انتخابات کیلئے فضاء سازگار ہونے
پر کمی کمینوں کیساتھ گذشتہ پانچ سالوں میں مذاق کرنے والے پارٹیوں کے
رہنماء اب اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر زور دے رہے ہیں اور اس مد میں
روکے گئے ترقیاتی فندز بھی ریلیز کرنے پر تل گئے ہیں پشاور شہر سمیت مختلف
علاقوں میں جتنے کام گذشتہ دو ماہ کے دوران دیکھنے کو مل رہے ہیں اتنے کام
کسی بھی ممبر اسمبلی نے گذشتہ پانچ سالوں میں نہیں کئے لیکن جو کام کیا
جارہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھائی کی موت کو کیش
کرنے والے ایک سابق کونسلر جو ماشاء اللہ خیبر پختونخوار میں اب ممبر
اسمبلی بن گئے ہیں نے اپنے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی اپنے ہی
رشتہ داروں کو دیدیا ہے جسے اب ممبر اسمبلی ہر جگہ پر کیش کررہے ہیں اور
کمی کمینوںپر احسان فرماتے ہیں کہ دیکھ لو میرا جیسا ممبر اسمبلی کہیں پر
نہیں جاتے جاتے ہماری خدائی خوار کے حکمران کتنا کام کررہے ہیں-لیکن مزے کی
بات تو یہ ہے کہ سپلائی روڈ پر بننے والی سڑک پر دو کروڑ روپے سے زائد روپے
خرچ کئے گئے لیکن ایک ہی بارش نے یہ حال کردیا ہے کہ دو ہفتے پہلے بننے
والی سڑک دوبارہ کھڈے بن چکا ہے اور کمی کمین حیران ہیں کہ کریں تو کیا
کریں کیونکہ ٹھیکیدار صاحب نے دس فٹ کی سڑک میں چھ فٹ سڑک بنوا دی جبکہ چار
فٹ جو دونوں اطراف سے رہ گئی تھی اس میں ریت کی بجری ڈال کر کام مکمل کرلیا
اورسرکار کے کھاتے میں ترقیاتی کام مکمل ہوگیادو کروڑ میں کتنے خدائی خوار
کے ممبر کو ملیں گے کتنے ٹھیکیدار کو ملیں گے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن
اگلے انتخابات کیلئے ان کی دکانداری کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے- یہی سلسلہ اس
وقت پورے صوبے خیبر پختون خوار میں جاری ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں -
پوچھ گچھ تو ان ٹھیکیداروں سے بھی نہیں ہورہی جنہوں نے سڑکوں سے برف ہٹانے
کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا گذشتہ ہفتے ہونیوالی بارش اور بر ف باری کے باعث جہاں
صوبے کے دیگر علاقے متاثر ہوگئے وہیں پر ڈوگ درہ دیر کا حلقہ پی ایف 92
جہاں پر 8سے دس فٹ برف پڑنے سے راستے مکمل طور پر بند ہوگئے اور ڈوگ درہ
دیر کوہستان سمیت مختلف علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی
اسی کے ساتھ ساتھ جانوروں کیلئے چارہ بھی ناپید ہوگیا طبی سہولیات تو اس
ایریا میں بہت بڑی عیاشی ہے جو موجودہ حالات میں کوئی افورڈ بھی نہیں
کرسکتا -اور اس علاقے کے کمی کمین دس سے بارہ گھنٹے پیدل سفر کرکے اپر دیر
تک پہنچتے ہیں اس علاقے میں پڑنے والی برف کو صاف کرنے کیلئے ٹھیکیدار نے
نومبر میں ٹھیکہ بھی لیا تھا لیکن اب جبکہ برف اس علاقے میں پڑ گئی ہیں اور
لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہیں ٹھیکیدار غائب ہیں وہاں پر عوام ضروریات
زندگی سے محروم ہیں وہاں پر تعینات اے سی /ڈی سی ایک دوسرے پر کام کرنے کی
ذمہ داری ڈال رہے ہیں اور کوئی ان کا پوچھنے والا نہیں ان حالات میں انسانی
حقوق کمیشن کیلئے کام کرنے والے مقامی تاجر نے اپنی آواز پہنچانے کیلئے
مختلف لوگوں سے رابطے کئے لیکن لیکن کمی کمینوں کو کون حق دیتا ہے لیکن
انتظامیہ وہاں ہونیوالے حالات کو بہتر کرنے کے بجائے اب دکانداری پر لگی
ہوئی ہیں-
