمد ہر جگہ خود بہ نفس نفیس
پہنچے۔ ۸ اکتوبر2005ءکوخوفناک زلزلے کی صورت میں جب آزا دکشمیرمیں قیامت
صغریٰ برپا ہوئی توقاضی حسین احمد پہلی شخصیت تھے جوفوراًمتاثرہ علاقوں میں
پہنچے، ریلیف کیمپس قائم کروا ئے اور پوری جماعت کوریلیف کے لیے وقف کر
دیا۔
قاضی صاحب کی وفات سے اہل کشمیر اپنے ایک بہت بڑے محسن سے محروم ہو گئے ہیں
۔آج جب ۵ فروری کو یوم یک جہتی کے موقعے پر قاضی حسین احمد ہم میں موجود
نہیں تو سبھی کشمیری آزردہ و دل گرفتہ ہیں۔سبھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ا
یک نہایت مشفق، مہربان اور کشمیر کاز کے سرگرم عمل وکیل کا سایہ ان کے سر
سے اٹھ گیا ہے۔ لیکن اللہ مسبب الاسباب ہے۔ بھلا وہ کب اپنے بندوں کو مایوس
کرتا ہے۔ان شاءاﷲ کشمیر کی آزادی کا جو خواب قاضی صاحب نے دیکھا تھا اور جس
کے لیے گیلانی صاحب کی قیادت میں پوری کشمیری قوم متحد ہے، ضرور پورا ہو
گا۔ |
|