لفظ صحافت عربی زبان کے لفظ’صحف‘
سے نکلا ہے، جسکے معنی کتاب، صفحے یا رسالے کے ہیں۔ اسی طرح انگریزی میں
لفظ جرنلزم، لفظ ’جرنل‘ سے لیا گیا ہے، جسکے معنی بھی کتاب کے ہیں۔اس بات
سے سب ہی واقف ہیں کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔مگر آجکے دور کی
صحافت ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آجکل کے صحافی، صحافی کم
بلکہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے زیادہ لگتے ہیں۔ جنھوں نے صحافت کو ایک
گندا کھیل بنادیا ہے۔ ایک صحافی پر بہت بڑی ذمیداری عائد ہوتی ہے۔ صحافی
اپنی حرکات وسکنات کو آزادیءصحافت کے نام پر چھپا نہیں سکتے۔
صحافت ایک بہت ہی مقدس پیشہ ہے ۔آجکل صحافت میں دوڑ اور مقابلے
(competition and race) نے سچ کی جگہ لے لی ہے ، چاہے الیکٹرانک میڈیا ہو
یا پھر پرنٹ میڈیا ہر جگہ ریٹنگ کی صحافت چل رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عر صے میں
کچھ صحافیوں نے اس پیشے کے تقدس کو بری طرح سے پامال کیا ہے۔اور صحافت کے
پیشے کو بد عنوانی کا ڈیرہ بنا دیا ہے۔ میڈیا کی آزادی نے پاکستان کو ٹاک
شوز کی نعمت ، زحمت سے بھی نوازا ہے۔ہر نیوز چینل پر ایک دکان سجی ہوتی ہے
اور اس دکان پر نیوز اینکرز اور ہمارے سیاست دان اس طرح سے چیخ چیخ کر
گفتگو کر رہے ہوتے ہیں کہ جناب کوئی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمائندے ہیں۔ اور اس منظر کو دیکھ کر تو صحافی
حضرات اور سیاستدانوں کی تعلیمی قابلیت پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے۔ کچھ
صحافیوں نے تو صحافت کی زبان کو الگ ہی رنگ دے دیا ہے یہاں تک کہ ان ٹاک
شوز پر گالم گلوچ تک ہو رہی ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں تو بعض صحافی حضرات ایسے بھی ہیں جنہیں خود صحافت کی تعریف
معلوم نہیں ہوگی ۔صحافت کے شعبے سے متعلق لوگوں کے ذہن میں ایک بات یہ بھی
گردش کرنے لگی ہے کہ بس جسکو بولنا آتا ہے وہ ایک اچھا صحافی بن سکتا ہے
۔مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے، یہ ایک غلط سوچ اور رویہ ہے۔ صحافی بننے کیلئے
انسان کو پاس ہر موضوع پر معلومات کا ذخیرہ وافر مقدار میں ہونا چاہئے ۔
اور اسے ہر چیز کے بارے میں عقل و شعور بھی ہونا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے قومی اخبارات ابھی تک اخلاقی اوصاف کا دامن
تھامے ہوئے ہیں اور وہ عوام کومعلومات فراہم کرنے کی ذمہ داریاں نبھاتے
ہوئے اپنی ثقافت اور اسلامی شعار کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔ یہاں غور طلب
پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر برقی میڈیا کے میدان میں وہی گروپ اترے ہیں جو پہلے
پرنٹ میڈیا میں اپنا ایک معتبر نام رکھتے تھے۔آجکے نیوز چینل بھی ایک انٹر
ٹینمنٹ چینل کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں اور ان نیوز چینل پر بیٹھے
اینکرز کی ڈھٹائی تو دیکھئے ایک چینل سے ذلیل ہو کر دوسرے چینل پرچلے جاتے
ہیں ۔ مگر جناب وہی بات۔۔۔۔۔۔۔
شرم تم کو گر نہیں آتی
اب تو نہ جانے صحافت میں کیسے کیسے پہلو نکل آئے ہیں۔موجودہ دور کی صحافت
کو تو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شعبہ صحافت کے تو کوئی اصول و
قوانین ہی نہیں ہیں۔ یا پھر اگر ہیں بھی تو شاید ان صحافیوں کیلئے معاف
ہیں۔اب تو اکا دکا جگہ پر ہی صحافت کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں صحافت میں دو قسم کے رنگ نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف تنخواہ کو
ترسے ہوئے مگر خوددار اور بہترین پروفیشنلز تمام تر مشکلات کے باوجود کام
میں ایسے جتے ہیں کہ تن ، من اور اپنا بچا کچا دھن قربان کر رہے ہیں اور
دوسری طرف کچھ صحافیوں نے صحافت کو خود نمائی اور سیاسی ہیرو بننے کا پلیٹ
فارم بنادیا ہے۔ اصل صحافی تو قربانی بھی دے رہا ہے اور فائدہ بھی نہیں
اٹھا رہا۔
ایک کہاوت ہے کہ ’صحافی اسوقت تک عزت کما سکتا ہے، جب تک وہ اپنے قلم
کوآزاد رکھتا ہے اور خود کو اعلی ایوانوں سے دور اور باہر رکھتا ہے۔ اور جب
وہ اپنے قلم کو با اثر طبقوں اور اہل اقتدار کے پاس رہن رکھ دیتا ہے وہی دن
