پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام
در حقیقت اقلیت کو قومی دولت اپنے ” دان “ میں بٹورلینے اور اقلیت کو
اکثریت پر جبر کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ اکثریت پر اقلیت کی بالادستی کے
جبر اور امیر کے ہاتھوں غریب و طاقتور کے ہاتھوں کمزور کے استحصال کو
قانونی جواز فراہم کررہا ہے اور ریاست استحصالیوں کیلئے ہتھیار کا کردار
ادہی ہے ۔
انتخابات اور ان میں جماعتوں کی یہ ادل بدل ریاستی قیادت کی مسلسل تجدید
کرکے استحصالیوں کی قوت کو مستحکم کررہی ہے بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ
ریاست رائے دہندگان کی کیفیات و مزاج کا تاثر قبول کررہی ہے لیکن در حقیقت
پالیسیوں میں خفیف سی تبدیلیاںضرور رونما ہوتی ہیںمگر نظام کی بدولت ریاست
کی ماہیت استحصال پر ہی مبنی ہے اور نظام تبدیل ہونے تک استحصال پر ہی مبنی
رہے گی ۔
دورِ قدیم میں ”برادری سسٹم “ کے تحت لوگ خود اپنی حکومت چلاتے تھے یعنی
تمام بنیادی معاملات پر برادری کے تمام اراکین فیصلے میں حصہ لیتے تھے اور
تمام نزاعی معاملات یا تو مصالحت کے ذریعے حل ہوجاتے تھے یا پھر ناقابل
قبول اراکین کو روایت کے مطابق برادری سے نکال دیا جاتا تھا ۔ برادریاں مل
کر قبیلے تشکیل دیا کرتی تھیں اور زمین قبیلے کی ملکیت کہلاتی تھی جس پر
مختلف کاموں کی انجام دہی کے ذریعے لوگ اپنا پیٹ پالا کرتے تھے جبکہ زمین
کی حفاظت تمام اراکین قبیلہ کی یکساں ذمہ داری میں شامل تھی اس طرح
برادریاں اور قبیلے دونوں اقتدار کے حامل تھے کیونکہ برادری کے اراکین
اجلاس عام میں اپنے سرداروں ‘ بزرگوں اور جنگجوسرداروں کا انتخاب کرکے
ریاستی امور چلانے کے تینوں شعبوں انصاف ‘ انتظام اور حفاظت کے فرائض ان کی
جانب منتقل کردیا کرتے تھے اور چونکہ یہ سردار ‘ بزرگ اور جنگجو،کردار کے
اتنے پختہ ہوا کرتے تھے کہ انہیں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے جبر کے
خصوصی کل پرزوں کی ضرورت نہ تھی بلکہ ان کا ذاتی احترام و وقار اور روایت
کی قوت ہی ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے کافی تھی مگر پھر تقسیم محنت کے
باعث قبائل او ر برادریوں کے رشتے بتدریج تبدیلی کے عمل سے گزرے زائد
پیداوار و دولت نے احترام وتقدس کے رشتوں کا خاتمہ کرکے ہوس و استحصال کی
روایت کو جنم دیا اور وسائل پر قبضے اور پیداوار کی غیر منصفانہ تقسیم نے
عدم مساوات کے معاشرے کی بنیاد ڈالی جس کی وجہ سے سرداروں ‘ بزرگوں اور
جنگجوسرداروں نے خود کو امیر سے امیر تر بنانے کےلئے معاشرتی جبر کے ادارے
بنانے شروع کردیئے جس کے نتیجے میں برادریوں اور قبیلوں کے درمیان ٹکراؤ کی
فضا نے” اُجرتی محافظوں“ کو جنم دیا اور فوج و پولیس کے ادارے وجود میں آئے
اس طرح برادریوں و قبیلوں میں ایک ایسی اقلیت کی تشکیل شروع ہوئی جس کے پاس
دولت ذخیرہ تھی ‘ کل تک جو کل پرزے خود اپنی حکومت آپ چلانے کا ذریعہ تھے
اب تبدیل ہوئے اور اقلیت کے ہاتھوں اکثریت پر جبر کا ذریعہ بننے لگے اور
یہی جبر ریاستوں کی تشکیل کا سبب بنا ۔ ہر دولتمند و طاقتور نے دیگر
دولتمندوں و طاقتوروں کے اشتراک سے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے حلقہ
