گلابی شہر جئے پور میں کانگریس
کے اہم اجلاس کا حاصل یہ ہے کہ کانگریس میں راہل گاندھی کی نمبر2حیثیت یا
مقام غیر رسمی سے مستند و مصدقہ یوں ہوگئی کہ وہ باقاعدہ طور پر پارٹی کے
نائب صدر بظاہر منتخب (لیکن عملاً نامزد) ہوگئے۔ اب پارٹی کے وہ کرتادھرتا
ہیں ہم اسے یو ں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی ذمہ داری (معمولی ہی سہی) خوش
اسلوبی سے نبھائے بغیر یا بغیر کوئی کارنامہ سر انجام دئیے پارٹی کارکنوں
کے مطالبے پر راہول جی کو بڑا عہدہ بڑی ذمہ داری سپرد کردی گئی یہ مطالبہ
کتنا اصلی یا حقیقی تھا اس کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔ کسی جلسہ میں بھاری
تعداد میں لوگوں کو جمع کرنا، نعرے لگوانا، تالیاں پٹوانا، مطالبے کرنا
مخالف پارٹی کے جلسے کو ناکام بنانا فی زمانہ ’’پیسہ پھینکو تماشہ دیکھو‘‘
کے مصداق ہے۔ ان کی تقریر کی بھی بدنام الکٹرانک میڈیا کی چند ٹی وی چینلز
نے ’’حسب معاوضہ‘‘ خاصی تعریف بھی کی ہے۔
کانگریس کی یہ ’’چنتن بیٹھک‘‘ یا ’’غور وفکر اور مشاورت‘‘ کے لیے بلائے گئے
اس اجلاس سے ’’عام آدمیُُ (جس کے ساتھ ہونے کی کانگریس دعودیدار ہے) کو (نہ
جانے کیوں) بڑی امید تھی لیکن یہ امیدکسی نوید کے نہ سنے جانے کی وجہ سے
مایوسی میں بدل گئی۔ ہم سے ایک تعلیمیافتہ گھریلو خاتون نے پوچھا ’’عوام کے
جن مسائل، مشکلات اور پریشانیوں پر غور کرنے یا ان کا حل تلاش کرنے کانگریس
کا یہ اجلاس منعقد ہوا تھا کیا وہ راہل کے نائب صدر نامزد کئے جانے سے حل
ہوجائیں گے اور عوام کو راحت ملے گی؟ ‘‘ ہم نے ان معزز خاتون کو ’’ملکہ ہند
سونیا گاندھی ‘‘ سے رجوع ہونے کا مشورہ دے کر مایوس کردیا کیونکہ وہ جانتی
ہیں کہ سونیا گاندھی سے ملنا یا ان سے کسی سوال کا جواب پانا کسی صورت (ڈاک،
ڈاک برقی(e-mail) یا فون) سے ممکن نہیں ہے۔
سارے عوامی مسائل کے تعلق سے لگتا ہے کہ کانگریس مانتی ہے کہ یہ عوام کی
قسمت اور تقدیر سے وابستہ ہیں کانگریس وزارتیں، وزرأ اور گورنر بدل سکتی ہے
عوام کی تقدیر نہیں۔ جو مقدر میں ہے وہ عوام ہی بھگت لیں گے کانگریس کو
2014میں اکیلے نہ سہی کسی کے ساتھ مل کر اقتدار میں آنے کی فکر ہے تو وہ
بھلا مہنگائی، کرپشن، افراطِ زر، بجلی اور پانی کی قلت، اقلیتوں کے مسائل،
مسئلہ تلنگانہ پاکستان و چین کی شرارتوں، عورتوں کی حفاظت، دہشت گردی، فرقہ
واریت و علاقہ واریت اور علاقائی جماعتوں کی فسطائیت اور ہندتوا والوں کی
فرقہ واریت وغیرہ وغیرہ پر فی الحال غور کرنے کی فرصت، سکت اور توانائی
کہاں سے لائے؟ اتنے نہ سہی اس میں سے کچھ مسائل آزادی کے وقت سے عوام کو
درپیش ہیں جو عوام بظاہر خندہ پیشانی سے (لیکن اندر ہی اندر روکر) جھیل رہے
ہیں کانگریس کو یقین ہے کہ عوام یہ سب مزید کچھ عرصہ برداشت کرہی لیں گے (اگر
نہیں جھیلیں گے تو کریں گے کیا؟)
راہول گاندھی کی نائب صدر کے عہدہ پر نامزدگی دراصل 2014کے بعد وزارت عظمی
کے لیے ان کی امیدواری کا اعلان ہے ان کی نامزدگی پر منائے گئے جشن اور آتش
بازی کی خبروں اور ان کی تقریر کی تعریف کے شور میں ہم نے مہنگائی،کرپشن،
عوامی مشکلات اور مسلمانوں کے مسائل کا ذکر بہت تلاش کیا لیکن کہیں کچھ
نہیں ملا ایک خیال تھا کہ آسام ، مہاراشٹرا، راجستھان اور آندھراپردیش (ان
ریاستوں میں حال ہی میں خونیں فسادات اور مسلمانوں کی دل آزاری کے خاصے
سامان ہوئے ہیں) سے اس سلسلے ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ میں ملاقات ضرور
ہوگی۔ شائد ان کی مسلم دشمنی یا نرم ہندوتوا پر ان کی سرزنش نہ سہی ان کو
