شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

چونکا دینے والا مضمون کا عنوان ضرور ہے مگر مضمون حقیقت میں زندگی سے قریب تر ہے اس لئے تحریر کے لئے قلم کا سہارا لیا۔ ”شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے!“ کیا آپ سب کا یہ ماننا نہیں ہے کہ جیسے حالات آج اس ملک میں چل رہے ہیں اس میں آپ سب بھی شریک ہیں۔ یہی تو افسوس ناک پہلو ہے کہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔ کیسے؟ یہی سوال اُبھر رہا ہے نا سب کے ذہنوں میں تو میرے احباب! حکومتوں کو بنانے کا کام کس کا ہے۔ عوام کا، اور حکومت کس طرح وجود میں آئی ، لازمی اَمر ہے کہ ووٹ کے ذریعے، اور ووٹ ہم سب نے دیا ہے ۔ یوں آج کل جس طرح کے حالات ہمارے اوپر مسلط کر دیئے گئے ہیں یہ اسی حکومت کا کارنامہ ہے کہ روزآنہ کی بنیاد پر اٹھارہ سے بیس افراد کو موت کی آغوش میں سلایا جا رہا ہے اور حکومت اور اس سے منسلک ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تو ہوگئے نہ ووٹ دینے کی وجہ سے حالات میں شریک۔اسی لئے عنوان ایسا چُنا ہے ۔ پڑھنے میں بُرا تو ضرور محسوس ہو رہا ہے مگر یہ عنوان حقیقت سے قریب تر ہے اور دل کو چھو لینے کے قریب ہے۔ اب مخبری بھی کریں تو کس سے کہ یہ حکومت بھی اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ پھر کیئر ٹیکر سیٹ اَپ آنے والی ہے دیکھئے شاید وہ کچھ حالات کی درستگی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ملک بھر میں بالخصوص پاکستان کے معاشی حب اور منی پاکستان کراچی میں جاری قتل و غارت گری ، بھتہ خوری، اسنیچنگ کے واقعات پر عوام غصے میں تو ضرور ہیں مگر بیچارے غصے سے بھرے تو ہیں مگر کر کچھ بھی نہیں کر سکتے، کر تو ہماری پولیس بھی کچھ نہیں رہی ۔ سوائے اس کے ہر واقعے کے بعد وہاں پہنچنے کے اور کیس فائل کرنے کے ! یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کی مانند ہے۔ وردی میں ملبوس ہونے کے باوجود یہ کیوں اتنے بے بس نظر آتے ہیں۔ عوام کے سامنے حقیقت آشکار ہونی چاہیئے۔ ہر روز نیوز چینلز کے ذریعے ان کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے جو کہ کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ یہ عوام کو بروقت سہولت پہنچاتے ہوں۔ یہ قوم کی محافظ، دشمنوں سا معاملہ کرتی نظر آتی ہے۔ امن و امان کو قائم کرنے کے بجائے دیر سے جائے وقوع پر پہنچنا معمول سا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ پولیس کا ہے کام سب کو انصاف دلانا، بحرحال عوام کو امیدِ قوی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب انہیں بھی انصاف کی سہولت میسر ہو سکے گی۔اگر وردی میں ملبوس کچھ عناصر رشوت اور کرپشن کے بجائے ہر طرح کی برائیوں کو ختم کرنے اور سچائی کا دامن پکڑنے کی کوشش کریں تو پھر کرپشن اور ہر طرح کی برائیوں میں یقینا کمی آئے گی اور سچائی و انصاف کا بول بالا ہوگا اور امن و امان کا ماحول قائم ہوگا۔

ماہرین اقتصادیات اور منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ ملک میں جاری کرپشن ایک عالمگیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے لیکن یہ دلیل سوچنے اور سمجھنے والے ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ہمارے یہاں کرپشن بہت اونچے درجے پر فائز نظر آ رہا ہے۔ کتنے ہی کیسز پر سپریم کورٹ نے فیصلے دیئے مگر ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ جمہوریت اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لئے الیکشن ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں اقتدار ملنے کے بعد الگ ہی طرح کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ، ابھی حال ہی میں ایک معزز ادارے کے چیئر مین نے یہ بیان دیا کہ روزآنہ عربوں کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس واقعے پر کاروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ اور کرپشن کرنے والے کیوں ابھی تک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ان کے گرد گھیرا کب تنگ کیا جائے گا۔ اس کا جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں۔
سنبھلنے کا تمہیں اک اور موقع، ملا ہے اس پہ اترانا نہیں تم
خطائیں ہو چکیں جو تم سے سرزد، انہیں بھولے سے دہرانا نہیں تم

