کشمیر کونسل نے اس سال بھی
کشمیریوں کے ساتھ حقیقی اظہار یکجہتی کرنے کے بجائے اس قومی دن مختلف
تقریبات کے نام پر کروڑوں روپے عیاشیوں میں اور منظور نظر افراد پر اڑا
دیئے۔اب کس میں مجال کہ وہ کشمیر کونسل سے اس کا حساب کتا ب لے۔کونسل کا تو
کہنا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت ہم سے استفسار نہیں کر سکتی ہے اور کشمیر
کونسل حکومت پاکستان کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتی لہذا ان سے کسی قسم کی
کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔جبکہ اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے
کہ آزاد کشمیر حکومت و اسمبلی اور کونسل حکومت پاکستان کے نوٹیفیکیشن سے
منظور شدہ عبوری آئین سے وجود میں آئی ہے اور وزیر اعظم پاکستان ہی کشمیر
کونسل کے چیئرمین ہیں۔کشمیر کونسل کی طرف سے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے
پاکستان بھر کے قومی اور مقامی اخبارات و جرائد کو کروڑوں روپے مالیت کے
متعدد اشتہارت دئے گئے لیکن کشمیری اخبارات و جرائد کو اس سے محروم رکھا
گیا۔وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو نے اسلام آباد میں یوم یکجہتی
کشمیر کی تیاری کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب
میں کہا کہ کونسل کی ملازمتوں میں کشمیریوں کو پچاس فیصد حصہ دینا تو میرا
احسان ہوا۔
جاٹ خاندان کے چشم و چراغ میاں منظور احمد وٹو 1983ءمیں چیئرمین ڈسٹرکٹ
کونسل اوکاڑہ بنے۔1985ءمیں مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے سپیکربنے۔پی
ایم ایل اجونیجومیں شامل رہے۔اپنے کزن حامد ناصر چٹھہ سے اختلاف پر پی ایم
ایل (جونیجو) چھوڑ کر سردار مشتاق احمد خان کے ساتھ ملکر پی ایم ایل جناح
بنائی۔1993ءمیںوٹو کو پنجاب کی وزارت اعلی سے نکالا گیا تھا ۔والد میاں
جہانگیر احمد خان وٹو کے انتقال پر میاں منظور احمد وٹو نے مذہبی خیالات کی
وجہ سے جنازے میں شرکت نہیں کی کیونکہ ان کے والد قادیانی بن چکے تھے۔مشرف
دور میں ان کا بیٹا خرم جہانگیر وٹو اوکاڑہ کی تحصیل دیبالپور کا ناظم بنا۔
پرویز مشرف سے وٹو کے قریبی تعلقات قائم ہوئے۔وٹو نے اپنی لیگ حکمران ق لیگ
میں مدغم کر دی اور اس کے سینئر نائب صدر بن گئے۔نومبر2007ءتک ق لیگ میں
رہے پھرپارٹی صدر چودھری شجاعت حسین اور وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی
سے اختلافات تیز ہوئے ۔ فروری2008ءکے ا لیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے
این اے 146اور این اے147سے کامیاب ہونے کے بعد 29مئی2008ءکو پی پی پی میں
شامل ہوئے۔نومبر2009ءمیں سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں صنعت و پیداوار
کے وفاقی وزیر بنے،بعد میں ان کا محکمہ تبدیل کر کے انہیں وزیر امور کشمیر
و شمالی علاقہ جات بنا دیا گیا۔اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر
بھی ہیں۔ ان کی دختر روبینہ شاہین وٹو صوبائی اسمبلی کی نشستpp188سے کامیاب
ہوئیں۔ وٹو کے دو بیٹے خرم جہانگیر وٹو رکن قومی اسمبلی اور دوسرا بیٹا
معظم جہانزیب وٹو رکن پنجاب اسمبلی ، بیٹی روبینہ شاہین وٹو رکن پنجاب
اسمبلی اور ان کے شوہر مظہر احمد وٹو 2002سے2007تک قومی اسمبلی کے رکن رہے
اور 2008ءکے الیکشن میں پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔یوں اس خاندان کے پانچ
افراد، والد وفاقی وزیر،ایک بیٹا ایم این اے،ایک بیٹا اور بیٹی ممبر صوبائی