بندیاں کرلیں اور ان حلقہ بندیوں میں جبر کے اداروں پولیس کے ذریعے عوام کا
استحصال اور فوج کے ذریعے اپنے مفاد کی زمین کے تحفظ کا کام لینے لگے
نتیجتاً دنیا کی کل اراضی مختلف ریاستوں میں بٹ گئی اور طاقتور و دولتمند
ان ریاستوں کے مالک یعنی شہنشاہ ‘ وزرا واُمراء(خواص) قرار پائے اور کمزور
و غریب کو رعایا کا درجہ ملا ۔
یوں ایک ایسے شہنشاہی نظام کی بنیاد پڑی جس نے اقلیت کو اکثریت پر جبر کا
راستہ دکھایا اور شہنشاہ مالک و مختار جبکہ رعایا استحصال کا شکار بنے
کیونکہ بادشاہ اور عوام کے درمیان موجود مصاحبین کے طبقہ (جسے انتظامیہ کہا
جائے تو بیجا نہ ہوگا )نے ہمیشہ شہنشاہ اور عوام کے درمیان فاصلوں کو جنم
دیئے رکھا اور اپنے مفادات و مراعات کے حصول کےلئے بادشاہ کو عوام کے
استحصال کے نئے نئے طریقے سکھاتے اور ان پر عمل کراتے رہے پھر جب رعایا نے
اپنے حق کے حصول کےلئے متحد ہوکر آواز اٹھائی اور خاک و خون میں مل کر ایک
عظیم جدوجہدکے ذریعے انقلا ب کی بنیاد رکھی تو دنیا سے دورِ شہنشاہیت کا
خاتمہ ہوا اورریاستوں کا نظام چلانے کےلئے پارلیمان کا وجود عمل میں آیا
مگر افسوس کہ اس پارلیمانی نظام میں کل تک رعایا کہلانے والوںکو صرف اتنا
ہی فائدہ ہو اکہ اب انہیں رعایا کی جگہ عوام کہا جانے لگا مگر استحصال کی
روایت برقرار رہی کیونکہ پارلیمان میں بھی وہی لوگ داخل ہوئے جو کل تک
بادشاہ کے مصاحبین میں شامل تھے لہٰذا پارلیمانی نظام سے بھی عوام کو خاطر
خواہ فوائد حاصل نہیں ہوسکے کیونکہ جمہوری یا پارلیمانی نظام میں اقتدار
اعلیٰ پر منتخب لوگ تو ضرور فائزہوتے ہیںمگر ان کا تعلق عوام سے نہیں
ہوتاالبتہ وہ عوام کو سہانے خواب دکھاکر اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے اس منصب
تک پہنچتے ہیں جبکہ در حقیقت یہ افراد اسی استحصالی ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں
جس کاکام عوام پر جبر کرنا ہوتا ہے ‘ ان میں صدر ‘ وزیر اعظم اراکین
پارلیمان وغیرہ شامل ہیں ‘ علاوہ ازیں لوگوں کی خاصی تعداد ریاست کی ملازم
ہوتی ہے ان میں کچھ انتظامی شعبے میں ملازم ہوتے ہیں کچھ فوج اور پولیس میں
جبکہ تیسرا گروہ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے یہ تمام
گروہ بحیثیت مجموعی ریاست کا سیاسی نظام تشکیل دیتے ہیں ۔جمہوری ریاست یوں
تو بادی النظر میں پورے معاشرے کے مجموعی مفادات کی نگہبانی وترجمانی کرتی
دکھائی دیتی ہے مگر جمہوری نظام حقیقت میں اقلیت کو قومی دولت کو اپنے ”
دان “ میں بٹورلینے اور اقلیت کو اکثریت پر جبر کے مواقع فراہم کرتا ہے
اوردورِ جدید میں جمہوری ریاست ایک ایسے ہتھیار کا کردار ادا کرتی ہے جس کے
ذریعے اقلیت اپنی بالا دستی قائم کرتی اور ریاست امیروں کے ہاتھوں غریبوں
کے استحصال کو قانونی جواز فراہم کرتی ہے ۔جمہوری ریاستوں میں عوام کو
دھوکا دینے کےلئے کثیرالجماعتی نظا م قائم کیا جاتا ہے تاکہ اس سراب کو
حقیقت کا روپ دیا جاسکے کہ جمہوری ریاست پوری قوم کے مفادات کی ترجمانی
کرتی ہے اور ایسی ریاستوں میں ہر پارٹی نہ صرف انتخابات میں اپنے نمائندے
نامزد کرتی ہے بلکہ اقتدار کے حصول کےلئے اپنے اراکین کو اعلیٰ حکومتی
