خالد پرویزکا خطرناک وعدہ

سچ پوچھیں تو ہمارے ہاں 5 فروری کے بعد کشمیر کا نام لینے والا دیوانہ یاپھر مشکوک سمجھا جاتا ہے۔میں جانتا ہوں 5 فروری گزر چکا ہے ۔ اب کشمیر کا ذکر ایک سال بعد ہو گا۔ایک سال بعد پھر کشمیر کے نام پراخبارات کے لیے بیانات اور فوٹو سیشن کیے جائیں گے۔ اب 2013ءمیں کشمیر کی بات کرنے والے کو ”دہشت گرد “ اور ”شدت پسند “سمجھا جائے گا ۔ اس کے باوجود میں ابھی تک ایوان اقبال کی اس تصویری نمائش سے باہر نہیں آسکا جہاں تمام مکتبہ فکر کے لوگ کشمیرسے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔اس نمائش میں کیمرہ سے کھینچی گئی تصاویر رکھی گئیں۔ یہ تصاویر مظلوم کشمیر کی مکمل تاریخ اور کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم کی داستان ہیں۔ لہو لہو کشمیر کی یہ داستان اتنی سادہ نہیں کہ اسے ایک دن میں بھول سکیں۔ مجھے امید ہے پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ اور یونی فائیڈ میڈیا کلب یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔

میں دو دن ایوان اقبال کے ہال میں آویزاں تصاویر دیکھتا رہا۔ اس نمائش کے دوران یوں لگ رہا تھاجیسے ہر سیاسی جماعت کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا اقبال سے لے کراپوزیشن جماعتوں تک، سب کشمیر پر قائد اعظم کے موقف کو تسلیم کر رہے تھے۔ کوئی بھی اس موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ میں کشمیر کے حوالے سے بریفنگ دے رہا تھا جب ایم پی ا ے آمنہ الفت نے تصاویر دیکھتے دیکھتے اچانک مڑ کر کہا :کشمیر ڈے تو پوراسال ہونا چاہیے ہم ایک دن بعد ہی کیوں بھول جاتے ہیں؟ میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہمارے ایوانوں میں جانے کتنے لوگ اس ایک دن کو بھی برداشت نہیں کر پاتے لیکن اس روزکشمیر میں بہتے لہوکی تصاویرنے مجھ خاموش کرا دیا ۔میرا دل کر رہا تھا اس روز صرف کشمیر کی بات ہو۔ میں کوئی اور بحث نہیں چھیڑنا چاہتا تھا۔ ہال میں جانے سے قبل جنرل (ر)ضیا الدین بٹ اور امیر العظیم سے بات ہو رہی تھی۔ امیر العظیم نے فخریہ انداز میں کہا: جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے کشمیر پر دو ٹوک بات کی اور کبھی بھی اپنا موقف نہیں بدلا۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ حکومت میں آنے سے پہلے اکثر جماعتیں کشمیر پر اپنا موقف نہیں بدلتیں البتہ حکومت ملنے کے بعد ہم اپنی شہ رگ پر چھری پھیر دیتے ہیں لیکن میری کوشش تھی” کشمیر ڈے“ پر کوئی اختلافی بات نہ ہو ۔ہم پہلے ہی ذاتی اختلاف اور مفادات کی بنا پر کشمیر کو مزید سرخ کرتے رہے ہیں۔ اس تصویری نمائش کے دوران کئی سیاست دانوں نے کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیا ۔ سب جماعتیں کشمیر پر ڈٹی ہوئی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگرکوئی بھی جماعت کشمیر کاسودا کرنے کو تیار نہیں تو پھر عالمی دنیا کے سامنے کھل کر یہ موقف واضح کیوں نہیں ہوتا؟کیا کشمیر بس ایک دن کے لیے پاکستان کی شہ رگ بنتا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر 5 فروری کے بعد ہم وہ ہاتھ کیوں چوم لیتے ہیں جو ہماری اس شہہ رگ پر چھری چلارہے ہیں؟