آج دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہم اتنے ہی تیزی سے پستی کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ آج کا ماحول دیکھتے ہوئے ہم سب یہ باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہاں رُک گئی ہے ہماری ترقی کی راہ، کہاں کوتاہی ہو رہی ہے، اور کہاں ترقی کی راہ میں رکاوٹ درپیش ہے۔ کیا اس کا جواب کسی کے پاس ہے۔ ترقی کے بارے میں اکثر شوشہ سننے میں آتا ہے مگر ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ یہ صرف کاغذی فائلوں میں ہی مدفون ہے۔ حکمتِ عملی کا فقدان ہے ۔ بیان بازی میں اتنی اُجلت سے کام لیا جاتا ہے جس سے عوام میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ پتہ نہیں وزیراعظم اور ان کے احباب کو رات مین نیند کیسے آتی ہے، جب ملک کے ہر طبقے کے لوگ امن و امان کو ترس رہے ہیں۔ اقتدار اعلیٰ پر فائز لوگو! کیا جمہوریت میں لوگوں کی رائے کا کوئی مطلب آپ کی نظروں میں نہیں ہے ؟ کیا پاکستانی جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ فساد ہی فساد ، افرا تفری اسے بہا لے جائے۔ نیند سے جاگیئے جناب اور اس امن و امان کی دگر گوں صورتحال کو کنٹرول کیجئے۔ لوگوں کی بداعتمادی کو دور کیجئے۔ عوام تو عوام اب تو وردی والے بھی محفوظ نظر نہیں آتے ، وہ آہنی ہاتھ نکالیئے جسے پانچ برسوں سے چھپایا ہوا ہے آپ سب نے، اور اس تیسرے ہاتھ کا قلع قمع کیجئے تاکہ عوام اپنے اعتبار کو ٹھیس پہنچتا ہوا نہ دیکھ سکیں۔

ہمارے حکمران اور دوسرے لیڈران اپنے شعبدوں بازوں، چاپلوسوں، خوشامدیوں اور مفاد پرستوں کے ساتھ یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ ہم اپنی پانچ سالہ خدمات کی بدولت دوبارہ برسراقتدار آئیں گے ، ہم نے عوام کو روزگار دیا، جمہوریت دی، آئینی ترامیم دیں، مفاہمت کی سیاست کی داغ بیل دی، مگر یہ سب کچھ عوام کو کیا ملا ، کیا عوام کے ہر گھرانے کے ایک فرد کو نوکری دی گئی، پرائیویٹ نوکری کرنے والے بھی نوکری کو ترس رہے ہیں کیونکہ یہاں سے کاروبار اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور جو لوگ لگی بندھی روزی کما رہے تھے وہ بھی نوکری سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کیا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کر دیا گیا ہے۔ یہ تینوں چیزیں تو ناپید ہیں۔ غریب آج بمشکل ایک وقت کی روٹی ہی کھا تا نظر آتا ہے۔ کھانے کے لئے بنیادی چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ لوگ کہہ رہے کہ ہمیں تو حکمرانوں نے روزگاری، بدامنی، اقربا پروری، بیڈ گورننس، کرپشن، کرپٹ افسران و انتظامیہ ، ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی ، ڈرون حملے ، عریانی، خود کش دھماکے ہی دیئے ہیں۔ ان میں روٹی کپڑا اور مکان کہاں ہے۔

ملک کے گوشے گوشے میں عوام ظلم و ستم کے باعث ناامیدی کا شکار نظر آتے ہیںایسے میں ہمیں اپنے اعمالوں پر ضرور نظر ڈالنی چاہیئے ۔ یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہماری بداعمالیوں کا خمیازہ کیسے ختم ہوگا۔ جی ہاں ! ووٹ ہی آپ کے پاس مقدس امانت ہے جس کے ذریعے آپ بہترین لوگوں کو اقتدار منتقل کروا سکتے ہیں اس لئے بہتر شخص اور اچھی پارٹی کو چُن کر اپنا اور اس ملک کی قسمت بدلنے میں مددگار بن سکتے ہیں۔ گو کہ حالات ناموافق ہیں مگر سنا یہ جا رہا ہے کہ الیکشن وقت پر ہونگے ۔ اور ہونا بھی چاہیئے کیونکہ عوام تمام حالات سے بے انتہا پریشان ہیں۔ حکومتِ وقت کو چاہیئے کہ اب بھی آپ کے چند دن ہیں ۔ ہو سکے تو ان چند دنوں میں ہی کچھ عوام کے لئے کر لیجئے تاکہ ہماری عوام پانچ سالوں میں نہ سہی چند دن ہی خوش گوار گزار لیں۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.