کراچی بدامنی کیس کے سلسلے میں
سپریم کورٹ رجسٹری نے کراچی کے حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے جس کی مثال
نہیں ملتی، واقعی صبح گھر سے نکلنے والوں کے احباب جب تک وہ گھر واپس نہیں
آجاتا خیر کی دعائیں ہی مانگتے رہتے ہیں، اور سکون کا سانس تب ہی لیتے ہیں
جب گھر سے باہر نکلے ہوئے لوگ گھر واپس آجائیں۔ گھر والے تو حالات سے ویسے
ہی پریشان ہیں اور گھر سے نکلتے ہوئے لوگوں کو درود شریف، آیت الکرسی اور
نہ جانے کون کون سی دعائیں پڑھ کر اللہ کے حفظ و امان میں دیکر رخصت کرتے
ہیں۔ ایسے میں اگر اِمام ضامن بھی باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں!
حالات کے معاملے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کراچی بربادی کے دہانے پر
کھڑا ہے، کوئی بھی شخص محفوظ نہیں ہے۔ اور حکومت صرف بیان بازی کی حد تک
محدود ہے۔ ایسے میں جہاں ہر تراکیب گھر سے باہر نکلتے ہوئے آپ آزماتے ہیں
ان میں اب اِمام ضامن کا اضافہ بھی کر لیں۔ یوں دل میں خیال اُبھر رہا ہے
کہ ہمارے یہاں جمہوریت کو بھی تو اِمام ضامن کی طلب ہے ۔ کیسے؟ آیئے اُس
طرف نگاہ ڈالتے ہیں۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ہر شخص کو اظہارِ رائے کی کلی
آزادی اور اپنے خیالات و احساسات کا کھلے طور پر استعمال کرنے کا حق اسے
قانون نے دے رکھا ہے۔لیکن اظہارِ رائے کی آزادی یا اپنی بات کو کہنے کیلئے
یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ہماری بات سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ہماری بات
تہذیب و اقدار کے دائرے سے باہر نہیں جائے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ
ہماری بات میں اخلاقی پہلوﺅں کی ایک کہکشاں جگمگا رہی ہو، جسے سننے والے
ہماری تائید و توصیف کریں نہ کہ ہماری ہجو بیان کی جائے۔ اسی کا نام
جمہوریت ہے ، اسی کا نام آزادی ہے، اور سب سے بڑھ کر اسی کا نام آزاد صحافت
بھی ہے۔ ایسے میں جب کوئی خاص انسان جمہوریت اور آزادی کی حدود کو توڑ کر
باہر نکلتا ہے تو دل کو ہی نہیں بلکہ دماغ کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ جیسا کہ
دو روز پہلے اعزازی ڈاکٹر ملک صاحب نے بیان داغ دیا کہ فروری کے مہینے میں
کراچی میں خون ریزی کا امکان ہے۔ پہلے ہی شہرِ قائد میں خوف کا راج ہے اس
پر ان کے اس بیان نے سونے پر سوہاگہ کا کام دکھایا اور شہریوں میں مزید خوف
و دہشت اور سراسیمگی پھیل گئی جس کا تاثر آج بھی کسی حد تک قائم ہے۔موصوف
بلا شبہ ایک قد آور سیاسی شخصیت ہیں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ پی پی پی میں
گزرا ہے۔ اور گذشتہ پانچ سالوں سے وزراتِ داخلہ کے قلمدان کو سنبھالے ہوئے
بھی ہیں۔ درخواست یہ ہے کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے بجائے سنجیدگی
اختیار کیا جائے اور اگر ایسی کوئی اطلاعات آپ کے پاس ہیں بھی تو اس کا قلع
قمع کرنے کی راہ تلاش کی جائے ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک کی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں عوام اور جمہوریت
کیلئے فائدہ مند ہوتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کئی پارٹیاںمل کر
حکومت تشکیل دیتی ہیں تو ان سب میں جو بڑی پارٹی ہوتی ہے اس کے سامنے
ریاستی مسائل اور مفادات ہوتے ہیں ایسے میں اگر وہ پارٹی ملکی مفادات کو
نظر انداز کر دیں تو اس کا یہ طرزِ عمل حکومت ، جمہوریت اور ملکی عوام
دونوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں جمہوریت پھل پھول رہا ہے
وہاں اس بات کو خاص انداز سے دیکھا جاتا ہے جس میں ملکی مفادات، عوامی
مفادات، اداروں کے مفادات اور اسی طرح کے کئی اور مفادات ہوتے ہیں جس پر
عمل کرنا حکومتِ وقت کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو
حکومت تو کمزور ہوتی ہی ہے ساتھ میں جمہوریت بھی کمزور سے کمزور ہوتی چلی
جاتی ہے، بہرحال جمہوریت میں کئی قسم کی خوبیاں ہوتی ہیں لیکن اس کی خرابی
میں سیاست کے مکینوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک
صاحب ایک دانشمند انسان ہیں اس کے باوجود اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بات
کہنا انہیں کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔
ہمارے اس جمہوری نظام کو اس کی گھٹی سمیت عوام کی حکمرانی کے لئے لائے تھے
لیکن اس نے دہشت گردی کے نام پر روزآنہ کی بنیاد پر بیس بیس افراد کا صفایا
