یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پاکستان سے
اسکالرشپ پر جامعۃ الازہر الشریف (مصر)میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا
تھا اور یہاں مصر کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی زیادہ دقت پیش نہیں
آئی تھی کیونکہ میرے اساتذہ (صاحبزادہ عزیر محمود الازہری اور صاحبزادہ
فائز محمود الازہری)جو جامعۃ الازہر سے اعلی تعلیم یافتہ تھے جنہیوں نے
میرے مصر آنے سے پہلے مصر کی ثقافت اور رہن سہن کے بارے میں مکمل بتایا تھا
اور یہاں کے ماحول اور خاص طور پر یہاں کے بے ھنگم ٹریفک کے بارے میں بھی
بتایا تھا اور مجھے اس سے ہوشیار رہنے کے بارے میں بتایا تھا تو جب میں
یہاں مصر آیا تو کئی دن تک یہاں مصر میں اپنے داخلے اور پاکستانی ایمبیسی
کے چکر کاٹتے لگ گئے اور یوں کچھ مہینے گزر گئے ہاسٹل سے یونیورسٹی اور
یونیورسٹی سے ہاسٹل اور پڑھائی کے ٹف ہونے کی وجہ سے کہیں باہر جانے کے لیے
وقت ہی نہیں ملتا تھا لیکن ایک دن ہمارے سینیئر دوست نے کہا کہ آؤ آپ کو
ایک نئی چیز سے متعارف کراتے ہیں جو تم نے پاکستان میں نہیں دیکھی تو میرے
اندر اس نئی چیز کو جاننے کی تڑپ بڑھتی چلی گئی اور میں نے بیٹھے بیٹھے کئی
دفعہ اس کو کہا کہ چلیں وہ نئی چیز دیکھیں تو ہنس پڑا اور کہا ہاں آؤ چلتے
ہیں ہم نے اپنے ہاسٹل کے سامنے سے بس لی اور چل دیے تھوڑی دیر بعد ایک
اسٹیشن پر اترے اور انڈر گراؤنڈ چل پڑے جہاں انسانوں کا ایک سمندر تھا تو
میں نے اپنے دوست سے پوچھا بھائی کہاں جا رہے ہیں اور اتنی دیر میں میرا
دوست ہم سے بچھڑ کر آگے چلا گیا تھوڑی دیر بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں تین
ٹکٹ تھے اس میں سے ایک مجھے دیا اور ایک دوسرے دوست کو اور ایک اپنے پاس
رکھا اور ہم نے گزرنے کے لیے ٹکٹ مشین میں ڈالا تو ہم آگے بڑھ گئے اور خود
کار سیڑھیوں کے ذریعے اسٹیشن پر پہنچے تو یہاں لوگ انتظار کر رہے تھے ہم
بھی کھڑے ہوگئے اور ٹھیک تین منٹ بعد ایک ٹرین آئی اور ہم بھی لوگوں کے
ساتھ اس میں سوار ہو گئے اور ایک مرتبہ پھر میرے سوالات کا سلسلہ شروع ہو
گیا میں نے اپنے دوست سے سوالوں پر سوال کرنا شروع کردیے کہ اس کا نام کیا
ہے اس نے بتایا کہ اس کو میٹرو کہتے ہیں میں نے پوچھا یار اس کی رفتار تو
بہت زیادہ ہمارے ہاں تو ٹرین اسٹیشن آنے سے پہلے رکنا شروع ہوتی ہے اور
چھکا چھک رک جاتی ہے لیکن یہاں تو سسٹم ہی کچھ تبدیل ہے یہاں ٹھیک تین منٹ
بعد ٹرین رک رہی ہے اور لوگ اتنی جلدی اپنی منزل پر پہنچ رہے ہیں اور میری
آنکھوں کے سامنے اپنے پاکستان میں چلتی گاڑیوں اور وہاں کی دھکم پیل اور
کنڈیکٹروں کی بدتمیزیوں کی داستانیں آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح شروع
ہو گئی اور میں یہاں میٹرو سے وقت پر پہنچتے مصریوں کو دیکھ رہا تھا وہاں
پاکستان میں لوگوں کو دھکے کھاتے دیکھ رہا تھا اور بوڑھی ماؤں اور بہنوں کو
اپنے آپ کو بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر گندی نظروں اور دھکوں سے بچتے
دیکھا یہاں کالجز اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو وقت پر پہنچتے دیکھا
اور تو وہاں میرے ملک میں طالب علموں کا دوسرے پیریڈ میں پہنچ جانا معجزہ
لگتا تھا یہاں مریضوں کو وقت پر ہسپتال میں جاتے دیکھا تو وہیں پاکستان میں
مریضوں کو رش میں سسک سسک کر دم توڑتے دیکھا تو اسی وقت دل میں خیال آیا کہ
کیا یہ کبھی میرے پیارے ملک میں بھی ہوگا کیا ایسا سسٹم میرے ملک کے کسی
شہر میں ایسا ہو گا کہ لوگ وقت پر اپنے کام پر جاسکیں گے اور ہمارا ملک بھی
ترقی کرسکے گا وہیں یہ بھی خیال آتا تھا کہ وہ ملک جس میں ہر وقت کہیں نہ
کہیں دھماکوں سے انسانی زندگی سسک رہی ہو وہاں پر یہ سوچنا بھی گناہ ہے اور