آئندہ محتاط رہنے کی تلقین ضرور ہوگی لیکن کسی مسلم مسئلہ کا ذکر تک نہ ہوا۔
کانگریس میں اب بھی خیر سے قد آور مسلم شخصیات کافی ہیں لیکن ان مسلم
قائدین کی زبان پر لفظ مسلمان ہی مشکل سے آتا ہے تو مسلم مسائل کی بات وہ
کیسے کریں گے؟ دھولیہ کے حالیہ فساد میں مسلمانوں پر پولیس کی اندھا دھند
فائرنگ، مہاراشٹرا پولیس کے سرکاری ترجمان رسالہ میں ہندوتوا کے نظریات پر
مبنی پولیس آفیسر کی نظم کی اشاعت اور مسلمان نوجوانوں کی گرفتاریاں ان پر
قائم کئے گئے جھوٹے مقدمات اور دیگر کئی باتیں مہاراشٹرا میں کانگریس سے
مسلمانوں کو دور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ دوسری طرف آندھراپردیش میں چارمینار
کی دیوار سے متصل بھاگیہ لکشمی مندر کی توسیع (جبکہ 1960ء کی دہائی کے آخر
تک ایسے کسی مندر کا وجود نہ تھا) کے معاملے میں کرن کمار ریڈی حکومت کا
سنگھ پریوار سے غیر معمولی تعاون اور مجلس اتحاد المسلمین کی تائید سے
محرومی کے بعد مجلسی قائداکبر الدین اور دوسرے قائدین کے خلاف انتقامی
کارروائیاں(خاص طور پر اکبر الدین اویسی کی علالت کے باوجود ان سے غیر
انسانی سلوک کا جواز تو کوئی ریڈی صاحب سے دریافت کرتا! اور اب اسد اویسی
بھی جیل میں۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک کسی کی ضمانت بھی نہیں ہوئی ہے۔
دوسری طرف بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں
لیکن قومی شاہراہ نمبر9پر متنگی (ضلع میدک) مسجد کی شہادت پر احتجاج کرنے
والے قائدین کے خلاف آٹھ سال پرانے مقدمات کے مردہ گھوڑوں میں جان ڈالی
جارہی ہے۔ دفعہ153A کے تحت ماخوذ کئے جانے والے افراد پر ملک سے غداری یا
جنگ کرنے کے مقدمات چلانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ دوران مقدمہ ان کی ضمانت نہ
ہوسکے! کیا اس طرح مسلمان ووٹ بینک کو مضبوط کیا جاسکتا ہے؟ دوسری طرف
سوامی کملانند بھارتی کی ضمانت مل گئی ہے۔
نہ صرف مندرجہ بالا بلکہ دیگر واقعات خاص طور پر آسام کا قتل عام، بابری
مسجد کے مقدمات کی طوالت، دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات مسلمان نوجوانوں کی
گرفتاری اورن کے خاندانوں کی تباہی، بٹلہ ہاؤس معاملے میں ہٹ دھرمی، سچر
کمیٹی اور انتخابات میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنا اور کئی دیگر معاملات
کے سبب یوں بھی مسلمانوں کو کانگریس سے برگشتہ کردیا تھا لیکن حالیہ واقعات
نے مسلمانوں سے کانگریس کو بہت دور کردیا ہے۔ اس دراڑ کو راہول گاندھی شائد
ہی ختم کرسکیں! آندھراپردیش میں اکبر الدین اویسی کے ساتھ اور مہاراشٹرا
میں دھولیہ کا واقعہ اور گرفتار شدہ مسلمان نوجوانوں سے جو زیادتیاں ہوئی
ہیں اس کا اثر ان ریاستوں سے باہر کے مسلمانوں پر بھی پڑے گاجو کانگریس کے
حق میں خوش گوار نہ ہوگا۔
مسلمانوں کو راضی کرنے کے لیے کانگریس کو جو کرنا ہوگا اس کی ہمت راہول
گاندھی اور ان کے نوجوان ساتھیوں میں نظر نہیں آتی۔
کانگریس نے راجیو گاندھی کے بیٹے، اندرا گاندھی کے پوتے اور پنڈت جواہر لال
نہرو کے پرپوتے کا انتخاب کرکے جمہوری نظام میں موروثیت کو داخل کیا ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام میں میں موروثیت کا وجود ہی ناقابل برداشت ہے لیکن نہ
صرف ہندوستان بلکہ ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی بھٹو خاندان، مجیب خاندان اور
ضیاء الرحمن خاندان بھی جمہوریت کی مٹی پلید کررہے ہیں۔ اندرا گاندھی اور
بے نظیر کا باپ کا جانشین بننا گوارہ ہے لیکن بے نظیر کے بعد زرداری اندرا
