جمہوریہ مالی ۔ ایک مرتبہ پھر فرانسیسی استعمار کے شکنجے میں

مغربی افریقہ کا ملک جمہوریہ مالی شدید بے چینی کا شکار ہے براعظم افریقہ میں پچھلے آٹھ سو سال سے مختلف شکلوں اور ناموں سے آباد اس ملک کی نوے فیصد آبادی سنی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے جس میں سے بیشتر پرامن اور صلح پسند لوگ ہیں کئی سالوں سے قحط، بغاوت اور گذشتہ 23سال کی فوجی آمریت کے بعد1992میں یہاں جمہوریت قائم ہوئی لیکن شمالی علاقوں میں واقع ’’ توراگ‘‘ قبیلے کی ’’ازواد‘‘ علاقے میں خود مختاری کی تحریک اور پھر اسلام پسند قوتوں کی جانب سے مالین فوج سے جنگ سے شمالی علاقہ ایک مرتبہ پھر بدامنی کاشکار ہوگیا ہے اس تمام صورت حال کا ایک منفی پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ1960میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کوباغیوں کی کارروائیوں سے بچانے کے لئے ایک مرتبہ پھر فرانسیسی فوج نے اپنے ڈیرے مالی میں ڈال دئے ہیں اس مقصد کے لئے فرانسیسی فوج نے مالی کے شمالی علاقے میں باغیوں پر حملہ کرکے ان کے ٹھکانوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں مسئلہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جنگی بحران پرغور کرنے کے لئے مغربی افریقہ کے ملکوں کی تنظیم ’’ ایکواس‘‘(Ecowas) Economic Community of West African Statesبھی سرگرم عمل ہوچکی ہے اور اس حوالے سے ایکواس کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں جس میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ میں مغربی افریقہ کے ممالک کے کردار کے حوالے سے بحث و مباحثہ شروع کردیا گیا ہے آئیوری کوسٹ کے شہر ’’آبیدجان‘‘ میں ہونے والے ایک حالیہ اجلاس میں فرانس کے وزیر خارجہ’’ لاراں فابیوس‘‘ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2085کی روشنی میں ’’ بین الااقوامی امدادی مشن برائے مالی(مالی انٹرنیشنل مشن فار اسسٹنس) (MIMSA)‘‘کے معاہدے پر عمل درآمد تیز کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے واضح رہے اس معاہدے کے تحت فرانس کے ڈھائی ہزار فوجیوں کے ساتھ مغربی افریقی ممالک کے تین ہزار فوجی بھی اس مشن میں ان کے ساتھ ہوں گے تاہم یہ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ بنتا جارہا ہے کیوں کہ افریقی ممالک کی حکومتیں اور عوام خطے کی ماضی کی سیاسی اور عسکری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس صورت حال کو ایک مرتبہ پھر غیر ملکی افواج کی مداخلت کا راستہ کھولنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں واضح رہے نائجیریا،بنین، گھانا،برکینوفاسواور ٹوگو نے اس مشن میں اپنے فوجی دستے بھیجنے کا وعدہ کیا ہے اسی طرح امریکہ میں بھی اس حملے کے بارے میں بحث ومباحثہ شروع ہوچکا ہے اگرچہ امریکہ نے اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیں کی ہے تاہم امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس اور امریکی وزارت دفاع کے درمیان اس کارروائی کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں تاہم وہ دیگر یورپی ممالک کی طرح اس بات پر یکسو ہیں کہ مالی کے شمالی علاقوں میں برسرپیکار اسلام پرست تنظیموں کو القائدہ کی حمایت حاصل ہے تاہم وہ ابھی یہ فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ یہ تنظیمیں کس حد تک مقامی سطح پر امریکہ کے مفادات کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں تاہم امریکہ نے اس فوجی پیش قدمی کے دوران مالی کے شمالی علاقوں میں فرانسیسی فوجیوں کی مدد کے لئے جدید برقی مواصلات کا جال بچھا دیا ہے اس کے علاوہ برطانیہ نے اپنے دو مال بردار C17طیارے فرانس کی فوج کو امدادی سامان کی ترسیل کے لئے فراہم کئے ہیں جب کہ بیلجم اور ڈنمارک نے بھی اسی قسم کی فضائی مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔
 