اسمبلی اور داماد بھی ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔اپنی تیس سالہ سیاسی زندگی کے
تجربات کی روشنی میں میاں منظور وٹو کوپاکستان کی سیاست میں شاطر و عیار
سیاستدان کے طور پر شہرت حاصل ہے۔
منظور وٹو وزیر امور کشمیر بنے تو واقفان نے کشمیریوں سے ہمدردی کا اظہار
شروع کر دیا۔وٹو صاحب کی مہر بانیوں کا سلسلہ مسلم کانفرنس کو دولخت کرنے
کے عمل سے شروع ہو کر ایک نہ رکنے والا سلسلہ بن گیا۔وٹو کی کشمیریوں پر
”مہر بانیوں“ کی ایک پوری داستان ہے۔آزاد کشمیر کے اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق
حیدر خان یہ بات ریکارڈ پر لا چکے ہیں کہ منظور وٹو نے گلگت بلتستان خوراک
سپلائی کے ٹھیکے اپنے عزیز و اقارب کو دے رکھے ہیں اورمظفر آباد سرینگر
ٹریڈ میں بھی وٹو صاحب کا تڑکا لگا ہوا ہے۔آزاد کشمیر میں چیف جسٹس سپریم
کورٹ کے تنازعہ میں بھی وٹو صاحب نے خوب ہاتھ رنگے،ہینگ لگی نہ پھٹکری ،رنگ
بھی چوکھا ۔ایک اطلاع کے مطابق پاکستان میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے
ایڈمنسٹریٹیو آفس لاہور میں درجنوں کے حساب سے دیبالپور اوکاڑہ کے افراد
بھرتی کئے گئے ہیں۔ اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق انہی دنوں کشمیر کونسل
میں چالیس منظور نظر افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ وزیر امور کشمیر میاں
منظور وٹو نے منظور نظر افراد کی ان بھرتیوں سے انکار پر ایک جوائنٹ
سیکرٹری کو تبدیل کر کے او ایس ڈی کر دیا اور جمیل اصغر کو جوائنٹ سیکرٹری
کشمیر کونسل تعینات کیا جو حسب منشا کام کر رہے ہیں ۔ کشمیر کونسل کے
افسران کا کہنا ہے کہ کشمیر کونسل حکومت پاکستان کے دائرہ کار میں نہیں آتی
لہذا الیکشن کمیشن کی طرف سے بھرتیوں پر عائید پابندیوں کا اطلاق کشمیر
کونسل پر نہیں ہوتا۔ اب معلوم نہیں کہ اس کے علاوہ اور کہاں کہاں کشمیر کی
زر خیزیاں” کشمیرکونسل کا تاوان“ ادا کر رہی ہیں ۔
شاید وٹو صاحب نے آزاد کشمیر حکومت کے کئی عہدیداران کی چاکرانہ سروس اور
مال خرچ ادائیں دیکھتے ہوئے سوچا ہو گا کہ شاید آزاد کشمیر میں بھی ” کمی“
پائے جاتے ہیں اور وٹو صاحب کی ان مہربانیوں پر آزاد کشمیر کے عوام کو
جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں دینی چاہئیں۔وٹو صاحب نے آزاد کشمیر کے
عبوری آئین مین ترامیم کا بھی وعدہ کر رکھا ہے اور ایک دو اجلاس بھی کئے
ہیں۔اب یہ وٹو صاحب کی مہربانی ہے کہ مقصود تو صرف کشمیر کونسل کی نشستوں
میں اضافہ کرنا ہے تا کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے کی جانے
والی سیاسی کمٹمنٹس کو نبھایا جا سکے ۔اب اس مقصد کے ساتھ ہی وٹو صاحب
مہربانیاں فرماتے ہوئے چند عنایات بھی کر جائیں گے تو اور کیا چاہئے آزاد
کشمیر کے عوام کو؟یہ بھی کیا کم احسان ہے کہ ایک وٹو خاندان کے 5افراد
اراکین اسمبلی ہیں۔صرف دیبالپور کے ہی نہیں سارے پاکستان اور ریاست جموں و
کشمیر کے عوام وٹو خاندان پہ صدقے جائیں بھر بھی میاں منظور وٹو کے
”احسانوں “ کا پلڑا بھاری رہے گا۔منظور وٹو اور کشمیر کونسل کے کشمیریوں پر
”احسانات“ کا احاطہ کرنے کے پراجیکٹ کا ٹھیکہ بھی اگر کشمیر کونسل کو دے
دیا جائے تو یہ بھی کشمیر کاز کے عین مفاد میں ہو گا۔اب وٹو صاحب کی
کشمیریوں پر ” مہربانیوں “کی تان کہاں جا کر ٹوٹے گی اور آزاد کشمیر کے
عوام وٹو صاحب کی ان گراں مہربانیوں کے جواب میں ان کی محبت میں کن کلمات
کا اظہار کرتے ہیں،یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ |