کام تو دونوں کا ہی ایک ہی ہے ؟

 مخمل پر سُونے اورقالین پر چلنے والے بھلاکیا مارچ اور دھرنادیں گے، کام تو دونوں کا ہی ایک ہی ہے ؟

میرے مُلک کی موجودہ اقتدارکی مسندپر قابض رہنے والی جماعت اور اِس کی پونے پانچ سالہ سوالیہ نشان والی کارکردگی کے خلاف اور الیکشن کمیشن سے اِظہاریکجہتی کے خاطر اپوزیشنز سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے رہنماؤں اوراِن کے کارندوں نے تزک و احتشام سے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جو دھرنادیا(طنزاََ دھرنی دی )اور الیکشن کمیشن کے دفترتک مارچ (مارچی کی )کیاآج اِن کا یہ عمل اپنی ابتداءسے اختتام تک کئی سوالات کو جنم دے گیاہے ۔

اگرچہ اِن دونوں پروگراموں کا اعلان تو پاکستان مسلم لیگ(ن) نے کیا تھا مگر بعدمیں اِن پروگراموں میں جماعت اسلامی،جمیعت علماءاسلام (ف)، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنی شرکت کو یقینی بناکر اِن پروگراموں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اِن سے اپنے اپنے مقاصدحاصل کرنے کی تو بہت کوششیں کیں مگرو ہ اِن میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔

اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ اپنے پروگراموں اور اِن سے حاصل مقاصد میں کامیاب کیوں نہ کرسکیں...؟اِس کے بارے میں بہت کچھ کہااور لکھاجاچکاہے ، لیکن اِس پر میں اپناحصہ ڈالتے ہوئے صرف یہ کہناچاہوں گاکہ” مخمل پر سُونے اور نرم گُدازقالینوں پر چلنے اور شیشے کے محلا ت میں رہنے والے بھلاکیا دھرنااور مارچ کرتے ...؟ اُمیدہے کہ آپ میرامطلب خُوب سمجھ گئے ہوں ...؟یعنی یہ کہ مسٹرنواز شریف کا ٹولہ اور جناب طاہرالقادری کیا..؟ایسے دھرنوں اور مارچوں سے ملک میں انقلاب برپاکریں گے ...؟ تو یقیناملک کی اکثریت کی جانب سے اِس کا جواب نفی میں آئے گاوہ اِس لئے کہ قوم کی باشعوراکثریت یہ بات اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ جیسادھرنااور مارچ قادری اور نواز و نثاروالوں نے دیااِس سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گاایسے دھرنوں اور مارچوں سے قادری اور نواز و نثار کو تو فائدہ پہنچ سکتاہے مگر ملک اور قوم کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا پاکستانی قوم یہ بھی خُوب سمجھتی ہے کہ وہ توکوئی اور ہوتے ہیں جو اپنے مفادات اور ذاتیات سے بالاترہوکراپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے اپنی تمام ترترجیحات اور آسائشوں کا خون کرکے دھرنادیتے ہیں اور مارچ کرتے ہیں اِن کی قیادت ایسی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ابتدائی کلمات کہہ کر بارش کے دوٹھنڈے بوندپڑتے اورسردی بڑھتے ہی بھاگ جائیں اور خود بنکر میں بندہوکرعوام کو سردی اور بارش میں مرنے کے لئے چھوڑدیں۔

کیوں کہ اُدھراپوزیشن جماعتوں کی دھرنی سے قبل ایک دھرنے اور لانگ مارچ کا ڈرامہ رچانے والے ڈاکٹرطاہر القادری بھی تھے جنہوں نے گزشتہ ماہ سخت سردی میں لاہور سے اسلام آباد تک مار چ کیا اور یہاں پہنچ کر خود کو ایک کمرے نما بنکر میں قیدکئے رکھااور یہ بنکرمیں گرمی کے باعث پسینے سے شرابورہوتے رہے اور پاکستانیوں کو مئی کے گرم مہینے کی یاددلاتے رہے جبکہ اِن کے تین روزہ دھرنے میں اسلام آباد کی سخت سردی اور بارش میں اِن کے ہزاروں (مگربقول قادری کے پانچ سے دس لاکھ )مریدین بیابان نما کھلی سڑکوں پر پڑے رہے مگرڈاکٹرصاحب ..!توسردی اور بارش میں اپنے مریدین کو چھوڑکر اپنا سیاسی قداُونچاکرنے کے چکرمیں پڑگے اور اِس دھرنے سے کوئی پائیدار مقصد حاصل کئے بغیر ایک مذاکراتی ڈرامے پر اپنادھرناختم کرنے کا اعلان کرکے چلتے بنے ...!اور پھر سارادھرنا اور لانگ مارچ ٹائیں ..ٹائیں فش ہوگیا۔

