مُرشد نے فرمایا ”اگر میں دھرنا
ختم کرنے کا اعلان نہ کرتا تو پانچ منٹ بعد مارشل لاءلگ جاتا “۔یہ معرفت کی
باتیں ہیں جو کم عقلوں اور کج فہموں کے ”پلے “نہیں پڑنے والی۔اسی لیے سبھی
”پھنے خاں“ دانشور اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر اندر کی بات تک پہنچنے
کے لیے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔کچھ نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ بھی کہا
کہ”سپہ سالار“ سے پوچھنا چاہیے کہ شیخ الاسلام نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ
بیان کیوں دیا ؟۔الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔ سبھی
چڑیاں ، کوّے اور طوطے متحرک ہو چکے لیکن کسی کے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔در
اصل ایسی اُلٹی سیدھی باتیں وہی لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے کبھی مُرشد کے
سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا نہ اُن کی صحبتِ عارفانہ سے فیض یاب ہوئے ۔دروغ
بر گردنِ راوی ، ہوا یوں کہ جب حکومت اپنی ضد ، ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے باز
آنے کی بجائے طعنوں سے کام نکالنے لگی تو مُرشد تنگ آ کر ”مراقبے“ میں چلے
گئے ۔دورانِ مراقبہ جنرل اشفاق پرویز کیانی حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا
”مُرشد ! اگر حکم ہو تو اُلٹا دوں اسلام آباد؟“۔تبھی مُرشد اُنہیں ”سٹینڈ
بائی“کرکے مراقبے سے باہر آئے اور حجت تمام کرتے ہوئے فرعونوں ، شدّادوں ،
نمرودوں ، قارونوں اور یزیدیوں کو آخری الٹی میٹم دے دیا ۔شنید ہے کہ دورانِ
مراقبہ انہوں نے چوہدری شجاعت حسین کو بھی طلب کرکے حالات کی سنگینی سے
آگاہ کیا ۔اسی بنا پر حکمرانوں کی دوڑیں لگ گئیں اور ”اسلاما بادیے“ بال
بال بچ گئے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مُرشد نے حکمرانوں کے وعدے ، معاہدے پر اعتبار کر
لیا ، تو یہ اُس کی بھول ہے کیونکہ مُرشد اپنے کشف و کرامات کو استعمال میں
لائے بغیر بھی جانتے ہیں کہ حکمرانوں کے نزدیک ”وعدے قُرآن و حدیث نہیں
ہوتے“۔اسی لیے(ایک دفعہ پھر دروغ بر گردنِ راوی) اُنہوں نے اپنے زیرِ
تربیت”جانشینوں“ کو درسِ صداقت دیتے ہوئے فرما دیا تھا کہ حکمرانوں کے
وعدوں پر اعتبار بقولِ غالب ایسے ہی ہے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
جب ایک جانشین نے بصد عجز و نیاز سوال کیا کہ پھر ایسے فرعونوں کے خلاف
مُرشد نے اپنا پُر ہیبت ”عصائے موسوی“ استعمال کیوں نہیں کیا تو اُنہوں نے
فرمایا کہ کون احمق ایسی حکومت سے ”خلاصی“ کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر
سکتا ہے جسکا جانا ویسے بھی ٹھہر گیا ہو ، یہ مارچ تو”تختِ لاہور“ پر اپنا
”رُعب شُعب“ قائم کرنے کے لیے تھا۔ہمارا اصل ٹارگٹ وہی ہیں جو ”منہاج
القُرآن“ کے لیے تھوڑی سی زمین اور ماضی بعید میں ”نذر نیاز“ دے کر یہ
سمجھتے رہے کہ شیخ الاسلام اُن کے احسانوں کے بوجھ تلے دَب گیا ۔اگر اُن
میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو وہ حضرت علیؓ کا یہ قول یاد رکھتے کہ”جس پر
احسان کرو ، اُس کے شر سے ڈرو“۔ میں خاکِ پائے یارانِ نبی بھلا اِس قولِ
علیؓ کو جھٹلانے کا گناہِ کبیرہ کیسے کر سکتا ہوں؟۔اِس لیے جب تک دَم میں
دَم ہے میں اِنہیں ”رگڑا“ دینے کی سعی کرتا رہوں گا ۔جب سامعین نے مُرشدپاک
کا یہ عارفانہ کلام سُنا تو تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سبھی بیک زبان