کے بعد راجیو گاندھی اور راجیو گاندھی کے بعد سونیا گاندھی کا صدر کانگریس
بنایا جانا اور راہول کو وزیر اعظم بنانے کی تیاری بنگلہ دیش میں مجیب کی
بیٹی حسینہ اور ضیاء الرحمن کی بیگم خالدہ کا کرسی سنبھالنا جمہوریت کے نام
پر ہوس اقتدار کا گھناؤنا کھیل ہے اور راہول کی نامزدگی بھی اسی کھیل کا
ایک حصہ ہے۔ راہول گاندھی کی نامزدگی کا واحد جواز ان کا سونیا گاندھی کا
بیٹا ہونا ہے ہم نے بارہا لکھا ہے کہ اگر سونیا گاندھی راجیو گاندھی کی
ہلاکت کے بعد اٹلی لوٹ جاتیں اور راہول گاندھی یہاں رہ بھی جاتے تو ان کی
حیثیت ورون گاندھی سے بڑھ کر نہ ہوگی۔
بادشاہوں کے زمانے میں امراء کا ایک گروپ کسی لائق و ہونہار شہزادے کے
مقابلے میں کسی نکمے، نااہل اور ڈرپوک شہزادے کی حمایت اس وجہ سے کرتے تھے
کہ شہزادہ بادشاہ بن جانے کے بعد امراء کے اس گروپ کے ہاتھوں کٹھ پتلی
بنارہے اور بادشاہ گر امراء عملاً حکمرانی کے مزے لوٹیں۔ آج کے جمہوری دور
میں خالدہ ضیاء، حسینہ واجد، زرداری، بلاول بھٹو کے حاشیہ بردار ہندوستان
میں اور ہندوستان کے باہر راجیو گاندھی، سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو
آگے بڑھانے کا نہرو خاندان کا خوشامدی ٹولی ہی ذمہ دار ہے ورنہ اندرا
گاندھی کے بعد پرنب مکرجی ، ارجن سنگھ اور دیگر کئی قائدین کی موجودگی میں
سیاست سے نابلد ہوائی جہازوں کے پائلٹ راجیو گاندھی کا وزیر اعظم بنایا
جانا حیرت انگیز تھا۔ راجیو گاندھی کے بعد سونیا اگر خوف زدہ نہ ہوتیں تو
وزیر اعظم بن جاتیں۔ سنجے گاندھی تو اندرا گاندھی کی زندگی میں ہی (دروغ
برگردن راوی) کہا کرتے تھے کہ
ـ"If you want decision come to me for discussion go to madam!
’’اگر فیصلہ چاہتے تو میرے پاس آئیے مذاکرات کے لیے
میڈم کے پاس جائیے‘‘
مرعوب‘ مطلبی خود غرض پس پردہ رہ کر مزے کرنے کا خواہش مند ٹولی ہر جگہ
عوام کی رائے پر اپنی رائے جمہوریت کے نام پر مسلط کررہا ہے۔ راہول گاندھی
کا وزیر اعظم بن سکنا بہر حال کوئی یقینی امر نہیں ہے لیکن اگر وہ وزیر
اعظم بن ہی جائیں تو کیا ہوگا؟ یہ پیش قیاسی آسان نہیں ہے۔
کانگریس نے جئے پور میں راہول کی نامزدگی کے علاوہ کانگریس نے کوئی اہم کام
نہیں کیا ہے اگر کیا ہوتا تو آندھرا کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی مجلس
اتحادالمسلمین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند کردیتے ۔ اکبر
الدین اویسی کو رعایت دی جاتی ان کی صحت کا لحاظ کرتے ہوئے بہتر علاج کی
غرض سے ان کو عادل آباد سے حیدرآباد منتقل کیا جاتا اور سطور کے تحریر کئے
جانے تک صدر مجلس اتحادالمسلمین اسد الدین اویسی رکن پارلیمان کو گرفتار
کرلیا گیا حالانکہ ان کو عدالت میں خودسپردگی پر رہا کیا جاسکتا تھا یہ تو
گویا وہی بات ہوئی ’’جو ر ہے جور کی داد نہیں فریاد نہیں‘‘۔ آج کانگریس کی
حکومت مجلس سے یا مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے لیکن آنے والے انتخابی
معرکوں میں ’’ولی عہد‘‘ راہول گاندھی بھی ایم آئی ایم سے مقابلہ کریں تو
مسلمانوں کے ووٹس سے وہ محروم رہیں گے۔ کرن کماریڈی اور راہول گاندھی
ایمرجنسی کے بعد ہوئے انتخابات یا بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے
انتخابات کے نتائج کو یاد کرلیں تو پتہ چلے گا کہ عوام کے ووٹس کی طاقت کیا
ہوتی ہے؟ 2014ء کے انتخابات راہول کے لیے اہم یوں ہیں کہ اگر 2014ء میں
راہول گاندھی پارٹی کو جتنا نہ سکے (جس کا امکان بہت زیادہ ہے) تو کانگریس
کا خوشامدی ٹولہ بھی راہول اور سونیا گاندھی کی مدد نہ کرسکے گا۔ |