کیا ایسے ہوتے ہیں ..؟کسی ملک اور قوم کے سیاستدان جو اپنے ذاتی مقاصد اور آرام کے خاطرلوگوں کو سڑکوں پر لے آئیں اور جب اِن کا مقصد پوراہوجائے اور اِنہیں اِن کی منزل مل جائے تو عوام کو بے یارومددگار چھوڑکر ایوانوں کے مزے لوٹنے راہ لے لیں۔

اَب اِس منظر اور پس منظر میں ، میں یہ کہناچاہوں گاکہ خواہ اپوزیشن جماعتوں کی کوئی دھرنی یاکوئی اسمال مارچی ہویا اِسی طرح مسٹرطاہرالقادری جی..! کا کوئی دھرنایالانگ مارچ ہواِن دونوں کا کام ایک ہی ہے کہ عوام کو اپنے مقاصد کے لئے دھرنا، دھرنی اور لانگ مارچ یا اسمال مارچی کے لئے استعمال کیا جائے اور بس ... !مگردونوں پھر بھی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک دوسرے کے کاموں (دھرنا، دھرنی اور لانگ و اسمال مارچوں )پر تنقیدوں کے پہاڑ کھڑے کرنے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں۔

اِس پر میںیہ سمجھتاہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ عوام اِن مفادپرست سیاست دانوں اورسیاسی مولوی اور ملاؤں کی سازشو ں کو سمجھیں اور ہوش کے ناخن لیں اگرعوام پہلے کی طرح ابھی اِن سیاسی مداریوں کے بہکاوے میں آگئے اور اِن کے دھرنوں اور لانگ مارچوں میں شامل ہوکراپنی جان مصیبتوں میں ڈالتے رہے تویہ مفادپر سیاستدان اور مولوی ملاسیاسی مداریوں کی طرح عوام کو اپنے اشارے پرنچاتے رہیں گے اور بیچارے عوام اِن سیاسی مداریوں کے ہاتھوں اُس وقت تک تماشہ بنتے رہیں گے جب تک یہ سیاستدان اور سیاسی مولوی ملااقتدار کی مسند سے نہیں چمٹ جاتے ہیں۔

ایسے میں اَب عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ یہ اپنی اہمیت کو سمجھے اور سیاستدانوں اور سیاسی مولوی ملاؤں کے ہاتھوں کھلونابننے سے بچے اور یہ تہیہ کرلے کے اِنہیں اپنے مفادات کے خاطر استعمال کرنے والے سیاستدانوں اور سیاسی مولوی وملاؤں کے چہروں پر چڑھے مفادپرستی کے خول نوچ لے اور اِن کے اصل چہروں کو دنیاکے سامنے عیاں کرے جب تک عوام یہ کام نہیں کریں گے یہ عیاروچالاک سیاستدان اور سیاسی مولوی ملااِسے استعمال کرتے رہیں گے ...کیوں کہ میں یہ بھی سمجھتاہوں یہ سیاستدان اور مولوی ملاسب اقتدارکی ہوس میں مبتلاہیں اِنہیں اِس تک پہنچنے کے لئے ساری ڈرامے بازی کرنی پڑرہی ہے اِسی لئے تو میں ایک مرتبہ پھر اپنی یہ بات کہہ رہاہوں کہ ”مخمل پر سُونے اور نرم وگُدازقالینوں پرچلنے اور شیشے کے محلات میں رہنے والے بھلاکیادھرنااور لانگ مارچ کریں گے..؟یہ سب کام کرنے کے لئے یورپ جیسادل چاہئے جب کہ میرے ملک کے سیاستدانوں کے نزدیک ملک اور قوم سے زیادہ اپنے مقاصد عزیز ہیں۔