ہوئے کہ ”سُبحان اللہ ! دین میں پورے کا پورا داخل ہونا اسی کو کہتے ہیں“۔
اب مُرشد نے پنجاب میں بھی ”انقلاب مارچوں“کا اعلان فرما دیا ہے اور سبھی
مریدین کمر بستہ۔ دوسری طرف نواز لیگ کے اکابرین کو ایک دفعہ پھر ”کالی
بلیاں“ نظر آنے لگی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ بلیاں صرف نوازلیگ کا راستہ
کاٹنے کے لیے چھوڑی گئی ہیں۔حالانکہ مُرشد بڑی صراحت سے یہ فرما چکے ہیں کہ
اُن کی جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور یہ تو
سبھی جانتے ہیں کہ مُرشد نے زندگی میں کبھی” مصلحتاََ بھی جھوٹ نہیں
بولا“۔پھر بھی نواز لیگ کو خوابوں میں بھی کالی بلیاں آ آ کر ڈراتی رہتی
ہیں ۔اُنہیں چاہیے کہ الیکشن کی بھرپور تیاری کریں اور اِس وہم کو دل سے
نکال دیں کہ کوئی ”بنگلہ دیش فارمولا“ بروئے کار آنے والا ہے ۔ویسے شنید ہے
کہ نواز لیگ بھی حفظِ ما تقدم کے طور پراپنی صفیںدرست کررہی ہے اور اسلام
آباد کی”دھرنی“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے نواز لیگ نے ”دھرنا بمقابلہ دھرنا“
کی ٹھان تو لی لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ سطحی سی عقل
رکھنے والے بھلا شیخ الاسلام کی عالمانہ ، فاضلانہ اور عاقلانہ سوچوں تک
کہاں پہنچ سکتے ہیں ۔انتہائی متحرک چوہدری نثار احمد نے چھوٹی بڑی تمام
اپوزیشن جماعتوں کو دھرنے میں شمولیت کی دعوت دے ڈالی اور سبھی نے حامی بھی
بھر لی ۔دھرنے کا شور بھی بہت تھا لیکن ہوا یوں کہ
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
چوہدری نثار صاحب کی دھرنے میں شمولیت صرف ” مُنہ دکھائی “ تک محدود رہی
۔اُنہیں پتہ نہیں کس بات کی جلدی ہوتی ہے ۔1999ءمیں بھی وہ ”وقتِ قیام“
کھسک لیے اور گھر جا کر خود ساختہ ”نظر بندی“ میں مبتلاءہو گئے ۔اب بھی وہ
جھلک دکھلا کر ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔اگر محترم لیاقت
بلوچ اپنی بھاری بھرکم آواز میں جذباتی نعرے لگوا کر ماحول کو گرم نہ رکھتے
تو اِس ”دھرنی“ کی داستاں تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں ۔بہرحال جن ”کالی
بلیوں“ کے خلاف نواز لیگ نے دھرنے کی ٹھانی تھی وہ تو اب بھی میاؤں میاؤں
کرتی پھرتی ہیں۔
پیپلز پارٹی خوش ہے کہ نواز لیگ کی ابھی ”کپتان“ سے جان چھوٹی نہیں تھی کہ
شیخ الاسلام سے ”متھّا“ لگ گیا۔ میاں نواز شریف صاحب یہ کہتے ہوئے کہ ”سارے
رل کے سانوں پے گئے نیں“ عمرے کے لیے سدھار لیے ۔سُنا ہے کہ آجکل وہ ”ردِ
بلا“ کے لیے مسجدِ نبوی میں مصروفِ وظائف ہیں ۔وہ جتنے جی چاہے وظیفے کر
لیں پھر بھی مجھے یقین ہے کہ جیت بہر حال مُرشد کی ہی ہو گی کیونکہ حسینیت
کے علمبردار شیخ الاسلام یزیدیت کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کیے ہوئے ہیں
اورایسے معرکوںمیں طاغوت کی ظاہری فتح اُس کی ابدی شکست کے مترادف ہوا کرتی
ہے۔ہم جانتے ہیں کہ کل کلاں جب انتخابات میں مُرشد کے حصّے میں بقدرِ اشکِ
بُلبُل بھی نہ آیا تو یہ نون لیگئے طنز و تعریض کے تیروں کی بوچھاڑ کر دیں
گے لیکن وہ پھر بھی ہمارے حوصلوں کو شکست دینے میں ناکام رہیں گے کیونکہ ہم
ظاہر نہیں باطن میں جینے والے اُس قبیلے سے تعلق ہیںجس میں جذبہ شوقِ شہادت
ہمہ وقت موجزن رہتا ہے اور مُرشد کے اندر تو شہادت کی تڑپ بے حد و حساب
ہے۔اسی لیے اُنہوں نے اپنی وصیت بھی لکھوا دی ہے ۔کچھ نا ہنجار کہتے ہیں کہ
بھلا بُلٹ پروف اور بم پروف کنٹینروں میں شہادت کہاں سے گھُسے گی۔ یہ محض
کمزوری ¿ ایماں ہے وگرنہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ |