کراچی میں علمائے کرام کی شہادتیں اور بے حس حکمران

لیجئے رحمان بابا کی ایک اور پیش گوئی پوری ہوئی اور شہرقائدایک بار پھر خاک و خون میں لتھڑا ہوا سیکیورٹی اداروں کا منہ چڑارہاہے سمجھ نہیں آرہاکہ انہیں اس کامیاب پیشگوئی پر مبارکباد پیش کی جائے یا انہیں شہریوں کو یوں زندہ لاشوں کی طرح گدھوں کے سامنے پھینک دینے اوراپنی ذمہ داریوں سے تغافل برتنے پر مطعون کیاجائے ۔میراخیال ہے مبارکباد کا لفظ ہی بہتر رہے گاکہ اب طعن و تشیع اور تنقید کامطلب شائد موصوف نے تعریفی اسناد سمجھ لیا ہے۔ غضب خداکا آپ اندازہ کریں کہ دوکروڑ کی آبادی والے پاکستان کے معاشی ہب روشنیوں کے شہرکراچی میں گزشتہ برس تین ہزار افرد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اورانہیں جس طرح دن دیہاڑے بلاخوف و خطر گاجرمولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیاگیا اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ روز اس وقت دیکھنے کو ملا جب بنوری ٹاؤن کراچی کے تین معروف علمائے کرام مفتی عبدالمجید دین پوری ،مفتی صالح محمدکاروڑی اورمولانا سیداحسان شاہ صاحب کو شارع فیصل پر انتہائی بیدردی سے شہید کرنے کامنظرسی سی ٹی وی فوٹیج نے محفوظ کرلیا جو بعد ازاں میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گیا تین موٹرسائیکل سواروں نے صرف پندرہ سیکنڈ میں جس طرح یہ کاروائی مکمل کر کے آرام سے راہ فرار اختیار کی اس سے جہاںقاتلوں کی مہارت کا ندازہ ہورہاہے وہیں حکومتی نااہلی کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ رہاہے ۔ اگرچہ اسلام کسی بھی انسان کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے لیکن ایک عالم کی موت کو پوری دنیاکی موت قراردیتا ہے فرمایا''موت العالم موت العالم''یعنی ایک عالم کی موت پوری انسانیت کی موت ہے ''اور موجودہ دور میں جس طرح علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہیدکیا جارہاہے یہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے صرف بنوری ٹاؤن کے ہی شہید ہونیوالے علمائے کرام پر نظر ڈالیں تو اس کی ہمیں مولانا ھبیب اللہ مختار،مفتی عبدالسمیع،مفتی نظام الدین شامزئی،مولانا یوسف لدھیانوی،مولانا سعیداحمد،مولانا سعیداحمد جلالپوری اورمولانا انعام اللہ سے ہوتی ہوئی مفتی عبدالمجید اور ان کے ساتھیوں تک ایک طویل فہرست نظرآتی ہے یہ وہ تمام جید علمائے کرام تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں علم دین سیکھنے اور سکھانے میں صرف کردی تھیں یعنی امت کے افضل ترین لوگوں میں ان کا شمارہوتا تھا کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے''تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور سکھائے''-

عوام حیران ہیں اور یہ سوالات ہر پاکستانی کے قلب و ذہن میں کلبلا رہے ہیں کہ کیا حکومت اور خصوصاََ وزیر داخلہ صاحب کا کام صرف عوام کو مرنے کیلئے تیاررہنے کی نوید سنانا اور موبائل سروس بند کرنا ہی رہ گیا ہے اگر اسی کو حکومت کہتے ہیں جس پر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھاری تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں تو وہ خدارا ہم پر رحم کرتے ہوئے ہماری جان چھوڑدیں یہ اطلاع بازی انہیں میڈیا فراہم کرتا رہے گا ۔اوراگر جس طرح کہ ہمیں بھاشن دیاجاتا ہے کہ حکومت کا کام عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا ہے تو پھر یہ کون بتائے گا کہ اس پرعملدرآمد کون کرائے گا خصوصاََ ایسے وقت میں جب ہمارے ارباب اختیار جن کو دہشتگردی کی بُو تو پہلے ہی محسوس ہونے لگتی ہے لیکن کون سی ایسی طاقت ہے جو انہیں ان حیوان صفت دہشتگردوں کے خلاف کاروائی سے روک دیتی ہے ۔آئے روز میٹنگوں،کانفرنسوں اور مختلف اجلاسوں میں کراچی کی عوام کیلئے مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اور خود ستر ستر گاڑیوں کے قافلوں کے ساتھ گھومنے والے یہ ''بٹیرباز''اورسیاسی اداکار یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آخر اس سب قتل و غارتگری کے پیچھے ہے کون ؟ کون ہے جس نے روشنیوں کے شہر کو ظلمت کے اندھیروں میںبدل دیاہے ؟ یہ کیا تماشا ہے کہ جب بات ان کے اقتدار کی اور عہدوں کی بندربانٹ کی آتی ہے یا نام نہاد جمہوریت کی آتی ہے تو سب اکٹھے ہوجاتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ سب جمہور کیلئے اکٹھے نہیں ہورہے ؟کبھی بیرونی دہشتگردوں اور کبھی کسی لشکر اور گروپ کو موردالزام ٹھہرانے والے وزیرداخلہ عوام کو ان خفیہ طاقتوں یا مجبوریوںکے بارے میں بھی بتائیں جو انہیں اطلاع بازی سے آگے نہیں برھنے دیتیں اور اگر وہ یہ نہیں بتائیں گے تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق حکومت خود ہی ان دہشتگردوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے یا ان کی سرپرستی کررہی ہے جواپنے مذموم مقاصد(جیسے امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث الیکشن کا التوا وغیرہ)کیلئے یہ بلڈی گیم کروارہی ہے ۔اور خصوصاََ ایسے وقت میں اس خدشے میں مزید وزن نظرآتا ہے جب سپریم کورٹ کراچی فسادات میں تقریباََ سب حکمران جماعتوں کے ملوث ہونے کا اظہار کرچکی ہے ۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.