پاکستان میں غیر جانب داروں کی
طرح زندگی گزارنے والے افراد آج بھی مجبور ہیں۔ ان کا کوئی حق ایسا نہیں ہے
جسے پورا کیا گیا ہو۔ بلکہ پاان کے حق اور حقوق کی مالی ہی پامالی ہے۔
سرکاری نوکریوں میں ان کے لئے منصوبہ بندی کے تحت دروازے مکمل طور پر بند
ہیں۔ کیونکہ نوکریوں کی بندر بانٹ صرف سیاسی کارکنوں کے لئے ہیں۔ ہر سیاسی
جماعت اپنے ورکروں کو ہی نوکریاں بانٹنے میں مصروفِ پیکار ہیں۔ غیر جانبدار
لوگ ہیں تو ضرور مگر کیا وہ آپ کو ووٹ نہیں دیتے۔ دیتے ہیں تو پھر ان کو
نوکریوں سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کے چولھے جلانے میں آپ
مدد و نصرت کیوں شامل نہیں ہے۔ معصوم اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کے حق
سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ حکومتی اداروں کو سچائی کی عینک کب لگے گی اور وہ
کب انصاف کا برملا اظہار کرتے ہوئے یہ ناانصافیاں ختم کریں گے۔ جب بھی کہیں
سے نوکریوں کا اشتہار ملے تو نوجوان دوڑتے ہیں مگر وہاں پر پہلے ہی لوگ
بُرا جمان ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں صرف آس لگایا جاتا ہے کہ دیکھیں کب
امید کی کرن پھوٹتی ہے اور صبح کی نوید کب سنائی دیتی ہے۔ ملک کے پڑھے لکھے
نوجوان اس امید پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب حکومتِ
وقت اور آنے والی نئی حکومت ان کی داد رسی کرے گی۔ اور یہ اقربا پروری کا
بدنما داغ مٹ کے رہے گا۔
پاکستان کی سیاست میں یہ روایت بہت ہی پرانی ہے کہ جب انتخابات کے دن قریب
آتے ہیں تو سیاسی لیڈران اپنی سیاسی آما جگاہوں سے باہر آتے ہیں اور تعلیم
یافتہ طبقہ کے سامنے لمبے چوڑے وعدے کرکے اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے
اپنی عالیشان محلوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب حکومت کے وعدوں پر بھی
یقین نہیں رہا ہے نوجوانوں کوکہ ووٹ کہ بعد کئے گئے وعدے پورے ہونگے یا
نہیں۔ایسے میں بیچارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا کیا ہوگا۔جو اپنے گھر والوں
کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ سیاسیات کے مکینوں سے
ہر روز ہی میڈیا پر اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعے مودبانہ گزارش کا سلسلہ
جاری رہتا ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی دانشمندی کا ثبوت دیں اور کوئی سنجیدہ
اقدام کریں اور اسامیوں پر غیر جانبدار نوجوانوں کو بھی نوکریاں فراہم کریں
اور آسامیوں کو سیاسی ہونے سے بچائیںمگر آج تک ایسا نہیں ہوا۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں رہنے بسنے والوں سے ہم بخوبی واقف ہوتے
ہیں۔ پڑوس میں کس قماش کے لوگ ہیں ان کے چال چلن کیسے ہیں اس کا بھی اندازہ
ہوتا رہتا ہے۔ کئی لوگ دیندار ہوتے ہیں تو کچھ بے دین۔ کچھ لوگ اچھے ہوتے
ہیں تو کچھ لوگ جھگڑالو۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسے لڑتے جھگڑتے ہیں جیسے ایک
دوسرے کے جانی دشمن ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہیں گلی میں رہنا ہی نہ
ہو۔ بھائی بھائی سے لڑ رہا ہے تو کہیں جائیداد کے معاملات کورٹ تک جا پہنچے
ہیں۔ سگے بھائی ایک دوسرے سے بد گمان نظر آتے ہیں۔ کیا ہمیں ان سب باتوں پر
سوچنے کا وقت ہے ، ان باتوں کو حل کرنے کا وقت ہے، اگر ہے تو اسے بھی ضرور
دیکھئے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر مسائل کی طرف بھی نظرِ کرم کیجئے ۔ والدین کس
قدر کسمپرسی بھگت کر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں صرف اس
آس پر کہ ان کے بچے بڑے ہوکر ان کا سہارا بنیں گے مگر یہاں سہارا کس طرح
بنا جا سکتا ہے کہ جب وہ تعلیم سے فراغت کے بعد نوکری کے لئے در در کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اور نوکری نہ ملنے کے سبب نوجوان نسل ادھر
اُدھر دوسرے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ مانا کہ سرکاری نوکری سب کو نہیں دی جا
سکتی مگر یہاں تو پرائیویٹ اداروں میں بھی جگہ نہیں ہے۔ اور کچھ ادارے
فیکٹریاں تو بند بھی ہو چکے ہیں، اور جو بچا ہے وہ بھی بھتہ خوری سے تنگ
آکر یا تو بند کر رہے ہیں یا پھر کہیں اور شفٹ کر رہے ہیں۔ ” آپ ہی اپنی
اداﺅں پہ ذرا غور کریں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی“