سیاست سے میرا رومانس جیسے جیسے پرانا ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے مجھے اس کی رمزوں اور ناز نخروں کا علم ہو رہا ہے۔ اب میں اتنی جلدی سیاست دانوں کے بیانات پر اعتبار نہیں کرتا۔ جمہوریت اور سیاست کی اس محبت میں مجھ جیسے عام شہری کئی بار دھوکا کھاچکے ہیں ۔ مجھے معلوم ہے کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہنے والوں میں سے کتنے لوگ ذاتی مفادات کے لیے اس شہہ رگ پر چھری پھیر دینے کو تیار ہیں ۔ دراصل مجھے حیرت خالد پرویز پر ہوئی۔ وہ آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر ہیں ۔ کچھ عناصر کافی عرصہ سے پاک بھارت دوستی کے نام پر تاجروں کو آگے کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کشمیر کو ایک طرف رکھ کر تجارت کا سلسلہ بڑھایا جائے۔ اس روزخالد پرویز کشمیر پر ہونے والے ظلم پر مبنی تصاویر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہاوہ ایسی کسی تجارت کے حق میں نہیں جو کشمیر کا سودا کر کے حاصل کی جائے۔انہوں نے تاجر برادری کی جانب سے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ اور ان کے رفقاءکشمیر پر ہونے والے ظلم کے خاتمے سے قبل بھارت کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں کریں گے۔ میں نے سنا تھا کاروباری شخص سب سے پہلے اپنی جیب دیکھتا ہے۔ خالد پرویز نے پاک بھارت تجارت کو کشمیریوں کے حقوق سے مشروط کرکے اپنی ایک جیب میں سوراخ کر لیا ہے ۔ اس دن وہ تاجر کی بجائے صرف پاکستانی لگ رہے تھے۔ان کی گفتگو کے دوران فرخ شہباز نے میرے کان میں کہا :ابھی یہ بات ایک پاکستانی کر رہا ہے۔ ہال سے باہر جا کر ایک تاجر کو احساس ہو گا وہ کیا کہہ بیٹھا ۔ میں نے اس کی جانب دیکھا اور کہا: میری دعا ہے ہال کے باہر بھی ہمیں سچاپاکستانی تاجر ہی ملے۔

کشمیر ڈے پر لگائی گئیں تصاویراپنا کام دکھا چکی تھیں۔ حکومتی سطح پر لاکھ معاہدے کر لیے جائیں لیکن اگر تاجر رضامند نہ ہوں تو تجارت نہیں ہوتی۔ میں اس نمائش میں جس خالد پرویز سے ملا مجھے اس کی صداقت پر یقین ہے۔ مجھے امید ہے کہ تاجر برادری اپنے موقف پر قائم رہے گی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروانے اور کشمیریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے تاجر برادری کا دباﺅ معمولی نہیں ۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ اب جنگیں اسٹاک ایکسچینج میں لڑی جاتی ہیں۔آج سے تقریبا 27 سال قبل فرانسیسی تاجروں نے محض مکھن پر پابندی لگانے کی دھمکی دے کر نیوزی لینڈ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ یہی کام خالد پرویز بھی کر سکتے ہیں ۔ ان کا دائرہ کار مکھن کی تجارت سے زیادہ وسیع ہے۔ تاجر برادری کی جانب سے ان کے لیڈر کی بات اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

میں سیاسی بیانات پر جلد اعتبار نہیں کرتا لیکن کسی تاجر پر پہلی بار اعتماد کر رہا ہوں ۔ ایک پاکستانی شہری ایک پاکستانی تاجر کی بات پر کب تک اعتبار کرے گا ،اس کا فیصلہ خالد پرویز کو کرنا ہے۔ یہ اعتماد ٹوٹا تو شاید خالد پرویز کو کوئی فرق نہ پڑے لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے مجھے بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ میں ان کے اس وعدے کے وقت موجود تھا یعنی میں عینی شاہد ہوں ۔ روز آخرت جب کشمیر کا مقدمہ چلے گا تو گواہ کی حیثیت سے پیش ہوں گا۔اس روز بتاﺅں گا کہ تاجروں کے لیڈر نے کشمیر یوںکے نام پر جو وعدہ کیا ،اسے کس حد تک نبھایا؟ میری گواہی خالدپرویز کو ناگوار گزرے گی یا نہیں، اس کا علم بہت جلد ہو جائے گا۔ اس روزہر گواہی سچ پر مبنی ہو گی۔ مجھے امید ہے خالد پرویز اس گواہی کو اپنے لیے باعث فخر بنائیں گے۔

نوٹ: میں نے گزشتہ کالم میں قومی ہیرو ایم ایم عالم کی بیماری کا ذکر کیا تھااور کہا تھا کہ جو ادارہ قومی ہیرو کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی عیادت کرے گا میں انہی صفحات پر اس کا شکریہ ادا کروں گا۔ ایک فلاحی ادارے ہم قدم پاکستان نے رابطہ کیا ۔وہ ایم ایم عالم کی خدمت میں ایک لاکھ کارڈزپیش کرنے کے لیے کمپین چلارہے ہیں۔آپ بھی ایم ایم عالم کے لیے اپنے احساسات ایک کارڈ پر لکھ کر بھیج سکتے ہیں۔ یہ کارڈ پی او بکس 4002 ملتان روڈ لاہور، کے پتے پر اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ میں ہم قدم پاکستان اور ایم ایم عالم کو خراج تحسین پیش کرنے والے تمام پاکستانیوں کا شکر گزار ہوں۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.