جہاں پر ہمارے ملک کے صدر پر اندروں و بیرون ملک اور ہمارے وزیر اعظم کو
سپریم کورٹ بدعنوانی میں زمہ دار قرار دے چکی ہو وہاں پر یہ عوام کی بھلائی
کا منصوبہ ایک مذاق لگتا تھا اسی دوراں ہمارا اسٹیشن آگیا اور ہم اترے اور
پھر دوسری سائیڈ سے میٹرو پر بیٹھ گئے اور اپنے ہاسٹل میں واپس آگئے تو اس
میٹرو کے پہلے سفر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور میں اپنے پاکستانی
اور مصری دوستوں سے اس کے بارے میں سوالات کرتا تھا میٹرو کے بارے میں اور
سوچتا تھا کہ کیا کبھی میرے پیارے ملک میں بھی ایسا کوئی سسٹم بنے گا حالات
کو دیکھ کر یہ ناممکن لگتا تھا اور وہ لگنا بھی چاہیے کہ جس ملک میں بیرونی
مداخلت یہاں تک ہو کہ پاکستانیوں کو سرزمین پاکستان میں ڈراؤن حملوں سے
مارا جاتا ہو حکومتی لیول پر اس کی مذمت صرف پریس کانفرنس سے ہوتی اور اس
کے بعد کوئی نہیں جانتا کہ جن کے بچے اس حملے میں مرے ان کا کیا حال ہے کسی
کو کوئی پتا نہیں اور جس ملک کا وزیر اعظم کئی کئی کروڑ کا ایک ایک سوٹ
پہنتا ہو اور غریب عوام ڈسپرین کی ایک گولی لینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہاں
ایسا ہونا ممکن ہو جائے گا ؟جس ملک میں حکمران پارٹی کے وزراء کرپشن کو
اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوں اور میڈیا پر اس کا اظہار کرتے ہوئے فخر محسوس
کرتے ہوں کیا اس ملک میں یہ سہولت عوام کو میسر آجائے گی ؟جس ملک کے حکمران
اپنے بیرونی دوروں پر اتنا خرچ کرتے ہوں کہ کئی کئی سو کا لشکر ان کے ساتھ
رہے اور عوام ایک شہر سے دوسرے شہر میں سفر کرنے کے لیے اپنے بچوں کو بیچنے
پر مجبور ہو جائیں کیا وہاں یہ ہو سکے گا ؟جس ملک میں حکمران تو اپنے لیے
بیس بیس کنال کے قلعہ نما بنگلوں میں رہتے ہوں اور عوام سے جینے کا حق بھی
چھیں لیا گیا ہو کیا وہاں ایسا ہو سکے گا ؟جس ملک کے حکمرانوں کے بچوں کی
حفاظت کے لیے پولیس کی کئی کئی گاڑیاں آگے پیچھے چلتی ہوں اور عوام مساجد
میں نماز پنجگانہ ادا کرنے سے ڈرتے ہوں کیا اس ملک میں ایسا ہو سکے گا ؟ہمارا
کراچی جس میں سیاست انسانی زندگیوں سے کھیل کر چمکائی جاتی ہو اور ٹارگٹ
کلرز کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو اس میں ایسا ہو سکے گا ؟یہ سب سوچ کر دل
مرجھا جاتا تھا اور لگتا تھا کہ کم ازکم یہ میرے ملک میں تو ممکن نہیں ہے
لیکن دل میں ایک تمنا سی تھی کہ کبھی تو اس ملک کو بھی اللہ سے ڈرنے والا
حاکم ملے گا جو اس ملک کی قسمت سنوارے گا جو اس ملک کی غریب عوام کے بارے
میں بھی سوچے گا ۔
آج جب لاہور میں میٹرو بس کا فتتاح ہو رہا تھا تو میری آنکھوں سے آنسوؤں کا
ایک نہ تھمنے والا سیلاب آگیا جیسے جیسے میں اس میٹرو بس کے بارے میں سن
رہا تھا میرے جذبات بے قابو ہو رہے تھے اور دل سے دعائیں نکل رہیں کہ یا
اللہ میاں شہباز شریف کی عمر دراز فرما جیسے میاں نواز شریف نے موٹروے کا
منصوبہ بنایا تھا آج لوگ انہیں دعا دے رہے ہیں-
اسی طرح آج ان کے چھوٹے بھائی نے میٹروبس کا منصوبہ شروع کیا ہے اور سسکتے
لوگوں کی دعائیں لی ہیں آج جو لوگ ان کے اس منصوبے پر تنقید کر کے اپنے
سیاست کر رہے ہیں غریب عوام کے فائدے کے منصوبے کو جنگلہ بس کہہ رہے ہیں
انہوں نے اس غریب عوام کے لیے کیا کیا ہے ؟کیا انہوں نے بجلی سستی ہے ؟کیا
انہوں نے عوام کو سوائے محرومیوں کے کچھ دیا ہے لاکھ اختلاف کریں لیکن
عوامی منصوبوں کی تعریف ضرور کریں ۔
آج میں ان سطور کے ذریعے جناب عزت مآب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف
کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں جنہوں غریب عوام کے لیے یہ منصوبہ
بنا کر اپنے خادم اعلی ہونے کا ثبوت کلام سے نہیں کام سے پیش کیا پاکستان
زندہ باد |