اسکی صحافتی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے‘۔
دراصل آجکل الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا دور ہے اور دنیا صحافت کے
بنا ادھوری ہے، اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اگر اس پیشے کو اپنالوں تو
عیش بھی ہے اور شہرت بھی،اور اب اسی وجہ سے کچھ کالی بھیڑوں نے میڈیا پر
قبضہ کر لیا ہے۔ لیکن اس بات کا اقرار بھی لازمی ہے کہ پاکستانی میڈیا نے
پچھلے چند سالوں میں بہت ترقی کی ہے، کم از کم مالی اور شہرت کے اعتبار سے
میڈیا سے وابستہ لوگوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہت سے حضرات
و خواتین پاکستان کے اصل مسیحا کے روپ میں بھی ابھرے ہیں۔ لیکن بہت سے
صحافیوں نے ٹی وی پر جنگوجدل کر واکر خود کو مشہور تو کرلیا ہے مگر ان میں
سے اکثر کی تعداد صحافی کم اور بی جمالو زیادہ لگتی ہے۔ اور سیاسی بتوں کی
پوجا پاٹ کرتی نظر آتی ہے۔ اس سب کا اثر اور نقصان دیانتدار صحافی کو ہوا
ہے، اسکے پاس موجود واحد اثاثہ یعنی عوام کا اعتماد اس سے چھنتا چلا جارہا
ہے، اسکا پیشہ مسخرے پن، جھوٹ ، بناوٹ اور قلم و زبان کی بد معاشی کی مثال
بننا شروع ہو گیا ہے۔
اب تو اس پیشے میں ایمانداری تو کہیں نظر ہی نہیں آتی، پیشہ صحافت ایک
سیاسی شو لگنے لگا ہے۔ اگر صحافی اس پیشے سے مخلص ہوجائیں تو کیا ہی بات ہے
مگر آجکے صحافی تو دولت کے پجاری بن گئے ہیں ۔ نیوز چینل اور اخبارات کی
بھی دن بہ دن بڑھتی ہوئی اس تعداد کی بدولت بھی اس پیشے کی قدر میں کمی
واقع ہو رہی ہے۔ اور اب یہاں صحافت کے بجائے سیاست کھیلی جاتی ہے۔ ذرائع
ابلاغ عامہ اب ایک نئی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب تو یہ پیشہ بھی بد عنوانی
کا ڈیرہ بن گیا ہے۔سیاسی ٹاک شوز کے دوران اکثر اینکرز وہ کردار ادا کر رہے
ہوتے ہیں جو پہلوانوں کی کشتی کے دوران ریفری کا ہوتا ہے۔ اپنے شو کے دوران
وہ صرف دو کاموں پر توجہ دیتے ہیں ’فضا کے درجہ حرارت کو بڑھانا‘ اور ’بریک
پر چلتے ہیں‘۔ غیر جانبداری کا پہلو تو اب کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ بلکہ بعض
اینکرز تو لہجے میں اتنی تلخی لے آتے ہیں کہ روایتی تھانیدار لگتے ہیں ۔
صحافیوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔
صحافت اور صحافی کا اخلاقی فرض ہےکہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے سماج
کو روشناس کرائے۔ ملک اور معاشرے کے مفاد کیلئے عوام کو بیدار کرے اور
معاشرے میں پھیلی یوئی ہر قسم کی برائیوں سے نجات دلانے کیلئے اقدامات
کرے۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیسہ کمانے کی اندھی دوڑ میں جمہوریت کا یہ
چوتھا ستون اپنی تمام تر اقداراوراخلاقیات کو پامال کرچکا ہے۔ عملی طور مر
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دولت کی جھولی بھرنے کیلئے تمام قوائدوقوانین کو
بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں پاکستان میں سب سے زیادہ
صحافت کے شعبہ نے ترقی کی ہے ، اس شعبہ میں ایک انقلاب سا برپا ہوگیا ہے۔
صحافیوں کو معاشرے کی آنکھ ، کان اور زبان بھی کہا جاتا ہے مگر معاشرے کی
اس آنکھ کے دیکھے اور کان کے سنے ہوئے سچ کو سننے کی صلاحیت بہت کم لوگوں
میں ہوتی ہے۔ صحافی وہ طبقہ ہے جو حقائق تک پہنچنے کیلئے اپنی جان بھی
قربان کردیتا ہے۔ ملک میں دن بہ دن صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے
مگر اسکے ساتھ ساتھ صحافت کا پیشہ اپنی اصل پہچان کھوتا جارہا ہے۔ آجکی
صحافت ریاست کو ڈبونے کے درپے ہوگئی ہے۔
شعبہ صحافت ایک انتہائی خوبصرت شعبہ ہے ۔ خدا کے واسطے اسے ملک کی سیاست کی
نذر نہ کیا جائے ۔جس طرح ہر پیشے کے کچھ اصول اور قواعدو ضوابط ہوتے ہیں،
بالکل اسی طرح صحافت کے بھی اصول ہونے چاہئیں اور ان اصولوں پر عمل کرنے کی
ذمہ داری ہر صحافی پرعائد ہونی چاہئے اور یقیناً عمل نہ کرنے کی صورت میں
ان پر سزا کا اطلاق بھی ہونا چاہئے، تاکہ یہ مقدس پیشہ اپنی قدروقیمت نہ
کھوئے اور عوام کا صحافت اور صحافیوں پر سے اعتبار بھی نہ اٹھے۔اور اس شعبے
سے سیاست کا نام و نشان بھی مٹ جائے۔ |