بہرحال...!!آج میرے ملک کے سیاست دان وحکمرن اور سیاسی مولوی اور ملاکس معیار کے ہیں...؟یہ تو آپ بھی خُوب جانتے ہیں، یہاں مجھے اِس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، بس میں اپنے سیاستدانوں، حکمرانوں اور سیاسی مولوی و ملاؤں سے متعلق صرف یہ کہناچاہوں گا کہ عوام کے حقوق غضب کرنا، اور عوام کو مسائل میں جکڑکر اپنی سیاست چمکانااِن کی سیاست کا حصہ بن چکاہے،اور اپنے ہم پلہ اور ہم نوالہ کو عوام کو پریشان کرنے پر اُکسانابھی اِن کا سیاسی اسٹیٹس بن گیاہے۔

شاید ایسے ہی سیاستدانوں کے لئے پہلے وقتوں کے دانا یہ بات کہہ گئے ہیں کہ”اگرکسی قوم کو پرکھناہے توپہلے اِس قوم کے سیاست دانوں کے کردارکو پرکھو“پھر دیکھ لوگے کہ قوم کیسی ہوگی ..؟اوریہ معاملات زندگی کی انجام دہی میں کتنی قابلِ اعتبارثابت ہوگی اورکتنی نہیں...؟ یعنی اگر کوئی کسی ریاست یاقوم کا اچھا یا بُراہونے کا معیار جانچناچاہئے تو پہلے اِسے چاہئے کہ یہ اِس قوم کے سیاست دانوں کا کردار اور اِن کے قول و فعل اور رکھ رکھاؤ کو پرکھے اور جب اِسے اِس بات کا یقین ہوجائے کہ یہ اچھائی کے معیار پر ٹھیک اور حق و سچ ثابت ہوئے ہیں تو اِس ریاست اور اِس قوم کے نظا مِ زندگی کو معیاری اور تسلی بخش قراردے دے ہے ورنہ نہیں...!!

اگلی سطور میں ،میں یہی بات اپنے قارئین کو مزیدسہل انداز سے سمجھاناچاہوں گا کہ گزرے زمانے کے دانشور یہ بات صرف اپنے وقت کے لئے ہی نہیں کہہ گئے تھے بلکہ اِن کا یہ قول موجودہ حالات میں بھی حقیقت ثابت ہورہے ہیں اِن لمحات میں بھی جبکہ آج جدید سائنسی دورہے اورہر طرف مشینیں پھیلی ہوئیں ہیں آج کا اِنسان اپنے سے زیادہ مشینوں کی کارکردگی اور نتائج کو درست جانتاہے مگر اِن باتوں کے باوجود بھی آج کا اِنسان اِس بات پر ضرو ر متفق ہے کہ آج کے اِس جدیددور میں بھی یقیناسیاست دان اور حکمران کسی ریاست اور قوم کے آئینہ دار ہوتے ہیں اِن کا معیار پرکھنے والی اَب تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوسکی ہے جو یہ عیاں کردے کے اِن کی ماضی میں سوچ وفکرکیا تھی...؟ حال میں کیا ہے ...؟اور مستقبل میں کیسی ہوگی...؟ سوائے اِس کے کہ اِن کے قول و فعل اور اِن کی سوچیں ریاستوں اور قوموں کے کردار کی عکاس ہواکرتی ہیں یعنی اگراِن کی سوچیں اپنی ذات سے بالاترہیںاور اِن کے کرداراور قول ملک اور قوم کی فلاح اور بہبود سے متعلق ہیں تو پھر کوئی شک نہیں کہ اِن کی ریاست اور قوم بھی قابلِ اعتبار اور مثبت سوچ کی حامل ہوگی اور جب کسی قوم کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی نیتیں اور کرداراِس کے برخلاف ہوں تو جان لیں کہ ریاست اور قوم کیسی ہوگی...؟اِس سے خیرکی اُمیدنہیںرکھی جائے اور جب کسی نے اِس کے اُلٹ کچھ کیا تو پھراپنے کئے کا خود ذمہ دار ہوگا۔

جبکہ میری قوم دنیاکی بہترین قوم ہے مگرافسوس ہے کہ آج میرے ملک کے سیاستدانوں نے اپنے قول و فعل سے دنیاکے سامنے یہ ثابت کردیاہے کہ میری پاکستانی قوم ساری خُوبیوں کے باجود بھی کس معیار پر ہے...؟یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیںآپ خود سمجھ جائیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.