عہدوں پر بھی فائز کرنے کےلئے ہر قسم کی جوڑ توڑ کا سہارا لیتی ہےں ۔
جماعتوں کی یہ ادل بدل ریاستی قیادت کی مسلسل تجدید کرکے استحصالیوں کی قوت
کو مستحکم کرتی ہے جبکہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست رائے دہندگان کی
کیفیات و مزاج کا تاثر قبول کررہی ہے لیکن در حقیقت پالیسیوں میں خفیف سی
تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور ریاست کی ماہیت استحصال پر ہی مبنی رہتی ہے ۔
بدقسمتی سے پاکستان بھی ایک ایسی ہی ریاست ہے جسے جمہوریت کے نام پر ایک
مخصوص طبقے کے حوالے کرکے عوام کا بدترین استحصال کیا گیا اور کیا جارہا ہے
حالانکہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بر صغیر کے مسلمانوں
کےلئے ایک ایسی علیحدہ اسلامی مملکت قائم کی جائے جہاں مسلمان اپنے مذہبی
عقائد کے ساتھ اپنی زندگی گزارسکیں اور اس سرزمین پر اسلام کے ذریں اصول
”اختیار من جانب اللہ بطور امانت “ کے تحت مساوات ‘ عدل اور انصاف کی
حکمرانی ہو تاکہ رسالت ماآب محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم اور
خلفائے راشدین کے ادوار کی طرح اہل ایمان اپنی زندگی کو پوری عافیت و سکون
سے گزارتے ہوئے دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوںمگر بد قسمتی سے قیام
پاکستان کے ساتھ ہی اس کے اختیار و اقتدار پر وہی لوگ قابض ہوگئے جو نسل در
نسل پہلے شہنشاہ کے مصاحبین کے روپ میں اور پھر انگریز سرکار کے وفادار
”جاگیردار “ کے روپ میں عوام کا بدترین استحصال کرنے کے عادی رہے یوں اس
نومولود ریاست میں اسلامی یا اشتراکی نظام کی بجائے ایک سازش کے تحت انگریز
سرکار کے وفاداروں کو عوام پر جبر کرنے کا اختیار دینے کےلئے ”جمہوری “ یا
پارلیمانی نظام رائج کیا گیاجس کی وجہ سے آج عوام بدترین استحصال سے دوچار
ہوکر دووقت کی روٹی ‘ دو گز کفن اور قبر کیلئے دوگز کی زمین کو بھی ترس رہے
ہیں جبکہ استحصالی عناصر زمین و جائیداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور ان کے
اثاثے آسمان سے باتیں کررہے ہیں آج عوام کے بچے تعلیم ‘ علاج اور روزگار سے
محروم ہیں اور ان استحصالیوں کے بچے بیرون ممالک عیاشیاں کررہے ہیں اور جب
عیاشیوں سے دل بھرجاتا ہے تو قوم پر حکمرانی کاخیال انہیں پاکستان لے آتا
ہے اور پھر وہ بھی اپنے اجداد کی طرح پارلیمانی نظام کا سہارا لے کر انتخاب
لڑتے اور ووٹوں کی خریدوفروخت ‘ بدمعاشوں کی فوج اور غنڈہ گردی کے ذریعے
اقتدار کے ایوان میں داخل ہوکر استحصال کی روایت کو مزید آگے بڑھاتے ہیں
جبکہ غریب کے بچے یا تو بھوک سے مرجاتے ہیں یا بیماری انہیں کھا جاتی اور
جو سخت جان اس سے بھی بچ جاتے وہ اچھی تعلیم اور مواقع نہ ہونے کے باعث
روزگار سے محرومی کے عذاب سے گزرتے ہیں اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوکر
معاشرے سے بغاوت پر اُترآتے ہیںاور جرائم کی جانب مائل ہوکر یا تو پولیس کی
گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں یا سیاست کی رسہ کشی میں کسی پارٹی میں شامل
ہوکر دوسری سیاسی جماعت کے سیاسی غنڈوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں
............” یہ ہے جمہوری نظام کا حسن اور عوا م کےلئے اس کا تحفہ “۔
آج پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا ”راگ “ الاپ کر محض
اپنے اقتدار کی ہوس کی تسکین چاہتی ہیں ان میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کو
عوام کے مسائل سے کوئی غرض ہے نہ ملک کی سلامتی سے کوئی سروکار اور نہ ہی
ان میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوام کے مسائل حل کرکے انہیں ریلیف
فراہم کرنے‘ وطن عزیز سے استحصالی نظام کے خاتمے اور عدل و انصاف و مساوات
پر مبنی معاشرے کے قیام کا کوئی واضع فارمولہ ہے اور نہ ہی کسی بھی سیاسی
جماعت کے پاس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کےلئے کوئی واضح حکمت عملی ہے یہ
تمام سیاسی جماعتیں عوام کو محض جھوٹے اور کھوکھلے نعروں سے بہلانے اور
سہانے خواب دکھاکر عوام کو منتشر کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کررہی ہیں
کیونکہ عوام کا انتشار ہی استحصالی نظام اور استحصالی قوتوں کے تحفظ کی
ضمانت ہے اور تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر اپنے استحصالی طبقے کو
تحفظ دینے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کررہی ہیں اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ
عوام جمہوریت کے سراب اور پارٹی بازی و شخصیت پرستی سے باہر نکل کر اس
سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں جس کے پاس عوام کے مسائل کے حل
اور استحصالی نظام کے خاتمے کے ساتھ وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے کا واضح
پروگرام و حکمت عملی موجود ہو کیونکہ غریبوں ‘ مزدروں ‘ مظلوموں کا اتحاد
سے ہی وہ انقلاب جنم لیتاہے جو استحصالیوں کے خاتمے اور خوشحالی کے اسباب
پیدا کرتا ہے ورنہ انتشار وہ ناگ ہے جو عوام کو لٹیرو ں ‘ چوروں ‘ رہزنوں
اور استحصالیوں کا غلام بنادیتا ہے ۔
دنیا بھر میں آج کی جدید ریاستیں ایک ایسے دور میں سرگرم عمل ہیں جب دنیا
میں دو نظام قائم ہیں ایک سرمایہ دارانہ نظام اور دوسرا اشتراکی نظام اور
دنیا بتدریج سرمایہ دارانہ داریت سے اشتراکیت کی جانب پیشرفت کررہی ہے ۔
پاکستان جیسی ریاستیں جو اشتراکیت کے وجود سے خائف اور سرمایہ داریت یا
جاگیر دارانہ نظا م کا شکار ہے ‘ ان ریاستوں میںشامل ہوتی ہیں جن میں دولت
کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث دو طبقات یا گروہ جنم لیتے ہیں جن میں ایک
طبقہ استحصالیوں یا ان افراد کا ہوتا ہے جو محنت کش کی محنت کو ہتھیا لیتا
ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو محنت کرتا ہے مگر ہمیشہ اپنے حق سے محروم
رہتا ہے ایسی ریاستوں میں استحصالی طبقے کے افراد اپنے مخصوص مفادات کےلئے
ہمیشہ ایک دوسرے کا اور اس نظام کا تحفظ کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ محنت کش
کی محنت کو ہتھیانے کا حق حاصل رکھتے ہیں اور محنت کش کو ہمیشہ مذہب ‘
صوبائیت ‘ لسانیت ‘ سیاسی جماعتوں اور گروہوں و طبقوں میں بانٹ کر رکھتے
ہیں تاکہ محنت کش کبھی متحدنہ ہونے پائیں اور اس نظام کی تبدیلی کےلئے
جدوجہد نہ کرسکیں جس کی وجہ سے ان کی محنت کو چند مخصوص گروہ ‘ افراد یا
