کراچی کے انتخابات بڑی اہمیت کے
حامل بن چکے ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ووٹ لسٹ اور حلقہ بندیوں پر کیس
کی سماعت بھی ہو رہی ہے ، الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے دوران سماعت
سپریم کورٹ میں جواب داخل کرایا گیا کہ جب تک مردم شماری نہیں ہوتی اس وقت
تک دوبارہ حلقہ بندیاں غیر قانونی ہونگی ، جبکہ گھرگھر ووٹ تصدیق کے عمل کے
حوالے سے سپریم کورٹ نے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن
کے خلاف تحریک انصاف اور طاہر القادری کی جانب سے شدیداعتراضات کئے جا رہے
ہیں اور طاہر القادری کی جانب سے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی تحلیل کے
لئے پٹیشن بھی داخل کرادی گئی جس پر الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی
ابراہیم نے ایسے ایک افسوس ناک عمل قرار دےتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات سے
صرف کچھ ہفتے قبل الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد ، انتخاب کے عمل کو سبوتاژ
کرسکتا ہے ،انھوں نے الیکشن کمیشن کے تمام اراکین کی تقرری کو آئین کے
مطابق قرار دیا ۔گزشتہ دنوں کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر
اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے چند افراد کے ہمراہ دھرنا دےکر عوام میں یہ تاثر
دےنے کی کوشش کی تھی جیسے ان کے کراچی میں نشستوں پر کامیابی میں ایم کیو
ایم حائل ہے ، اس لئے ضروری ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی الزامات کی روش سے قطع
نظر ، حقائق کے لئے سابقہ الیکشن نتائج کو دیکھا جائے ۔ دل چسپ اندازہ ہوا
کہ متحدہ مجلس عمل کے علاوہ تقریبا تمام اپوزیشن جماعتوں کے امیدواران کی
کامیابی تو بہت دور کی بات ، ان کے امیدواران کو اپنی ضمانتیں بچانا بھی
مشکل ہوگیا تھا ۔ اس حوالے سے گزشتہ کالموں میں تفصیل دی جا چکی ہے۔
حالیہ آرٹیکل میں مجلس عمل اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم کی انتخابی
نتائج کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے ۔جیسے غیر جانبدار روئےے کے ساتھ پرکھنے
کی ضرورت ہے۔2002ءکے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کی بیالیس
نشستوں میں سے چالیس نشستوں پر ا امیدوار کھڑے کئے ، جس میں پانچ
امیدوارکامیاب ہوئے ، جبکہ2008ءمیں بیالیس نشستوں پر امیدوارکھڑے کئے جس
میں سے چھ نشستوں پر کامیابی ملی ۔ متحدہ مجلس عمل نے 2002ءمیں کراچی کی
تمام بیالیس نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے جس میں سے06 نشستوں میں
کامیابی ملی جبکہ 2008ءمیں متحدہ مجلس عمل نے انتخابی عمل سے بائیکاٹ کیا
تھا ۔ 2002ءمیں ایک امیدوار مہاجو قومی موومنٹ, ایک امیدوار نیشنل الائنس
اور ایک امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہوا۔متحدہ قومی موومنٹ نے2002ءمیں
تمام نشستوں سے امیدوار کھڑے کئے ، جس میں انھیں 28نشستوں میں کامیابی ملی
۔2008 اورءمیں بھی ایم کیو ایم نے کراچی کی تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے
کئے جس میں اس بار انھیں34 نشستوں پر کامیابی ملی ، جبکہ پہلے 28 پر
کامیابی ملی تھی ، ۔اے این پی ہمیشہ ناکام رہتی رہی ہے اور کبھی کامیاب
نہیںہوئی لیکن2008ءمیں اے این پی نے 02نشستیں ایم ایم اے والی حاصل