واضح رہے مالی کے شمال میں واقع قدامت پسند توراگ قبائل اور اسلامی ملیشیاء کے خلاف کارروائی کی آڑ میں مالی کی فوج کے کیپٹن ’’امادو سانوگو‘‘ نے 21مارچ2012کو صدر ’’امادو تومانی طورے‘ ‘ کی منتخب جمہوری حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے تمام اختیارات معطل کر دئے تھے اور 72گھنٹے میں عسکریت پسندوں کی شورش ختم کرنے کا دعوی کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ دوبارہ جمہوری حکومت ، ادارے اور آئین بحال کردیں گے تاہم وہ اس میں بری طرح ناکام رہے نتیجتا وہاں پر اب فرانسیسی اور دیگر افریقی اور یورپی افواج کی پیش قدمی شروع ہوچکی ہے واضح رہے یہ فوجی قبضہ عام انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل کیا گیا، معطل صدر امادوتومانی طورے نے29اپریل 2012کو مالی میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا ۔

دوسری جانب رواں برس گیارہ جنوری کو شروع کئے جانے والے اس فوجی حملے کے چھے دن بعد 17جنوری کوموتمر عالمی اسلامی (OIC)نے فرانسیسی فوج کی قیادت میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملوں کو روکنے پر زور دیا تاہم محض ایک دن بعد تنظیم کے سربراہ’’ اکمل الدین احسان اوغلو‘‘ نے فرانسیسی فوج پر اعتماد کرتے ہوئے مغربی افریقہ کے رکن ممالک کو اس بات کی اجازت دے دی کہ جمہوریہ مالی کے قومی اتحاد ، سالمیت اور یکجہتی کے کے لئے یہ حملے ناگزیر ہیں OICکی اس حمایت کے بعد فرانسیسی فوج کے سربراہ’’ ایڈورڈ گیلاڈ‘‘ نے زمینی حملوں کے ساتھ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی شروع کردئے ۔

یاد رہے توراگ قبائل ملک کے شمالی صحرا میں مختلف اسلام پسند گروپوں کے ساتھ مل کر اپنے جداگانہ تشخص اور ثقافت کی پہچان کے لئے 90کی دہائی کی سے جدوجہد کررہے اس حوالے سے توراگ قبائل نے ’’ ازاواد ‘‘ کے علاقے میں خود مختار ریاست بنانے کا اعلان بھی کیا تھا جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیاجس کے نتیجے میں توراگ قبائل نے اپنی آزادی کی منظم جدوجہد شروع کردی اس مسلح جدوجہد میں اسوقت2007میں مزید تیزی آگئی جب لیبیا میں خانہ جنگی کے اثرات کے نتیجے میں اس خطے میں ایک سازش کے تحت ہتھیاروں کا انبار لگادیا گیا اس دوران توراگ قبائل نے اکتوبر2011میں ’’ نیشنل موومنٹ فار لبریشن آف ازاواد‘‘(NMLA) بنانے کا اعلان کردیا اور ایک سال کی چھاپہ مار کاروائیوں اور مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد توراگ قبائل کے عسکریت پسندوں نے شمال میں ’’ازاواد‘‘ (Azawad)علاقے کو آزاد مملکت قرار دیتے ہوئے خود کو جمہوریہ مالی سے علیحدہ کردیا یہ اعلان جو چھے اپریل2012کو کیا گیا NMLAکے ترجمان موسی اطہر نے کیا اس اعلان میں انہوں نے’’ کڈال ، گائیو اور ٹمبکٹوشہر تک اپنے قبضے کا دعوی کیا اعلامیہ کے بعد تنظیم کے سیکرٹری جنرل ’’بلال اجشرف‘‘ کو ’’ازاواد‘‘ کی قومی حکومت کی تشکیل سے پہلے تک ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ تفویض دیا گیا فرانسیسی زبان میں تحریر کئے گئے آزادی کے اس اعلامیہ پر تنظیم کے سیکرٹری جنرل بلال اجشرف نے گائیو شہر میں دستخط کئے تھے ۔