خاندان ہتھیانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
ایسی ریاستوں میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور ملکیتی عدم مساوات کے
نتیجے میں طبقات کی نمو ہوتی ہے ۔ غریب و امیر ‘ آقا و مزدور وجود میں آتے
ہیںظاہر ہے ان دونوں طبقات کے مفادات یکساں نہیں بلکہ ایک دوسرے سے یکسر
مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے طاقتور طبقہ کمزور طبقات کا استحصال کرتا ہے
اور مختلف ادوارمیں اس استحصال کی تین مختلف اشکال رہی ہیں ۔ دورِ قدیم میں
انسان ہی نے اپنی دولت و طاقت کے بل پر اپنے ہی جیسے انسانوں کا استحصال
کرنے کےلئے انہیں غلام بنانے کی روایت کا آغاز کیا اور غلاموں سے بد ترین
مشقت اور ان کی محنت پر قبضے کی جو تاریخ رقم کی اس نے گزرتے ہوئے وقت
اورسماجی انقلاب کے بعد جاگیردارانہ نظام کی شکل اختیار کرلی اور جاگیردار
آقاو زمین کا مالک مطلق بن گیا اور اس پر اُگنے و بسنے والی ہر شے اس کی
ملکیت قرار پائی فی الحقیقت جاگیردارانہ نظام غلام دارانہ نظام ہی کی ایسی
تبدیل شدہ شکل ہے جس میں جاگیردار کی زمین پر بسنے والی مزارعوں ‘ کسانوں
اور دہقانوں کی حیثیت دورِ قدیم کے غلاموں ہی کی طرح ہے جس میں محنت مزارع
و کسان کی ہوتی ہے اور پھل جاگیردار کھاتا ہے یعنی محنت کش کی محنت کو ہڑپ
لینے کے استحصال کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ اس نے غلام دارانہ نظام سے
جاگیردارانہ نظام کا روپ اختیار کرلیا پھر بدلتے ہوئے سماجی رویوں اور تیز
رفتار ترقی نے بیشتر ممالک میں جاگیردارانہ نظام کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام
نے لے لی اور اس نظام کے تحت تمام ذرائع پیداوار ان لوگوں کے ہاتھوں میں
مرتکز ہوئے جو نجی ملکیت کے مالک ہیں اس نظام میں غلاموں اور مزارعوں کی
نسبت اُجرتی مزدور رسمی اعتبار سے تو آزاد ہوتا ہے تاہم وہ معاشی اعتبار سے
پوری طرح سے سرمایہ دار کا غلام ہے اور سرمایہ دار اس کی محنت کا قلےل سا
معاوضہ ادا کرنے کے بعد اس کی محنت سے حاصل ہونے والی ترقی و خوشحالی کو
خود اکیلا ہی ہڑپنے میں مصروف ہے اور مزدور و محنت کش کو صرف اتنا ہی دیا
جارہا ہے کہ وہ زندہ رہ سکے مگر اب دنیا بھر میں تبدیلیاں آرہی ہیں اور
محنت کش اپنی قوت و حق پہچاننے لگے ہیں اس لئے دنیا سرمایہ دارانہ نظام سے
اشتراکیت کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ آنے والے وقت میں اشتراکی یعنی ”فلاحی
نظام “ ہی ریاستوں کی ترقی و سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے
اور جو ریاستیں اشتراکیت سے اجتناب برت رہی ہیں ان میں جاری انتشار کی
کیفیت انہیں خانہ جنگی کی جانب لے جارہی ہیں جس کے نتائج شکست و ریخت کے
سوا کچھ بھی نہیں !
پاکستان میں خانہ جنگی اور اس شکست و ریخت کے آثار اب اس قدر واضح ہوچکے
ہیں کہ اگر استحصال کے اس نظام کو تبدیل نہیں کیا گیا تو پھر پاکستان کے
وجود کو سالم رکھنا ممکن نہیںرہے گا کیونکہ استحصال کے اس نظام کے باعث ہی
ہم اس سے قبل بھی دولخت ہونے کے عذاب سے گزرچکے ہیں اور باقیماندہ پاکستان
اب اس عذاب کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا ۔ |