کیں۔جبکہ کوئی چھوتھی پارٹی کا امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ پی پی پی ، ایم
ایم اے اور ایم کیو ایم کے انتخابی نتائج ذیل ہیں۔
|
|
اعداد و شمار دیکھنے کے بعد یہ دلچسپ حقائق سامنے آجاتے ہیں کہ ایم ایم اے
،کا ہی ایم کیو ایم سے انتخابی مقابلہ رہا ہے ۔ایم ایم اے مذہبی جماعتوں کا
ایک اتحاد تھا ، جس میں جماعت اسلامی ، جمعیت علما ءاسلام ، (ف) ، تحریک
جعفریہ ، جمعیت علما ءپاکستان ، جمعیت اہل حدیث کے علاوہ چھوٹی مذہبی
جماعتیں شامل تھیں ۔
ایم ایم اے نے 2002ءمیں 06 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن پر 2008ءمیں پی
ایس93 اور 128 میں اے این پی ، پی ایس90 میں پی پی پی ، جبکہ ایم کیو ایم
نے پی ایس 91 ، 116 اور261سے ایم کیو ایم نے ان نشستوں پر حاصل کی ۔ جبکہ
پی پی پی نے اپنی 127 کی نشست گنوائی جیسے ایم کیو ایم نے حاصل کی ، پی پی
پی نے جہاں اپنی ایک نشست کم تھی وہاں پی ایس 90 اور 129 میں نئی نشستیں
حاصل کی ، ایم کیو ایم نے پی ایس112 کی روایتی نشست واپس لی اور 114 میں
نئی کامیابی حاصل کی۔ بادی النظر دیکھا جائے تو 2002ءمیں میں نو نشستوں فرق
رہا جو اے این پی ، پی پی پی اور ایم کیو ایم میں اس لئے منقسم ہوئیں
کیونکہ 2008ءکا الیکشن ان ہی تین جماعتوں کے درمیان تھا ، باقی تمام سیاسی
جماعتوں کے امیدواروان کی یا تو ضمانتیں ضبط ہوئیں یا مجلس عمل میں شریک
چودہ کے قریب فرقہ وارنہ سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ نے چودہ ایسی نشستوں میں
دو جماعتوں کے درمیان مقابلے کا رجحان پیدا کیا ۔ ان 09 نشستوں میں تھوڑے
فرق کے ساتھ ایم کیو ایم اور ایم اے ایم کے درمیان مقابلہ رہا ۔ نزدیک ترین
مقابلہ پی ایس 91 ،103،112 ،113،115،118، 126 میں رہا ۔ان دونوں الیکشن کے
اعداد و شمار اور ایم ایم اے کے ساتھ مقابلے کی نزدیک ترین سطح واضح کردیتی
ہے کہ کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اگر حلقہ
بندیوں سے کوئی بڑا فرق ان جماعتوں کے علاوہ ، اے این پی ، مسلم لیگ ،
تحریک انصاف،سنی تحریک ،یا دیگر علاقائی سیاسی جماعتوں کوپڑتا تو یقینی طور
پر ان کے ووٹ کا تناسب دوسرے حلقے میں زیادہ نظر آتا ۔ءکے الیکشن میں
199اور2008ءمیں 179آزاد امیدواران نے بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ 2002ء کے
الیکشن میں کراچی کی نشستوں پر تقریبا 23 سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حصہ ،
ان میں ایم ایم اے بھی شامل ہے جس میں مختلف مذہبی جماعتوں نے انتخابی
الحاق کیا ہوا تھا۔2008 ءمیںان جماعتوں کی کل تعداد 13رہ گئی اور کراچی میں
تقریبا تمام نشستوں پر ون آن ون مقابلہ دیکھنے میں آیا ۔کراچی انتخابات کے
حوالے سے سیاسی جماعتوںی جو بھی حکمت عملی ہو لیکن کچھ سیاسی حلقوں کا یہ
کہنا ہے کہ2013ءالیکشن میں بھی ایم کیو ایم کی جیت آثار نمایاں ہیں اسلئے
کراچی کو دیگر ملک سے تنہا کرنے کےلئے مینڈیٹ کاغلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے
اور سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے بجائے صرف ایم کیو ایم مخالفت میں یکجا ہو
رہی ہیں ۔یہ پروپیگنڈا ملکی یکجہتی کےلئے نقصان اور ملکی مفاد میں نہیں ۔سیاسی
جماعتوں کو مینڈیٹ پروپیگنڈے سے گریزراہ اختیار کرنی چاہیے۔ کراچی الیکشن
کے حوالے سے غلط بیانی غیر مناسب اقدام ہوگا۔ |