جمہوریہ مالی کے شمالی خطے میں ابھرنے والے اس تمام صورتحال میں NMLAکو سلفی عقائد کی جماعت ’’ انصاردین‘‘ اور Movement for Oneness and Jihad in West Africa ’’ جماعت جہاد و توحید مغربی افریقہ‘‘(MOJWA)کی حمایت حاصل تھی لیکن سیکولر نظریات کے NMLAکے قائدین کی شدت پسند نظریات کی اسلامی تنظیموں سے نہ نبھ سکی تاہم اس کے باوجود 26مئی 2012کو ’’ جماعت انصاردین‘‘ اور ’’ MOJWAتنظیم ‘‘کی سرکردگی میں ایک مرتبہ پھر NMLAنے اپنی پیش قدمی ملک کے جنوب میں مرکزی علاقوں تک پھیلا نے کا عندیہ دیا تاہم اختلافات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑ ھنے لگے اور 26جون2012کو ’’گائیو‘‘ کے تاریخی شہر میںیہ نظریاتی اختلاف ایک جنگ کی صورت میں سامنے آیااس جنگ میں اسلام پسندوں نے سیکولر نظریات کی تنظیم NMLAکو شمالی علاقوں سے بے دخل کر کے اپنا جھنڈا لہرادیاد لچسپ امر یہ ہے کہ 11جنوری2013کو چھے ماہ بعد جب فرانسیسی فوج نے اسلام پسند گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کیا توNMLAنے فرانسیسی فوج اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اس اعلان کے فورا بعد ہی مغربی اقوام اور جمہوریہ مالی کی سیکولر حکومت نے ماضی کی دہشت گرد تنظیم NMLAکو فورا پسندیدہ تنظیم قرار دے دیا۔

شمالی خطے میں جب ایک ایسی آزاد مملکت جو اسلام کے نفاذ کے لئے تشکیل دی گئی تو تمام استعماری قوتیں ہمیشہ کی طرح اس تحریک کو ختم کرنے کے لئے اس کے خلاف کمربستہ ہوگئیں اور جیسے کہ اوپر زکر آچکا ہے کہ 12اکتوبر2012کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مالی کے شمالی علاقے میں واقع توراگ قبائل کی خودمختاری کی جدوجہد کو بزور طاقت ختم کرنے کے لئے فوجی کشی کی اجازت دے دی فرانسیسی فوج کی جانب سے کئے جانے والے اس آپریشن کا نام افریقہ کی ایک جنگلی بلی’’ سرول‘‘ کے نام پر ’’ مشن سرول‘‘(Mission Servel)رکھا گیا ہے چوں کہ فوج کشی کے لئے جواز ڈھونڈنا ضروری تھا چناں چہ توراگ قبائل کے عسکریت پسندوں ، MOJWAتنظیم کے جنگ جوؤں اور دیگر اسلامی گروپوں کے القاعدہ سے تعلق کا شوشہ چھوڑا گیا اور مغربی زرائع ابلاغ نے شور مچانا شروع کردیا کہ جمہوریہ مالی کے شمالی علاقے القاعدہ کے جنگجوؤں کے نئے مرکز بنتے جارہے ہیں لہذا یہاں فوج کشی نہایت ضروری ہے اور چوں کہ مالی کی فو ج القائدہ کے جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی لہذا ایسا صرف اور صرف بیرونی فوجی امداد ہی سے ممکن ہوسکتا ہے جس کا عملی اظہاررواں برس11جنوری کو فرانسیسی فضائی اور زمینی حملوں کی شکل میں شروع ہوچکا ہے حملوں کے دوران فرانسیسی فضائی نے ابتدائی طور پر گن شپ ہیلی کاپٹر ’’گیزیلی‘‘(Gazelle)سے شمال میں’’ موپتی ریجن‘‘ میں عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ ’’ سیورے‘‘(Sevare) اور ’’ کونا‘‘(Konna) پر حملے کئے اس کے علاوہ فرانسیسی فوج کو ابتدائی طور پر دو میراجF1 CRطیارے، چھے میراج2000Dطیارے، تین فضا میں رہتے ہوئے جنگی طیاروں میں تیل کی ری فیولنگ کرنے والے بوئنگ KC-135 Stratotanker طیارے اور مال برداری کے لئے Transall C-160 ملٹری ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ اور ہرکولیس C130طیاروں کے علاوہ Eurocopterٹائیگر ہیلی کاپٹرکی سہولیات بھی حاصل ہیں ان طیاروں کو مالی کے پڑوس میں واقع چاڈ کے دارالخلافے’’ نجامینا‘‘ میں قائم فرانسیسی ائیر بیس میں رکھا گیا ہے جب کے 13جنوری 2013کو گائیو شہر پر حملے کے لئے فرانس کے 1/7اسکورڈن میں شامل Rafaleجیٹ طیارے استعمال کئے گئے ان طیاروں نے حملے کے لئے فرانس کے شمال مغرب میں واقعSaint-Dizier 150 Robinson ائیر بیس سے اڑان بھری تھی اسی طرح 16جنوری کو فرانسیسی فوج نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پرڈورن طیاروں سے بھی حملہ کیا ہے اس کے علاوہ زمینی فوج کے لئے پندرہ رجمنٹ کے یونٹس تعینات کئے گئے ہیں جب کہ چار اسپیشل رجمنٹ فورس بھی علاقے میں موجود ہیں فرانسیسی بحریہ کی جانب سے سمندر پر گشت کر کے دشمن کی نقل وحمل اور زیر آب آبدوزوں کی نشان دہی کرنے والا Breguetائیر کرافٹ سینگال کے شہر ڈکار میں موجود ہے جب کے ہیلی کاپٹربردار گن شپ بحری جہازDixmude آئیوری کوسٹ کے ساحلی شہر’’ آبیدجان‘‘ میں آمادہ جنگ ہے ان انتہائی مہلک ہتھیاروں کے علاوہ فرانسیسی اور مالی افواج کو جدیدزمینی ہتھیار اور بکتربند گاڑیاں کی سہولیات بھی حاصل ہیں ۔