دکانداری سے یاد آیا گذشتہ روز پشاور پریس کلب میں بچوں کے حقوق کے حوالے
سے ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ممبران کو
بچوں کے قانونی حقوق سے متعلق سیشن ہوا اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی عوام
کو روٹی کی جگہ جوتے کپڑے کی جگہ کفن اور مکان کی جگہ لحد دینے والے پارٹی
کے ایک ممبر مہمان خصوصی تھے ان کی قابلیت تو ہماری طرح ہے لیکن چونکہ ان
کا تعلق اسی پارٹی سے ہے اسی لئے انہیں آبادی کو کنٹرول کرنے والی وزارت دی
گئی - موصوف جوش خطابت میں یہاں تک کہہ گئے کہ مدارس دہشت گردی پھیلا رہے
ہیں اور کچھ مدارس ایسے ہیں جو طلباء کو دہشت گردی کیلئے تیار کررہے ہیں
حالانکہ موصوف کا تعلق ایسے لوگوں سے جو خود بھی مدارس چلا رہے ہیں لیکن
سمجھ نہیںآتا انہیں مدارس سے کیا پرخاش ہیں - اس لئے ان کی باتیں سن کر
صحافی بھی چونک گئے جب اس بارے میں متعلقہ وزیر سے کیمرے کے سامنے بات کی
کوشش کی اور کہا کہ ابھی انہوں نے جو "بکواس"فرمائی ہے اگر کیمرے کے سامنے
دوبارہ کہہ دیں تو بڑی مہربانی ہوگی تو موصوف کے اوسان خطاہوگئے اور اگر
مگرکی باتیں کرکے اپنی بات سے منکر ہوگئے ہمارے ایک اور ساتھی نے دوبارہ
کوشش کی تو انہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے صحافی نے اشارہ کیا کہ ہمارے
علاقے کے ممبر اسمبلی سے اس طرح کے سوال کرکے اسے خراب مت کرو کیمرے کے
سامنے اگر مگر کی باتیں کرکے وزیر موصوف نے صحافیوں کیساتھ ہاتھ ملایا اور
کہا کہ آپ تو ہمارے ساتھی ہیں اور یہ باتیں تو آف دی ریکارڈ تھی یعنی اس سے
قبل جو کچھ وہ مدارس کے حوالے سے وہ چالیس بندوں کے سامنے بکواس کررہے تھے
وہ آف دی ریکارڈ تھی اور اسے پتہ تھا کہ اب میرے بیان سے مسئلہ بنے گا تو
اپنی بات سے ہی مکر گئے-
مکر تو پشاور ایک مسجد کے پیش امام اور ان کے سیکرٹری فنانس گئے ہیںجنہیں
خدائی خواروں کی حکومت نے مسجد کے امداد کے نام پر چھ لاکھ روپے دئیے ہیں
اوران کیساتھ ڈیل یہ ہوئی تھی کہ چھ لاکھ روپے میں پانچ لاکھ روپے اسی
وزارت کے وزیر کو واپس دینے ہونگے جنہوں نے مسجد کیلئے فنڈز ریلیز کیا ہے
کیونکہ یہ تو ان کا کمیشن بنتا ہے ابتداء میں تو مسجد کی انتظامیہ اس بات
پر خوش تھی کہ ان کے مسجد کو اپنے آپ کو سیکو لر قرار دینے والی پارٹی فنڈز
دے رہی ہیں ان کا خیال تھا کہ چلو اگر کچھ مل جائیگا تو اس میں "خرچہ پانی
" متعلقہ وزارت کے لوگوں کو بھی دیا جائیگا اور اس بارے میں مسجد کی
انتظامیہ بھی رضامند ہوگئی تھی لیکن چھ لاکھ روپے فنڈز ریلیز کرنے کے بعد
وزارت کے لوگوں نے مطالبہ کردیا کہ اب ہمیں پانچ لاکھ روپے واپس دو گے جو
کہ ہمارا حق ہے -اتنی بڑی رقم کا سن کر مسجد کی انتظامیہ بھی انکاری ہوگئی
ہے کہ انہیں بھی حساب دینا ہوگاکہ چھ لاکھ روپے کہاں سے آئے تھے اور کہاں
پر خرچ ہوگئے اللہ کا حساب تو اللہ ہی جانے لیکن یہاں پر کمی کمینوں کو بھی
تو حساب دینا ہوگا دوسری طرف وزارت والے اس چکر میں ہیں کہ انہیں اپنا
کمیشن مل جائے- باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں انہیں نہ تو کمی کمینوں کا خیال
ہے اور نہ ہی اللہ کا ڈر ہے جو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور ہر ایک شخص
سے اس کے ایک ایک لمحے کا حساب بھی لے گااس میں کمی کمین سے لیکر صحافی
مولوی وزیر امیر غریب صنعتکار سرمایہ دار بچے بوڑھا مرد و خاتون کی کوئی
تخصیص نہیں - |