کرنے والے قاتلوں اور دن کی روشنی میں ملک کی دولت لوٹنے یا اس کی بندر
بانٹ کرنے والوں کے لئے کھلا میدان فراہم کیا، لیکن جب ہم جمہوری اقتدار کے
اس پینسٹھ سالہ دور پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ، تو جو کچھ ہمیں نظر آتا
ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کسی خاص طبقہ کے یہاں گروی رکھ دی گئی ہے۔ جتنے سال
ہم نے جمہوریت کے سائے میں گزارے اس سے زیادہ اس ملک میں قتلِ عام ہوئے، اس
سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مالی اور دوسری قسم کی شہرہ ¿ آفاق اسکینڈل
ہوئے اور عوام سے سیاستدانوں کی دغا بازی کے واقعات بھی اس سے کم نہیں ہیں۔
سیاستدانوں کی زہر افشانی اور نفرت و تعصب کی آندھی نے بھی ان پینسٹھ سالوں
میں کتنے گھروں کے چراغوں کو گل ، کتنے بچوں کو یتیم اور کتنی عورتوں کو
بیوہ کیا، کتنے غریبوں کا گھر چھین لیا اور کتنے کے کاروبار کو بند کراکے
ان کو بھوکا مرنے پر مجبور کر دیا جو حد شمار سے باہر ہے۔ اس لئے دانشمند
افراد یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جمہوریت اپنے نفاذ کے بعد ہی سے خصوصاً
آج اپنی خستہ حالی پر ماتم کناں ہے۔
ہے ہوا جان مخالف کیسی
روز اپنا ہی گھر جلاتی ہے
روز اپنے ہی آگ دیتے ہیں
روز اپنوں کی بات کرتے ہے
دانشوروں کاکہنا صحیح ہی ہے کہ ہماری ملکی پارٹیوں نے جس طرح جمہوریت کی
دھجیاں آڑائی ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں تاہم ان کی زہر افشانی اور نفرت و
تعصب سے بھرپور تقریریں اس کا اہم حصہ ہیں۔ یہی وہ سیاسی بازیگر ہیں جن کے
ہاتھ جمہوریت کے خون سے رنگین ہیں لیکن قانون کی اتنی صریح خلاف ورزی کے
باوجود یہ انسانیت کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ آج تک ان پر قانونی شکنجہ
نہیں کسا جا سکا۔ مذکورہ طائرانہ نظر سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت
کس طرح خستہ حالی کا شکار ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے تو پھر جمہوری ملک
میں انصاف ریلیوں کی تو ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیئے ، انصاف اور عوامی
مفادات ان کے دروازوں پر میسر ہونا چاہیئے۔ جمہوریت کی بنیادیں تو عدل و
انصاف پر ہی قائم ہوتی ہے، وہاں تو قانون کی بالادستی ہوتی ہے لہٰذا جمہوری
ملک میں کہیں بھی ریلیوں کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے مگر ہمارے یہاں مجبوری
یہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں کا تو بابا آدم
ہی نرالا ہے۔جب بلدیات سے لیکر اسمبلی اور پارلیمنٹ تک نمائندے کا انتخاب
عوام کرتی ہے تو جمہوری ملک میں بسنے والے ہر فرد بشر کو ہر طرح کی سہولت
بھی ان اسمبلیوں کا کام ہے کہ بہم پہنچائیں ۔ تمام شہریوں کو یکساں حقوق
حاصل ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں یہ سب کچھ ناپید ہے۔ جمہوریت کا مفہوم تو
یقینا ہر شخص کو جینے کا حق فراہم کرتا ہے چاہے فلک بوس عمارت میں رہنے
والا ایک کروڑ پتی ہو یا ایک جھونپڑی کی زندگی بسر کرنے والا کوئی نان بائی
، چاہے وہ کار یا پراڈو پر سواری کرنے والا امیر زادہ ہو یا پیدل چل کر
اسکول جانے والا ایک غریب کے آنکھوں کا تارا، چاہے وہ بوریے پر بیٹھ کر
قاعدہ بغدادی پڑھانے والا ایک بزرگ ہو یا یونیورسٹی میں کرسی پر بیٹھ کر
لیکچر دینے والا ایک پروفیسر۔ جمہوریت کی نگاہ میں یہ سب برابر ہیں تو پھر
ایسا نظام کیوں نہیں وضع کیا جاتا ہے ؟
مذکورہ احوال و کوائف سے ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت پاکستان میں دو پیمانے
رکھتا ہے یہاں امیر و غریب کے درمیان امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہاں طاقتور اور
کمزور کے گرفتاریوں کا طریقہ جدا جدا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی ہونے کا بھی
فرق پڑتا ہے۔ متعلقین اور غیر متعلقین کے درمیان بھی نظر اندازی کا معاملہ
پیش آتا ہے۔ اور بھی بہت سے ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے سامنے پیش آتی رہتی
ہیں جنہیں لفظوں کے پیراہن میں سمونا ممکن نہیں ہے۔اس لئے کہا جا سکتا ہے
کہ جمہوریت کی نمائش ہی کافی نہیں ہے بلکہ ارباب حکومت کی یہ بھی ذمہ داری
بنتی ہے کہ اس کی بنیادوں کی مضبوطی کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں۔ تاکہ جمہوریت
کا بول بالا ہو اور اس کی بالا دستی قائم ہو۔ ورنہ تو جمہوریت ہر پانچ سال
کے بعد صرف الیکشن کا نعرہ اور نمائش بن کر رہ جائے گا۔ |