سونے اور یورینیئم کے پوشیدہ زخائر والی یہ سرزمین IMFکے زیر بار بھی ہے مالی امداد دینے کے نام پر قرض کے چنگل میں جکڑنے والے امدادی پروگراموں نے مالی کو دنیا کا غریب ترین ملک بنادیا ہے اور اب انقلابیوں کو باغیوں کا روپ دے کر IMFکا دوسرا روپ یعنی مغربی افواج نے اپنے قدم جمانا شروع کردئے ہیں جس کے لئے مغربی ممالک نے حسب دستورمالی کی فوج کو اپنا دست راست بنایا ہے دل چسپ بات یہ ہے کہ فوج کے قبضے اور پیش قدمی کے بعدمغربی افریقہ کے بیشتر ہمسائیہ ممالک نے مالی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کردیں ہیں اور فرانسیسی بلاک نے مالی کے اوپر اقتصادی پابندیوں کا بھی شوشہ چھوڑ دیا ہے آپریش سرول کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف اب تک مالی کی فوج کا ساتھ فرانس کے علاوہ بلجیم ، کینیڈا، چاڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، اسپین ، برطانیہ اور امریکہ نے دیا ہے ان تمام ممالک کی جانب سے ابتدائی طور پر مختلف صلاحیتوں کے آٹھ جدید جنگی طیارے بھی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں جب کے ان طیاروں کو حملے کرنے کے لئے الجزائر نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے دیکھنا یہ ہے کہ مالی کے اسلام پسند انقلابیوں کو آزاد سرزمین نصیب ہوتی ہے یا نہیںیا پھر ایک مرتبہ اس خطے پر فرانسیسی استعمار اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

مالی ۔ ایک نظر
براعظم افریقہ کے مغربی علاقے میں واقع جمہوریہ مالی رقبے کے لحاظ سے مغربی افریقہ کا سب سے بڑا ، براعظم افریقہ کا ساتواں اور عالمی سطح پر چوبیس واں بڑا ملک ہے ایک کروڑ چوبیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ملک کا رقبہ1240192مربع کلومیٹر ہے جس کے وسطی اور جنوب مشرقی کناروں پر دریائے نائیجرکی لہریں رواں دواں رہتی ہیں مالی دنیا کے ان قدیم خطوں یا ملکوں میں سے ایک ہے جس کی سرحدیں سمندر کی سرگوشیاں سننے سے محروم ہیں مالی کی سرحدیں چاروں طرف سے سات دیگر ممالک سے ملتی ہیں ان ملکوں میں شمال میں الجزائر، مشرق میں نا ئیجر، جنوب میں برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ، جنوب مغرب میں گنی اور مغرب میں سینگال اور موریطانیہ واقع ہیں موجودہ جمہوریہ مالی میندن اقوام کی’’ سلطنت مالی‘‘ کا تسلسل ہے جس میں سلطنت گھانا اور سونغائی سلطنت شامل تھیں ان تینوں عظیم الشان سلطنتوں کا دورانیہ 1235عیسوی سے 1645عیسوی پر محیط ہے سلطنت مالی کا زوال خطے میں1591میں مراکشیوں کی آمد سے شروع ہوا تھا اس دوران’’ ٹمبکٹو ‘‘اور’’جنہ ‘‘شہر اہم تجارتی مراکز تھے جہاں اسلامی ثقافت کے رنگ بھی چہار سو بکھرے ہوئے تھے ان رنگوں میں ٹمبکٹو شہر میں چودھویں صدی عیسوی سے قائم قدیم ترین جامعہ’’ سان کورے‘‘ اور جنہ شہر میں تیرہویں صدی سے تعلق رکھنے والی’’ عظیم مسجد‘‘ شامل ہے عالمی ورثہ قرار دی جانے والی یہ مسجدمکمل طور پر چکنی مٹی سے بنائی گئی ہے جو موجودہ شکل میں 1907میں مکمل ہوئی لفظ مالی افریقہ میں بولی جانے والی ایک علاقائی بولی’’ بمبارا‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی دریائی گھوڑا یا گینڈے کے ہیں۔

