ہندوستان میں مسلمانوں کو جس طرح
سزا دینے میں سرعت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اسی طرح ان کے خاطیوں کو بچانے
میں بھی عجلت کا مظا ہرہ کیا جاتا ہے۔ جس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے
ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اسی طرح ہندوستانی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں
مسلمانوں کو انصاف سے محروم کرنے کیلئے ہزاروں حیلے بہانے اور ثبوت گڑھتی
ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سیکڑوں مسلمان سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائے
لیکن کوئی پولیس والے یا خفیہ ایجنسی کے کسی افسران یا اہلکار کو کسی بھی
صورت میں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ مثال کے طور پر کچھ برسوں میں جن 17،18 مسلم
نوجوانوں کو رہا کیا گیا ہے اور ججوں نے پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کی
سفارش کی تھی لیکن آج تک کسی بھی پولیس والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
گئی۔ اس کا سامنا مسلمان آزادی کے بعد سے کرتے آرہے ہیں لیکن اس میں قومی
جمہوری اتحادحکومت کے دور میں اس میں کچھ تیزی آئی تھی اور مسلمانوں کے
مورل ڈاؤن کرنے کیلئے کئی طرح کے منصوبے تیار کئے گئے تھے اورکئی پر عمل
بھی کیاگیا تھا لیکن یوپی اے حکومت کے دوران اس میں کافی تیزی آئی ہے۔ یکے
بعد دیگر ایسے اقدامات کئے گئے جس سے صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا
ہے ۔مسلم نوجوا نوں کو دہشت گردی کے نام پر پورے ہندوستان سے اٹھایا گیا ۔
مسلمان حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ۔ وفود کی شکل میں وزرائے سے لیکر وزیر
اعظم تک اور سونیا گاندھی و راہل گاندھی کے دربار میں فریاد کرتے رہے اور
ہر جگہ یہ یقین دہانی ملتی رہی کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن اس میں کمی آنے کے
بجائے اس میں شدت آتی گئی۔ ایک دھماکہ کے نام پر درجنوں مسلم نوجوانوں کو
گرفتار کیا جاتارہااور بغیر مقدمہ چلائے سلاخوں کے پیچھے ڈالتے رہے۔ کشمیر
کو جو حکومت ہنداپنااٹوٹ حصہ کہتے نہیں تھکتی وہاں سیکورٹی ایجنسیوں کو
مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کے ظلم روا رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ دہلی
اجتماعی آبروریزی کیس میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے سابق آرمی چیف وجے
کمارسنگھ کی میعاد کے دوران سیکڑوں کشمیری خواتین کی آبروریزی کی گئی لیکن
آرمی چیف کو کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ متاثرین کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔
شبہات کی بنیاد پرکشمیری نوجوانوں کاقتل عام اور حراستی اموات میں زبردست
طریقے سے اضافہ ہوا۔1990 سے جاری شورش کے دوران جہاں تقریباً اسی ہزارافراد
ہلاک ہوچکے ہیں وہیں لاپتہ افراد کا پتہ نہ ہونا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔گمشدہ
افراد کے بیویوں کو وہاں نصف بیوہ (ہاف ویڈو) کہا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے
لواحقین کی تنظیم کی سربراہ پروینہ آہنگر کہتی ہیں کہ آٹھ سے دس ہزار افراد
لاپتہ ہوگئے ہیں جنہیں ہندوستانی فوج اور نیم فوجی اہلکار محاصروں اور
چھاپوں کے دوران گرفتار کرکے لے گئے اور بعد میں ان کی حراست سے انکار
کردیا۔ پروینہ کا بیٹا بھی پچھلے سولہ سال سے لاپتہ ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا
ہے کہ چار ہزار سے بھی کم کشمیری نوجوان لاپتہ ہیں جن میں سے بیشتر پاکستان
کے زیرانتظام کشمیر میں مسلح تربیت کے لیے گئے تھے۔ کشمیر ی نہ صرف آسان
ہدف ہیں بلکہ سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے مباح کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ اتنے بڑے پیمانے قتل عام، خواتین کی آبروریزی، بچوں کی گرفتاری اور بغیر