جو لوگ باقاعدگی سے اخبار پڑھتے ہیں وہ میری بات کی خود تائید کریں گے کہ
نوجوان نسل کس طرح روزآنہ اخباروں میں نوکریوں کا اشتہار تلاش کرتے ہیں اور
پھر دوسرے دنCVبنوا کر اور پھر کرایہ لگا کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر ان
کے ارمانوں پر اُس وقت اوس پڑ جاتی ہے جب وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ فلاں
نوکری یا فلاں پوسٹ کسی اور کو دے دی گئی ہے۔ ملک کے ہر اداروں میں آپ کو
آج سیاسی لوگ بیٹھے ہوئے ملیں گے اگر نہیں ملیں گے تو غیر جانبدار نوجوان
جن میں قابلیت بھی ہے اور اکثر کے پاس ڈگریوں کا انبار بھی مگر نوکری
ندارد۔کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ سیاسی لوگوں کو نوکری کی ضرورت نہیں ہے ،
بالکل ہے اور انہیں بھی نوکری ضرور ملنا چاہئے مگر ان کے ساتھ ساتھ غیر
سیاسی لوگوں کو بھی نوکری میں حصہ ضرور ملنا چاہیئے تاکہ انہیں بھی احساسِ
محرومی کا احساس نہ ہو اور ان کے گھروں میں آپ کی طرح چولھے جلتے رہیں۔ ان
کے ساتھ بھی ماں ، بہن، بھائی، باپ اور دیگر اہلِ خانہ بستے ہیں جنہیں
کھانے پینے اور دوسرے ضروریاتِ زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی نوجوان کی زندگی محض ان کے بزرگوں کی چھوڑی
ہوئی کوئی جائیداد نہیں بن سکتی اور نہ ہی وہ زندگی بھر اس جائیداد کے
سہارے زندگی گزار سکتا ہے۔ جب تک کہ اس کے آنکھوں میں سجے سپنے سچ نہ ہو
جائیں۔ نوجوانوں میں بے صبری سے اپنے آپ کو کامیاب دیکھنے کا خواب زندہ ہے۔
اگر انہیں اس موقع پر نوکری جیسی بنیادی ضرورت کا خیال نہیں رکھا گیا تو یہ
نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ انہیں مایوسیوں سے بچانے
کے لئے ایسے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ان کا خواب چکنا چور نہ ہوا۔
ایسے لوگ اور نوجوان ہر لمحے اپنی ناکامی کو سامنے دیکھتے ہوئے اپنی
کامیابی پر بھی شک کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے مقصد سے خود دور ہوتے جاتے
ہیں۔ خواہشات پوری نہ ہوں تو ایسے نوجوان نسل تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی
تعلیم کو کوسنے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خدا ایسا دن نہ لائے اور یہ جو
پود بڑا ہو رہا ہے اور کچھ بڑے ہو چکے ہیں اور عنقریب ایک تناور درخت بننے
کی جستجو میں مگن ہیں انہیں ان کا حق دے دیں تاکہ وہ بھی دوسروں کی طرح پُر
سکون زندگی گزار سکیں۔
دنیا بھر میں حکومتیں نوجوان نسل کا مستقبل سنوارنے کے لئے پالیسیوں پر
انحصار کرتی ہیں ۔ مگر ہمارے یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پالیسیاں صرف
کاغذوں اور فائلوں تک ہی محدود رہتی ہیں اس پر عمل در آمد کم ہی ہوتا ہے۔
آج کا نوجوان ایک ایسا آزاد بہاﺅ والا پانی جیسا ہوتا ہے جو اپنا راستہ خود
بنانے کی فکر کرتا ہے ۔ مگر اس فکر میں اس کا ساتھ کون دیگا ظاہر ہے کہ
ہماری حکومت ہی اس کا ساتھ دے سکتی ہے۔ اور اپنے مستقبل کو صحیح سمت میں
رواں دواں رکھنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہی
نوجوان نسل ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ حکمران کسی ملک کے بھی ہوں وہ نوجوانوں
کا مستقبل روشن اور تاریک کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایسی صورت مین جس
نوجوان نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہو اور وہ اپنی تعلیمی سند کی بنیاد پر ہر
روز جو خواب دیکھا کرتا ہے کہ کسی روز اچھی نوکری مل جائے گی، گھر والے
روزآنہ جو میری راہ میں آنکھیں بچھائے رہتے ہیں ان کو بھی ایک دن اچھی
خوشخبری ملے گی، پہلی تنخواہ ملے گی تو میں اپنے گھر والوں کے لئے یہ کروں
گا، وہ کروں گا۔ مگر یہ سب جب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ملک سے اقربا پروری،
کرپشن ، ختم ہو جائے، انصاف مہیا ہو جائے، نوکریاں میرٹ پر ملنے لگیں۔ رشوت
ستانی کا بازار ختم ہو جائے۔
آج بھی یہ نوجوان نوید صبح کی امید لگائے اس آس پر جی رہے ہیں کہ انہیں
اچھی نوکری ضرور ملے گی۔ اور وہ اپنے اور اپنے کنبے کے لئے ضرور سہارا بنیں
گے۔ عزم و ہمت کا یہ لعل اپنے ہاتھوں میں پکڑیں رہیں انشاءاللہ ایسا دن
ضرور آئے گا ، ایسی صبح ضرور طلوع ہوگی جب آپ سب نوجوانوں کا خواب شرمندہ
تعبیر ہوگا۔ انشا ءاللہ |