آج۵ فروری ہے اورآج کا دن ہم
اپنے ان مظلوم کشمیری بھائیوں سے بطور اظہار یکجہتی مناتے ہیں جو گذشتہ کئ
دہائیوں سے ھندوستانی مظالم صرف اس لیئے سہ رہے ہیں کہ انکو ھندوؤں کی
غلامی قبول نھیں،اور وہ آج بھی اس نعرے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق
چاہتے ھیں،کہ جو تحریک پاکستان کے وقت مسلمانان ہند نے بلند کیا تھا۔یعنی
’’لاالہ الا اللہ،،اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے کشمیری عوام نے
نہ صرف خون کی کئ ندیاں عبور کیئں بلکہ وہ آئندہ بھی ہر قسم کی قربانیاں
دینے کے لیئے تیار نظر آتے ہیں ۔دوسری طرف اگر بات کی جائے موجودہ پاکستانی
حکومت کا تو وہ کشمیر کے حوالے سےایک شرم ناک پوزیشن کے ساتھ منظر نامے میں
موجود ھے۔حالانکہ بابا قوم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کا شہ رگ
قرار دیا تھا،اور اپنے شہ رگ کو ھندوستانی چنگل سے چھڑانے کے لیئے بابائے
قوم نے آزاد قبائل کو مشن سونپا جنہوں نے بہت کم عرصے میں انڈین آرمی
کوناکوں چنے چبواکر کشمیر کے ایک بڑے حصے کو ھندوستان کے غاصبانہ قبضے سے
چھڑایا۔ انڈیا نے جب کشمیر کو اپنے ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو انہوں نے نے اس
مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا ۔جہاں سے یہ فیصلہ آیا کہ کشمیریوں کو یہ
حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرے ـجب سلامتی کونسل نے
کشمیریوں کو یہ حق دیا کہ ﷺہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا چناؤ
کرنے میں آزاد ہے تو اسکے بعداصولا تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ہندوستان یہ
فیصلہ تسلیم کرتا کیونکہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے والا ہندوستان
خودھی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی ہندوستان نے اقوام متحدہ جیسے عالمی
ادارے کی مینڈیٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ بر
قرار رکھا۔
ہندوستان کے ظالمانہ قبضے کہ خلاف جہاں ایک طرف اہل کشمیر نے شجاعت و
بہادری کی کئی داستانیں رقم کی تو وہی پاکستانی عوام اور ماضی کی پاکستانی
حکومتٰیں اپنے کشمیری بھایئوں کے شانہ بشانہ رہے۔ گوکہ پاکستانی عوام کے دل
تو آج بھی اپنے کشمیری بھایئوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد
حکومتی مؤقف دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے اور اس بات کا اندزہ
اپ اس بات سے لگائیں کہ اپنے ظالمانہ دور حکومت مٰن سابق امر پرویز مشرف نے
کشمیر کے بٹوارہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے
مین کامیاب نہ ہوسکا۔مشرف سے تو خیر اتنا گلہ بھی نہیں کہ وہ تو ناجائز
طریقے سے زبردستی بزور قوت اس ملک پر مسلط ہوا تھا۔لیکن ہمیں اگر دکھ ہے تو
وہ موجودہ جمہوری حکومت کے رویے پر ہے ۔ کیونکہ موجودہ حکومت نہ صرف عوام
کا منتخب کردہ حکومت ہے بلکہ یہ حکومت خود کو پیپلز پارٹی کے بانی ذہالفقار
علی بٹھوکے پیرو سمجھتے ہیں،حالانکہ مرحوم ذوالفقار علی بٹھو کا مؤقف کشمیر
کے حوالے سےبڑا ٹھوس اور واضح تھا ۔ جبکہ موجودہ حکومت نے نہ صرف اپنے بانی
کے مؤقف کو نظر انداز کردیا ہے بلکہ یہ حکومت ہندوستان کے حوالے سےوہ فیصلے
کرنے کے لیئے بھی بےتاب نظر آتی ہےکہ جن کا تصور کرنا بھی پاکستان اور اہل
پاکستان کے لیئے ممکن نہ تھا۔
دوسری طرف اگر ہندوستان کو دیکھا جائے تو وہ ہماری ناکام داخلہ اور خارجہ
پالیسیوں کا بھرپور فائدہ اٹھاکر ایک طرف کشمیری عوام کا خون چوسنے مین
مصروف ہے تو دوسری طرف تجارت کا لالچ دے کر تو کبھی دھمیاں دے کرہم پر رعب
جمانے کی کوشش کر رہاہے۔حالانکہ اگر پاکستانی حکومت تھوڑی بہت بھی غیرت و
حمیت کا مظاہرہ کرے تو اس سے نا صرف انڈیا کا بگڑا ہوا دماغ ٹھکانے آسکتا
ہے بلکہ کشمیر کو آزادی بھی مل سکتی ہے۔لہذا اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان
کی تکمیل ہو کر وہ دنیا میں با عزت مقام حاصل کرے، تو میں سمجھتا ہوں کہ
پھر آج کے اس اہم دن پاکستان کو یہ فیصلہ کرلینا چاہیئے کہ اج کے بعد
پاکستان اہل کشمیر کے سفارتی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ انکا عسکری
حمایت بھی کرے گا ،کیونکہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیئں کہ کشمیری عوام
اپنا کم اور پاکستان کی بقا کے جنگ زیادہ لڑرہے ہیں ،اس لیئے کہ کشمیر
نظریاتی،مذہبی اورجغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے اور آنے والے کل میں
رہے گا بھی. انشاءاللہ. |