مقدمہ چلائے حراست میں رکھنا، حراستی اموات اور ایذا دیکر قتل کرنے کے اتنے
واقعات ہونے کے باوجود آج تک کسی اہلکار کو سزا نہیں ملی۔ افضل گرو ان ہی
کشمیریوں میں سے ایک تھا جسے خاموشی کے ساتھ پھانسی دی گئی ہے۔جس کا دفاع
نہیں کیا گیا تھا۔پروفیسر ایس آر گیلانی کے وکیل اور مشہورسماجی کارکن
نندتا ہسکر نے بارہا کئی پروگراموں اور مباحثوں میں یہ کہا کہ افضل گرو کو
پھانسی کی سزا غلط ہے کیوں کہ کسی وکیل نے اس کا دفاع نہیں کیا ہے۔
نندتاہکسر نے پروفیسر ایس آر گیلانی کا دفاع کیا تھا اور وہ بری ہوگئے
تھے۔اگر فضل گرو کو بھی وکیل کی خدمات حاصل ہوتی تو شایدوہ بھی بری ہوجاتے
ہیں کیوں کہ ان پر حملہ آوروں کی مدد کرنے کا الزام تھا۔
13 دسمبر 2001 کو پارلیمنٹ پر حملے میں قصوروار قراردئے گئے افضل گور کو8
فروری 2013 کوصبح دہلی کی تہاڑ جیل کو پھانسی دے دی گئی ۔گزشتہ سال 16
نومبر، 2012 کو صدر نے افضل گرو کی رحم درخواست کئی نوٹس کے ساتھ وزارت
داخلہ کے واپس لوٹا دی تھی۔ 23 جنوری کو وزارت داخلہ نے صدر کو اس معاملے
میں اپنی سفارش بھیج دی تھی۔اس کے بعد 26 جنوری، 2013 کو صدر نے وزارت
داخلہ کو افضل گرو کی رحم کی درخواست مسترد کردی ۔ بالآخر کابینہ کمیٹی کی
میٹنگ میں افضل گرو کو پھانسی دیئے جانے کی آخری تیاری پر مہر لگادی گئی
اور پھر خاموشی کے ساتھ اور انتہائی خفیہ طریقے سے اسے پھانسی دے دی گئی۔
ہندوستانی پارلیمنٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں پانچ شدت پسند شامل
تھے۔ پانچ حملہ آوروں اور سکیورٹی اہلکار کو ملا کر کل 14 افراد ہلاک ہوئے
تھے۔ افضل گرو پر ان شدت پسندوں کو مدد فراہم کرنے کا الزام درست پایا گیا
تھا۔ نچلی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ 2003 میں ہائی کورٹ نے اس سزا کو
برقرار رکھا اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ نے بھی اس میں کوئی رعایت دینے سے
انکار کر دیا تھا۔ ان کی بیوی افشاں گرونے صدر کے سامنے رحم درخواست دائر
کی تھی جس کی وجہ سے افضل گرو کی پھانسی ٹلتی رہی تھی۔اس کے بعد سے یہ
معاملہ التوا میں رہا اور اس معاملے پر کافی دنوں تک سیاست گرم رہی۔خاص طور
پر بی جے پی افضل گرو کو پھانسی کی سزا دینے کے لئے اتاؤلی تھی۔ اس کے لیڈر
نے پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی افضل گرو کو کانگریس کاداماد قرار
دینا شروع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ تمام پارٹیوں کو جو اپنے آپ کو نام نہاد
سیکولر کہتے ہیں تقریباً سبھی نے انہیں پھانسی کی سزا دینے کے لئے آواز
اٹھائی تھی۔اس کے علاوہ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے حساب ان کانمبر 13واں
تھا۔ موت اور زندگی کی کشمکش کے درمیان محمد افضل گرو دِہلی کی تہاڑ جیل کے
مخصوص وارڈ میں قید رہے تھے۔ ان کی پھانسی کے لیے تمام بندوبست ہوچکے تھے۔
پھندے کے لیے رسی ریاست بہار سے آ چکی تھی اور جّلاد پڑوسی شہر میرٹھ سے۔
محمد افضل گورو کی زندگی تعلیم، فن، شاعری اور شدت پسندی کا منفرد امتزاج
ہے۔وہ شمالی علاقے سوپور کے ایک متوسط خاندان سے تھے جو سوپور سے چھ
کلومیٹر دور ابگائی گاؤں میں جہلم دریا کے کنارے آباد ہے۔ افضل کے ایک کلاس
فیلو کا کہنا ہے کہ وہ اسکول کے پروگراموں میں اتنے سرگرم تھے کہ انہیں
ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر پریڈ کی قیادت کرنے کے لئے خاص طور پر
منتخب کیا جاتا تھا ۔ انہوں نے 1986 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔بی بی
سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائر سیکنڈری میں جب انہوں نے سوپور کے مسلم
ایجوکیشن ٹرسٹ میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات نوید حکیم سے ہوئی جو