عظیم صحرا’’ صحاا‘‘ کے گرم ریتیلے جھکڑ سال بھر چلتے ر ہنے کے باعث مالی کا موسم خشک اور گرم آب و ہوا پر مشتمل ہے ملک کا 65فیصد رقبہ صحرائی یا نیم صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے صرف ملک کے جنوب میں بہنے والے دریائے نائیجر کے اطراف میں کپاس کی کاشت کے علاقے ہیں ملک کی 80فیصد آبادی فارمنگ یا ماہی گیر ی سے وابستہ ہے اور آبادی کا بیشتر حصہ جنوبی علاقے میں رہتا ہے مالی میں روائتی طریقہ تعلیم رائج ہے جس کے تحت تعلیم یافتہ افراد کی شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے ملک میں رائج موجودہ انتظامی ڈھانچے کے مطابق ملک آٹھ علاقوں اور ایک دارلحکومتی ضلع میں منقسم ہے جنہیں مزید49سرکلوں یا ٹاؤنوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ملک کا دارلحکومت سب سے زیادہ آبادی والا شہر’’ بماکو‘‘ ہے جو دریائے نائیجر کے کنارے واقع ہے مالی میں پانچ قابل ذکر لسانی گروہ بستے ہیں جن میں میندین 50فیصد، فولا17فیصد،وولٹیک12فیصد، توراگ10فیصد، سونغائی6فیصد اور متفرق زبانیں بولنے والے پانچ فیصد ہیں اگرچہ ملک کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے تاہم روزمرہ کے کاموں میں علاقائی زبانوں کا چلن عام ہے قابل افسوس پہلو یہ ہے کہقدرتی وسائل سے مالا مال ملک کی نصف سے زائدآبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے یومیہ فی کس 1.25ڈالر آمدنی والے ملک مالی کا شمار غربت کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں دنیا کے سہولویں غریب ترین ملک میں کیا جاتاہے۔

