حالیہ دھولیہ میں فساد برپا ہوا
ہے جس میں پانچ مسلم نوجوان جاں بحق ہو گئے ہیں اور سو سے زیادہ زخمی
ہیں۔فساد کا مرکزی موضوع ہوٹل میں کھانا کے معمولی بل کی ادائیگی کو بتایا
جا رہا ہے ،جس پر پولیس نے اپنی بربریت کاثبوت فراہم کیا اور ظلم و زیادتی
کی انتہا کردی اور گولیوں کی بوچھاڑ کرکے معصوم لوگوں کی جان لے لی ۔جس کی
ہر چہار جانب سے مذمت کی جارہی ہے ،صرف مذمت کرنے اور چیخ و پکار سے کیا یہ
مسئلہ حل ہو سکتا ہے ؟شاید نہیں کیونکہ یہ ہندوستان کا صرف پہلا فساد نہیں
ہے بلکہ تحفظ فراہم کرنے والی جماعت کانگریس سے لیکر سماج وادی تک کے دور
اقتدار میں متعدد فسادات رونما ہوتے رہیں ہیں ،اور ہر فساد میں نقصان صرف
اور صرف مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔کانگریس اور ان جیسی ذیلی جماعتیں
جو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کہتے ہیں ان کی ہی دور اقتدار میں
مسلمانوں کے عزت و آبرو اور جان و مال کانقصان ہمیشہ سے ہوتے آیا ہے ،لیکن
ہائے افسوس مسلمان الیکشن کے وقت صرف سیکولر کے نام پر بحالت مجبوری
کانگریس اور سماج وادی کے جھولی میں ووٹ ڈال دیتے ہیں کہ یہ ہماری تحفظ کے
نگہبان ہیں ،خدا را یہ سوچ ہی ہماری تنزلی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت
ہوتے جا رہا ہے ۔اگر ہمیں خدا ئے واحد پر ایمان ہے تو اپنے ایمانی جذبہ کو
بروکار لانے کی کوشش کریں ۔ہمارے ایمان کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان کسی
سے نہیں ڈرتے ہیں لیکن آج اس کے برعکس ہو رہا ہے ہم بی جے پی کو صرف اس لئے
ووٹ نہیں دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا بد خواہ ہے ۔یہ ہماری ایمانی کمزوری
ہے جس کا فائدہ یہ سیکولر جماعتیں اٹھا رہی ہیں ۔ہم کسی دوسری پارٹی کو بر
سر اقتدار نہیں ہونے دیتے ہیں کیونکہ ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے ہم تو
صرف دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف خدا سے ڈرنے والے قوم ہیں لیکن حقیقت تو یہ
ہے کہ ہم سب سے ڈرنے والی قوم کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اسی کا فائدہ
اٹھا کر کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ دوغلی پالیسی کا استعمال کیا ہے
اور مسلمانوں کو ان 65سالوں میں دلت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا
ہے ۔کیونکہ آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ حکومت کرنے والی جماعت کانگریس ہی
ہے اسلئے مسلمانوں کو پستی میں ڈالنے کا سہرا بھی انہی کا ہے ۔ہم تو ایک
نریند مودی کو آدم خور بنا کر اب تک ڈھو رہے ہیں اور کانگریس پارٹی میں نا
جانے کتنے لاتعداد اب تک آدم خور مسلمانوں کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور
مسلمانوں کا ووٹ بٹور رہے ہیں ۔خدارا اپنی ایمانی کمزوری کا فائدہ ان نام
نہاد پارٹیوں کو کب تک فائدہ پہچاتے رہیں گے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ دوسری
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد مسلم نوجوانوں کی حرکات و سکنات کا خمیازہ
بھی شریف مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ اوباش قسم کے لوگ جو نام سے مسلمان
ہوتے ہیں وہ سماج کے اندر نامعقول حرکت کرتے ہیں اور انکی وجہ سے لڑائی
شروع ہوتی ہے اور ہم مسلمان نام سنتے ہی جذبئے ایمانی سے سرشار ہو جاتے ہیں
پھر کیا ہے ہم میدان میں کود پڑتے ہیں جس کا فائدہ ان خاکی وردی والے کو مل
جاتا ہے اور جم کر مسلمانوں کو نقصان پہچانے کی کوشش میں جٹ جاتے ہیں ۔لہذا
ہماری ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ہم لڑائی جھگڑے کو طول نہ دیکر اس کے سدباب
کی کوشش کریں اور ضرورت پڑے تو سماج دشمن عناصر کو وہیں پر خاموش کر دیں جس
سے چھوٹے چھوٹے معاملے فساد کی وجہ نہ بن پائے اور صبر و تحمل کا دامن
ہمیشہ تھامے رہیں صرف مسلم نام سن کر جذبات میں آکر بھڑکیں نہیں یہی ایک
راستہ ہے مسلمانوں کی تحفظ کا ۔آج تک ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے کہ نام کے
مسلمانوں کے جوش میں آکر مسلمان اپنے آپ کوفساد میں جھونک دیتے ہیں جس کا
فائدہ پولس اور سماج دشمن عناصر اٹھاتے ہیں ۔ہمارا ایمان صرف لڑائی جھگڑے
کے وقت ہی تازہ ہوتا اس وقت جذبہ ایما ن خالی ہو جاتا ہے جب کوئی بے روزگار
مسلم در بدر بھٹکتا ہے یا پھر ہمارے ساتھ کام کرتا ہے تو ہم اس کو کاٹنے کی
کوشش میں لگے رہتے ہیں اس وقت جذبہ ایمان کا کوئی درجہ کام نہیں آتا ہے ۔
اسلئے خدارا اپنے جذبہ ایمانی کو صرف فساد تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اسے
زندگی کے ہر محاذ پر آزمانے کی کوشش کریں ۔ |