ہند مخالف سرگرمیوں میں فعال تھا لیکن افضل نے تعلیم کو ترجیح دی اور 12
ویں پاس کرکے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور والد کے خواب کو پورا کرنے میں
لگ گئے۔جب کشمیر میں لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین کے درمیان تصادم شروع
ہوا تو افضل نے اعلان کیا کہ سوپور میں مارپیٹ نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ
سارے علاقے میں باہمی لڑائی میں سینکڑوں مجاہدین مارے گئے لیکن سوپور
کاعلاقہ پر سکون رہا۔جب کشمیر میں 1990 کے آس پاس مسلح دہشت گردی شروع ہوئی
تو افضل ایم بی بی ایس کے تیسرے سال میں تھے۔ اسی دوران سری نگر کے آس پاس
کے علاقے چھانپرا میں ہندوستانی فوج نے ایک کارروائی کے دوران مبینہ طور پر
کئی کشمیری خواتین کے ساتھ آبرو ریزی کی ۔ اس واقعہ سے انہیں گہرا دھچکا
پہنچا ۔ ایسے ہی ایک نوجوان فاروق احمد عرف کیپٹن تجمل (جو اب شدت پسندی
چھوڑ چکے ہیں) کے مطابق افضل خون خرابے کو پسند نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے
کہ وہ شدت پسندی چھوڑ کر اپنے چچیرے بھائی شوکت گورو (پارلیمنٹ پر حملے کے
ایک اور ملزم) کی مدد سے انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور
گریجویشن کے بعد معاشیات میں ڈگری حاصل کی۔ شوکت کے چھوٹے بھائی یسین گرو
کا کہنا ہے کہ افضل دہلی میں اپنا اور اپنی پڑھائی کا خرچ ٹیوشن سے کر
چلاتے تھے۔ ڈگری کے بعد تھوڑے وقت کے لئے شوکت اور افضل دونوں نے بینک آف
امریکہ میں نوکری کی۔آخر میں دہلی میں سات سال تک رہنے کے بعد 1998 میں وہ
اپنے گھر کشمیر واپس لوٹ آئے۔ "غالب کی شاعری ان کے سر پر سوار تھی یہاں تک
کہ اپنے بیٹے کا نام بھی غالب رکھا ۔ وہ جیکسن کے نغمے بھی شوق سے سنتے
تھے۔اس دوران افضل نے دہلی کی ایک دوا بنانے والی کمپنی میں ایریا منیجر کی
نوکری کر لی اور ساتھ ہی ساتھ خِود بھی دوائیوں کا کاروبار کرنے لگے۔ افضل
کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ وقت افضل کے لئے واپسی کا دور تھا، وہ عام طور
پر سیر سپاٹے، نغمے ، گانے بجانے اور سماجی کاموں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔
افضل کی بھابھی بیگم اعجاز کا کہنا ہے کہ 2000 میں ٹاسک فورس نے افضل کو
گرفتار کر لیا اور "انہیں کافی اذیتیں دیں"۔ اس کے بعد افضل نے سوپور میں
رہنا چھوڑ دیا اور زیادہ تر دہلی اور سرینگر میں رہنے لگے۔یہ دوسرے کشمیری
تھے جنہیں پھانسی دی گئی۔ اس سے پہلے مقبول بٹ کو انٹلی جنس افسر کے قتل کے
جرم میں 1984 میں تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی ۔صدر جمہوریہ کے پاس
سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کے لیے رحم کی تقریباً پچاس درخوستیں زیر
التواء ہیں اور وزیر سابق داخلہ پی چدمبرم کئی مرتبہ یہ کہہ چکے تھے کہ ان
درخواستوں پر اسی ترتیب سے غور کیا جائے گا ۔ اس فہرست میں دو درجن سے
زیادہ قیدی افضل گرو سے آگے ہیں۔
کشمیرکے حالات بہت مشکل سے معمول پر آئے تھے۔ تمام شعبہائے حیات سے وابستہ
افرادنے اپنے روز مرہ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔کچھ دن قبل
لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی کی خلاف ورزی کے نتیجے میں حالات کشیدہ ہوگئے
تھے۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین جب بھی کوئی کشیدگی ہوتی ہے سب سے زیادہ
آفت کشمیری مسلمانوں پر ہی آتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے لیڈروں کے لئے یہ تفریح
طبع کا ذریعہ یا بیان بازی کا موقع ہوسکتا ہے لیکن کشمیریوں کے لئے یہ
بلائے ناگہانی سے کم نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر جہاں اس پھانسی کا کئی لوگوں نے
خیر مقدم کیا ہے وہیں کئی لوگوں نے کہا ہے کہ افضل گرو کو خود کو بے گناہ
