آدم خور شہر

طاہر القادری ،توقیر صادق ،رینٹل پاور،موبائل فون سروس بند،الیکشن کمیشن،کامران فیصل اور دیگر مسائل میں ہم پھر کراچی کو بھول گئے۔جس تن لاگے اُس تن جانے،،،جس کے گھر کا چولہا بھوجا ،جس کا سہاگ اجڑا،جس بچے کا باپ یا جس بچی کا وُہ بد نصیب باپ جو اپنی گُریا کے ارمان پورے کرنے کی غرض سے خالق حقیقی سے جا ملا بلا کسی جرم کے،جس خاندان کا واحد سپوت اپنے خاندان کا مان عزت لیکر سر پر کالی ٹوپی پہنے ،اور چھاتی پہ بیج لگائے شہادت کو پہنچااُس کی کمی کوئی پوری نہں کر سکے گا جس کے ساتھ یہ المیہ ہوا اُس کے آلام کا انداہ ہم جیسے نہیں لگا سکتے۔یہ قلم بھی اِس درد پہ اشک بار ہے ۔کیا صاحب اقتدار افراد کو یہ نہیں لگتا کہ کراچی روشنیوں کا شہر نہیں بلکہ آدم خوروں کا شہر بن گیا ہے۔کراچی اور سندھ کے لیڈران کیوں کچھ نہیں کر رہے ۔کیوں گھر میں لگی اِس بھیانک آگ پر قابو نہیں پا رہے۔کیا سیاست انسانی لاشوں پہ کی جاتی ہے ۔یہاں خود کو پورے ملک کی جماعت کہلوانے سے پہلے شہر ِکراچی کے امن کا تو سوچ لیں۔جلتی جلتی منہ میں ڈالنے سے انتہائی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔کچھ ڈلیور تو کریں ۔ہماری تاریخ میں بیک وقت دو دو جنگیں ہو رہی ہیں ایک سوات والی اور دوسری کراچی کی۔آج کراچی کے بے شمار معصوم قتل و غارت گری کی بھیٹ چڑھ چکے ہیں۔کئی آوازئیں اُٹھی مگر دب گئی۔سپریم کورٹ سے عوام و میڈیا کی عاجزانہ صدائیں پہنچی بھی اور قبول بھی ہوئیں مگر ابھی تک ویسا عوامی فائدہ عمل میں نہیں آیا جسکی توقع تھی۔دن دھاڑے لوگوں کو قتل کرنا اور بھتہ خوری اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔گزشتہ دنوں ہی کراچی میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے جسمیں ڈی ایس پی اور دو اہلکاروں سمیت پانچ افراد جان بحق ہوئے پھر اسطرح دو گشت پہ نکلے پولیس اہلکاروںکو نشانہ بنایا گیا۔بم دھماکوں کے بارے میں یہ اطلاح ملی کی دہشت گردوں کا ہدف پولیس اور میڈیا تھا۔یہ امر قابل ستائش ہے کہ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے کراچی پولیس کے بہادراور فرض شناش سپاہی آج بھی سر پر کفن باندھے ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں ۔ہمیں فخر ہے کہ اِس قوم میں آج بھی صبغت غیور شہید اور بشیر احمد بلور شہید جیسے مجاہد انسان موجود ہیں۔ہاں یہاں یہ کہنے میں کوئی بعید نہیں کہ انہیں جانبازوں کی وجہ سے آج پاکستان کھڑا ہے وگرنہ شر پسند عناصر تو اِس ارضِ پاک کے کونے کونے میں آگ لگانا چاہتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ خون ریزی آخر کب تک جاری رہے گی۔کراچی میں الیکشن کمپین چلانے والی جماعتوں نے کچھ سوچا کہ ہم برسرِاقتدارہو کے اِس جنگ و جدل کو کیسے ختم کریں گے یا صرف شوقینی کے مزے ہی لوٹنا اِن کا منشور ہو گا۔روزانہ یہاں ایک آدمی کے پیچھے کئی خاندان اجڑ جاتے ہیں ہم اپنی نسلوں کی خود تلفی کے ذمہ دار ہیں۔ایکشن تو بہت دیکھ لیے ری ایکشن کب کریں گے۔کیا اِس شہر میں ملیٹنٹ ونگز کا خاتمہ ہوا۔کیا اُن جماعتوں نے اپنے کارندوں کو لگام نہیں ڈالی کہ خدارا نسلِ انسان کے علاوہ ہماری ہی نسلوں کے گلے ہم ہی کاٹ رہے ہیں تو منع ہوجاؤ ۔قاتل بھی ہم ہیں اور مقتول بھی ہم۔تو ایسا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔الیکشن قریب ہیں اور وارداتیں بھی عروج کو ہیں ۔عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت سے بے عیب ،با وفااور ترقی کی سوچ کے حامل لیڈران کو منتخب کرنا ہوگا۔اور کراچی کے اقتدار کی خواہش رکھنے والوں کو اپنے ایجنڈے میں اول کراچی کا امن وامان رکھنا ہوگااور باعملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔شاہی سید کے چار نکات جو کراچی کے امن کے متعلق ہیں میں اُن کے حق میں ہوں ہاں بلکہ ہر انسان جو کراچی میں امن کا خواہاں ہے اُس کی بھی یہی زبان ہے ۔شاہی سید کے چار نکات کا مفہوم یہ ہے کہ کراچی میں مکمل طور پر ڈی ویپننائزشن ہونی چاہیے ۔جن جن جماعتوں کے ملیٹنٹ ونگز ہیں اُنہیں اِن کا خاتمہ کرنا چاہیے۔پولیس کا نظام بہترکرنا چاہئے جب یہ ہو گیا تو کراچی کا امن ضرور بحال ہو گا۔یہ نکات میں اپنے کالم کی وساطت سے عاجزانہ طور پر صاحب اقتدار کے سامنے رکھتا ہوں کہ خدارا اِس غضب کو بند کروائیں۔معصوم بے گناہوں کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔اِس مسلئے پہ تمام جماعتیں اور حکومت مل بیٹھ کراِسکا حل پر عمل کرنے یا اِس سے بہتر حل کو عمل میں لائیں۔اگر کسی کے پاس اقتدار کی دولت ہے تو یہ عظیم خداِواحد کا تحفہ ہے ۔لہذا وُہ اِس تحفے کو اگر دے سکتا ہے تو چھن بھی سکتا ہے یہ غضب تو اُس غضب کے سامنے بہت کم ہے جو غصے میں اللہ سبحان وتعالی ایسے حکمرانوں پر نازل کریں گئے جو یہ عمل سر زد کرواتے ہیں یا کرتے دیکھتے ہیں اور اِس کو بند نہیں کرواتے۔جس جس کی جوجو ذمہ داریاں ہیں اُسے وُہ نبھانی چاہیئں ۔عوامی اور میری چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری صاحب سے اپیل ہے کہ کراچی پہ سایہ شفقت رکھیں اور ڈیفالٹڈافراد کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزادیں۔یہ قلم کل بھی اٹھتا تھا آج بھی اٹھا اور آگے بھی اپنا فرض ادا کرتا رہے گا۔انشااللہ
usama khamis minhas
About the Author: usama khamis minhas Read More Articles by usama khamis minhas: 15 Articles with 9608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.