یقیناجنگ ایک بھیانک چیز ہے ۔۔۔اور
اس کا نتیجہ درد، کرب ، بے بسی اور پھر موت ہے۔۔۔جیسا کہ کریسس نے شکست
کھانے کے بعد فاتح سائرس سے کہا تھا۔
''کون ہے جو امن پر جنگ کو ترجیح دے گا''
امن میں بیٹے اپنے باپ کو دفن کرتے ہیں۔ ۔۔اور۔۔۔جنگ میں باپ اپنے بیٹوں کو
۔۔! جنگ اپنے وجود اور ترکیب میں معاشرت ہی کا اظہار ہے ۔ ایک معاشرے کی
دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش ہی جنگ کو جنم دیتی ہے۔ دونوں جانب سے جنگی پیچ
و خم اور انسانی رویئے معاشرتی اقدار کے تابع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہی
اقدار فتح اور شکست کا سبب بنتی ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ'' جرات،وقار اور وفاداری کی قدرو قیمت کا اندازہ دشواریوں
میں ہی ہوتا ہے اور ایک جنگ سے دشوار کیا ہوسکتا ہے؟بے شک جنگ تباہ کن ہوتی
ہیں۔ لیکن انسانی حوصلے ، صبر اور ہمت کا امتحان بھی انہی میدانوں میں ہوتا
ہے۔
میرا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان کی عوام انہی دشواریوں ،مشکلوں اور
انہی امتحانوں میں ہے۔ آخر اس امتحان کا وقت کب ختم ہوگا، ہمیں اس کے بارے
میں ہرممکن سوچنا ہوگا، صوبائی تعصب ، لسانی بنیادیں ، فرقہ واریت ،انتہاپسندی
اور ان تمام لعنتوں سے باہر ہوکر ایک پاکستانی ہونے کے ناطے پاکستان کے لیے
کچھ سوچنا ہوگا، آج پاکستان میں کسی کی بھی عزت ،جان و مال، کسی بھی چیز کی
حفاظت نہیں ہے۔ آئین و قانون کی تہس نہس کر دی گئی ہے۔ طاقتور ہر کمزور پر
حاوی ہے ، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ کوئی فورس ، کوئی ادارہ،
کوئی کورٹ، کوئی تھانہ اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ۔ یہ ریاست کس کے
ہاتھ میں ہے ۔ کون لوگ ہیںیہ، اور ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے لوگ کس
عوام کے نمائندہ ہیں۔ کیا یہ عوام ہمیشہ ان ایوانوں،بڑے بڑے محلوں، اونچی
انچی دیواروں کے پیچھے چھپنے والوں کے لیے اپنی جان ومال ، عزت اورارمانوں
کی قربانیاں دیتی رہے گی۔ آخر کب تک؟ کیا ہمارے حکمرانوں کے دلوں سے اللہ
تعالیٰ کا خوف ختم ہوگیا ہے ، کیا اِن تمام لوگوں کو آخرت ، قبر اور موت یا
د نہیں ، کیا ان سب کو معلوم نہیں کہ انکی ہر سانس جو زندگی کے لیے لے رہے
ہیں وہ کسی بھی وقت رُک سکتی ہے۔ کیا اِن تمام لوگوں کو اُس یتیم بچی کی
سسکیاں ، آہیں اور بددُعائیں اللہ کی عدالت سے بچاپائیں گی جس کے باپ کو بے
گناہ ٹارکٹ کلنگ میں ماردیا گیا ۔ جس کے انتظار میں آج بھی یہ بچی گھر کے
دروازے پر دن میں کئی مرتبہ کھڑی انتظار کرتی اپنی ماں سے یہ پوچھتی رہتی
ہے کہ بابا کب آئیں گے ، ٹافیاں کب لائیں گے۔ آخر کب تک اس کی بیوہ ماں جو
زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ بن چکی ہے۔ وہ تنہا اپنی آنے والی تمام زندگی میں
ارمانوں اور خوابوں کو اپنے آنسوﺅں سے دھوتی رہے گئی۔ آخر کب تک۔ ۔؟
ہمیں یہ سب روکنا ہوگا۔ اس کے لیے ہر پاکستانی سوچے ، سب اختلافا ت ، لڑائی
جھگڑے ،مفادات اور، انا کو بھلا کر پاکستان کی عوام کو امن دینا ہوگا، ورنہ
ایسی کئی بچیاں اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑے اپنے بابا کے آنے کا انتظار کرتی
رہیں گئیں اور یہ حکمران اقدار کے ایوانوں میں زندگی کے مزے لوٹتے رہیں گے۔
پاکستان کا مستقبل اسلام اور عالمی برادری دونوں کے لیے بہت اہم ہے ۔میری
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اس ارضِ پاک کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور جن
مسائل کا ہم شکارہیں اُن کو اپنی رحمت سے دور فرمائے اور ہماری قوم کو وہ
شعور عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم نعمت یعنی پاکستان کی قدر و قیمت کو صحیح
معنوں میں پہچان لیں۔ساتھیوں اس موقع پر ہمیں پاکستان کے لیے بہت کچھ سوچنا
ہے اور جن چیزوں کی ہمارے اندر کمی ہے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات
کرنے ہیں۔ لیکن ہمیں کسی احساس محرومی یا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی
ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیزیں اور پریشانیاں ہمارے حوصلوں کو پست کردینے والی
ہیں۔ اور سوائے نقصان کے کچھ نہیں دے سکتیں۔ اس لیے مثبت اور تعمیری سوچ
اپنائیں، ہر چیز میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے ، ہم اس وقت بہت
ساری قوموں اور ملکوں سے پیچھے ضرور ہیں لیکن سب سے پیچھے ہر گز نہیں، اس
لیے مثبت اور تعمیری انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور آج کے دن اس
جملے کو اپنے دماغ سے نکال پھینکیں کہ پاکستان میں کچھ نہیںہے، بلکہ یہ
سوچیں کہ پاکستان میں بہت کچھ ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور
کبھی اس بات کومت سوچیں کے پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے بلکہ یہ سوچیں کہ ہم
نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔۔!
آخر میں ایک دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ آباد رکھے اور اس
پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو آپس میں اتفاق اور اتحاد سے اس
پاکستان کی تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنے کا جذبہ عطافرمائے ۔(آمین)اللہ
ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ (آمین!) |