ثابت کرنے کا ایک موقع اور ملنا چاہئے تھا۔میگسیسے ایوارڈ یافتہ اور مشہور
مصنفہ اروندھتی رائے نے بھی افضل گرو کے معاملے میں کہا تھا کہ اس میں کئی
گڑبڑیاں ہیں اور صحیح طریقے سے دفاع نہیں کیا گیا ۔ افضل کے معاملے میں کئی
عوارض ہیں اور انہیں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا ایک موقع ملنا چاہئے۔ سمر
ہلرنکر لکھتے ہیں کہ افضل گرو کو خفیہ طور پر کیوں پھانسی دی گئی، کیا صرف
سپریم کورٹ کے مطابق ہمارے ’اجتماعی وویک ‘کو مطمئن کرنے کے لئے۔ اے پنکج
لکھتے ہیں کہ کورٹ نے بھی نوٹ کیا تھا کہ افضل کے خلاف ثبوت توڑ مروڑ کے
پیش کئے گئے تھے۔اہم یہ ہے کہ انہیں اپنے دفاع کے لئے قانونی مدد بھی نہیں
ملی۔افضل گرو کے بھائی محمد یاسین گرو کے مطابق یہ ایک بربریت اور وحشتناک
حرکت ہے۔ افضل کو پھانسی کی سزا دی گئی اور ہمیں خبر بھی نہیں کی گئی۔ اتنا
ہی نہیں ہمیں ماتم منانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہمارے گاؤں کو فوجی
چھاؤنی بنا دیا گیا ہے۔ ان کے اہل خانہ نے مقا،می پولیس کی مدد سے صدر اور
وزیر داخلہ سے افضل کی لاش کی گھر واپسی کے لئے درخواست دی ہے۔اس دوران
کشمیر میں کرفیو اور سکیورٹی پابندیو ں کی وجہ سے عام زندگی ٹھپ ہے۔ سرینگر
اور بڑے قصبوں میں بھاری تعداد میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا
گیا ہے۔لوگ اشیائے ضرورویہ سے محروم ہیں۔
افضل گرو کوجس وقت پھانسی دی گئی ہے ۔ یہ بیک وقت کئی چیزوں کی طرف اشارہ
کرتا ہے۔ آئندہ ایک سال کے اندر ۹ ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے عام
انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس طرح کے اقدمات کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے توقع
کی جاسکتی تھی لیکن کانگریس سے نہیں، لیکن کے سیاہ کارناموں نے یہ ثایت
کردیا ہے وہ بی جے پی سے بھی دو قدم آگے ہے۔ ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے
قصوروار اجمل عامر قصاب کو پارلیمنٹ کے اجلاس سرما سے قبل پھانسی دی گئی
اور پھر افضل گرو کو بجٹ اجلاس سے قبل پھانسی دی گئی ہے۔ توکیا مرکزی حکومت
کا یہ قدم سیاسی طور پر بجٹ اجلاس ، اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے عام انتخابات
سے منسلک ہے؟ بجٹ اجلاس سے قبل حکومت نے افضل گرو کو پھانسی دے کر حزب
اختلاف کے الزامات کی ہوا نکالنے کی کوشش ہے۔ خاص طور پر بی جے پی سے نمٹنے
کی تیاری کی ہے اور وزیر داخلہ نے ہندو دہشت گردی پر دئے گئے اپنے بیان پر
بی جے پی کے احتجاج کی شدت کوکم کرناچاہتے ہیں۔ کانگریس نے ایک تیر سے کئی
شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کی زبردست ناراضگی کے بعد کانگریسی
حکومت مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گی اور کئی اسکمیوں کا اعلان کرے
گی ۔ اسکیم کا اعلان اس لئے بھی کرے گی کیوں کہ انتخابات آنے والے ہیں جس
کا نفاذ کبھی نہیں ہوگااگر بالفرض محال نفاذ ہو بھی گیا توفلاح بہبود کسی
اور طبقے کی ہوگی لیکن کھاتے میں مسلمانوں کے جائے گا۔دراصل معاملہ یہ ہے
کہ کانگریس اس وقت دو طرح سے چال چل رہی ہے ایک تومودی کا خوف دکھاکر
مسلمانوں کو اپنے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کرنا چاہتی ہے کہ اگر اسے (کانگریس)
کو ووٹ نہیں دیا تو مودی آجائے گا جو مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
اس طرح کا واقعہ انجام دے کر کانگریسی حکو مت مسلمانوں کے لئے ہندوستان کو
بند گلی بنانا چاہتی ہے آگے کنواں اور پیچھے کھائی کی صورت حال پیدا کرنا
چاہتی ہے۔گجرات قتل عام کے علاوہ جتنے بڑے فسادات ہوئے ہیں وہ کانگریسی
حکومت کے زمانے میں ہوئے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی گئی ہے تو اس
کا مطلب یہ ہے کہ کانگریسی حکومت صرف مسلمانوں کو سزا میں صد فیصد ریزرویشن
دینا چاہتی ہے۔ |