سیاسی احوال
سلطنت مالی اور دیگر دو سلطنتوں کے زوال کے بعد1880میں یہاں پر فرانسیسیوں نے غلبہ حاصل کرنا شروع کردیاابتداء میں انہوں نے اس خطے میں اپنی اولین فرا نسیسی کالونی’’ بالائی سینیگال‘‘ کے علاقے میں تشکیل دی جس کا نام بعد ازاں’’ فرانسیسی سوڈان‘‘ رکھ دیا گیا یہ فرانسیسی کالونی1890سے 1899تک قائم رہی جس کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مختلف حصوں بخروں اور صوبوں میں بٹ گئی جس میں فرانسیسی گنی، آئیوری کوسٹ،دوہامبے، نائیجراورسینیگال وغیرہ شامل تھے یہ صورت حال4اکتوبر1958تک فرانسیسی آئینی ریفرنڈم کے انعقاد تک قائم رہی ریفرنڈم کے بعدفرانسیسی سوڈان اور سینگال کو ملا کر ’’مالی فیڈریشن ‘‘بنادی گئی جس کا سرپرست فرانس تھا20اگست1960کو سینیگال اس فیڈریشن سے علیحدہہو گیا اور فرانسیسی سوڈان نے بھی صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے فرانسیسی استعمار سے چھٹکارا پاتے ہوئے22ستمبر1960کو ’’جمہوریہ مالی‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا تاہم آٹھ سال بعد ہی 1968میں فوجی آمر’’ موسی طورے‘‘( Moussa Traore) نے منتخب جمہوری صدر ’’ موبیدو کیتا‘‘ (Modibo Ke239ta)کو قید کرکے آمریت کے شکنجے میں ملک کو جکڑ دیایہ سلسلہ22 مارچ1991 تک جاری رہا اس دوران موسی طورے نے جنوری 1979میں الیکشن کروا ئے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن میں صرف ایک پارٹی نے حصہ لیا جس کے صدر ڈکٹیٹر موسی طورے خود تھے اور وہی واحد امیدوار بھی تھے ان کی پارٹی ڈیموکریٹک یونین آف مالین پیپلز(UDPM) نے نناوے فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور ڈکٹیٹر موسی طورے جمہوری صدر بن گئے1985میں انہوں نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے خود کو تاحیات صدر بھی منظور کروالیا بل کہ ملک میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے لئے سیاسی سر گرمیا ں شجر ممنوعہ بنادگی گئیں تاہم اس دوران ملک میں جمہوری قوتیں زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں بل خصوص طلبہ اور محنت کش تنظیموں پر پابندی ہونے کے باوجود ان کی قیادت زیر زمین سیاسی محاذ گرم کرنے میں مصروف رہی بالاآخر22مارچ1991کو طلبہ ، وکلا اور محنت کش تنظیموں کے کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں دارالحکومت بماکو کی جانب مارچ شروع کیاڈکٹیٹر موسی طورے کی سیکورٹی فورسز نے مارچ روکنے کے لئے اسلحہ کا استعمال کیا جس کے دوران تین سو سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے جن کی قربانیاں ضائع نہیں گئیں اور موسی طورے کو عوامی غیض و غضب کے سامنے اقتدار چھوڑنا پڑااور فوجی کرنل ’’امادو تومانی طورے‘‘ کو ایک سال کے لئے عبوری حکومت کا سربراہ بنادیا گیا جس نے شفافیت کے ساتھ انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں 6جون1992کو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے استاد اور مورخ ’’ ڈاکٹر الفا عمرکونرے‘‘ کو مالی کا ’’پہلا ‘‘منتخب صدر چنا گیا ڈاکٹر الفا عمر کونرے بعد ازاں1997کے انتخابات میں بھی دوبارہ2002تک پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے یاد رہے انہوں نے ان دونوں صدارتی انتخابات میں ’ ’الائنس فار ڈیموکریسی ان مالی‘‘(ADEMA)پارٹی کی جانب سے حصہ لیا تھا۔

2002کے صدارتی انتخابات میں فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد آزادنہ حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والے سابق جنرل’’امادوتومانی طورے ‘‘نے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوگئے بعد ازاں دوسری مدت 2007-12کے ا نتخابات میں بھی وہ مالی کے صدر منتخب ہوئے یاد رہے امادو تومانی طورے وہی صدر ہیں جنہوں نے بطورکرنل 1992میں عبوری دور حکومت میں عبوری صدر کی حیثیت سے شفاف انتخابات کرائے تھے تاہم 22مارچ 2012کو محض صدارتی الیکشن سے ایک ماہ قبل ملک کے شمالی علاقوں میں شورش کی بیخ کنی میں مصروف فوجیوں کے ایک گروہ نے ’’کیپٹن امادو سانو گو‘‘ کی سرکردگی میں’’ صدر امادو تومانی طورے‘‘ اور وزیر اعظم ’’احمد محمد ہامانی‘‘ کو معطل کرکے عنان حکومت سنبھال لی جس کے بعد انہوں نے شمالی علاقوں میں حالات کو قابو میں کرنے کے لئے ’’ نیشنل کمیٹی برائے ری اسٹوریشن آف ڈیموکریسی اینڈ اسٹیٹ(CNRDR) ‘‘ کی تشکیل کا اعلان کیا کمیٹی کے بنتے ہی 8اپریل2012 کو جمہوری صدر امادو تومانی طورے نے استعفی دے دیا اور 19اپریل کو ملک چھوڑ کر پڑوسی ملک سینیگال میں جلاوطن ہوگئے جب کہ کیپٹن امادو سانو گو نے بھیCNRDRکے تحت اپنے اختیارات چھوڑ دئے اور ایک معاہدے کے تحت ملک کی قومی اسمبلی کے اسپیکرDioncounda Traore کو عبوری صدر بنادیا گیا جو اسوقت بھی بحیثیت صدر خدماتنجام دے رہے ہیں جب کے عبوری وزیر اعظمDjango Sissokoہیںیہ دونوں حضرات ملک کے شمالی علاقوں میں حالات کی درستگی تک مالی کی فوج سے ایک معاہدے کے تحت عبوری حکومت میں خدمات انجام درہے ہیں ۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109806 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More