حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین کہتے ہیں
کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں چند لوگوں کا تذکرہ ہوا اور لوگوں نے ایسی
باتیں کہیں جس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ لوگ حضرت عمر ؓ کو حضرت ابوبکر
ؓ سے افضل سمجھتے ہیں۔ جب حضرت عمر ؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ؓ نے
فرمایا کہ اللہ کی قسم حضرت ابو بکر ؓ کی ایک رات عمر ؓ کے سارے خاندان کی
زندگی سے بہتر ہے اور حضرت ابو بکر ؓ کا ایک دن عمر ؓ کے سارے خاندان کی
زندگی سے بہتر ہے۔ جس رات حضور اکرم ﷺ گھر سے نکل کر غارِ ثور تشریف لے گئے
تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ بھی تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ کچھ دیر آپ ﷺ
کے آگے چلتے اور کچھ دیر پیچھے۔ آپ ﷺ اس بات کو سمجھ گئے اور آپ ﷺ نے
فرمایا ۔ اے ابو بکر ؓ تمہیں کیا ہوا کہ کچھ دیر میرے پیچھے چلتے اور کچھ
دیر آگے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ جب مجھے خیال آتا ہے کہ پیچھے سے
کوئی تلاش کرنے والا نہ آجائے تو میں پیچھے چلنا شروع ہو جاتا ہوں اور پھر
مجھے خیال آتا ہے کہ آگے کوئی گھات میں نہ بیٹھا ہو تو میں آگے چلنے لگتا
ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ابوبکرؓ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو کیا
تم یہ پسند کرتے ہوکہ وہ میرے بجائے تمہیں پیش آئے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا
کہ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے یہی بات ہے۔جب یہ
دونوں حضرات غار تک پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا ۔یارسولﷺ آپ ﷺ ذرا
یہاں ٹھہریں میں آپ ﷺ کے لیے غار کو صاف کر لوں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے
اندر جا کر غار کو صاف کیا۔ پھر باہر آئے تو خیال آیا کہ انہوںنے سوراخ
ابھی صاف نہیں کئے تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ابھی آپ ﷺ ذرا اور
ٹھہریں میں سوراخ بھی صاف کر لوں۔ چنانچہ اندر جا کر غار کو اچھی طرح صاف
کیا پھر آکر عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺاندر تشریف لے آئے۔ آپﷺ اندر تشریف لے
گئے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا قسم ہے اُس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میرے جان ہے۔
حضرت ابوبکرؓ کی یہ ایک رات عمر ؓ کے پورے خاندان سے بہتر ہے۔
قارئین! ہم نے جیسا کہ پہلے بھی متعدد مواقع پر عرض کیا ہے کہ آپ کے سامنے
یہ روشن احادیث ، بزرگانِ دین کے واقعات اور اولیائے کرام کے سچے قصے تحریر
کرنے کا مقصد نہ تو یہ ہے کہ آپ اس کالم کو ایک کہانی کی طرح پڑھ کر سر
دھنیں، تعریف میں چار الفاظ عنایت کریں اور اُس کے بعد بھول جائیں کہ پوری
عرضداشت کا مقصد کیا تھا۔ہم نے آج تک دو سال کے عرصے میں سینکڑوں کالم
تحریر کئے ہیں اور تحریر و تقریر کے جتنے بھی مواقع اللہ تعالیٰ نے ہمیں
عنایت فرمائے ہیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہ بات لکھیں اور کہیں کہ جو ہمارے
مرنے کے بعد ہماری قبر میں ہمارے حق میں صدقہ جاریہ بن کر آئے۔ دنیاوی
منفعت یا روپے پیسے کا حصول راقم کا نہ تو کبھی مقصد رہا ہے اور اللہ آئندہ
بھی اس عادتِ بد سے محفوظ رکھے۔(آمین)
قارئین! آج ایک انتہائی ایک سنسنی آمیز سچی کہانی آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو 1996ءمیں اللہ تعالیٰ نے آزادکشمیر کی وزارتِ
عظمیٰ سے نوازا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا دورِ حکومت کیسا تھا اور
انہوں نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیئے یہ آج کا موضوع نہیں ہے۔ہاں آج
کے موضوع کا ایک حصہ اُن کے دورِ حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔ بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری نے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے میرپور میں چتر پڑی ، سکھیاں
کے مقام پر ”ذو الفقار علی بھٹو شہید پارک“ کے نام سے ایک قطعہ اراضی مختص
کیا اور اس پارک پر کام شرو ع کر دیا گیا۔خطیر رقم خرچ ہوئی۔ کئی کلومیٹر
طویل واکنگ ٹریک بنائے گئے،رات کے وقت واک کرنے کے لیے قمقموں کا انتظا م
کیا گیا اور بھٹو پارک کی باﺅنڈری بھی بنائی گئی۔ بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری کی حکومت 2001ءمیں ختم ہو گئی اور اُس کے بعد مسلم کانفرنس کی
حکومتیں بنیں۔ جون2011ءکے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی
حاصل کی اور باوجود شدید کشمکش اور وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کے متعدد
امیدواران کے ہما کا پرندہ چوہدری عبد المجید کے سر پر جا بیٹھا۔چوہدری عبد
المجید آزادکشمیر کے وزیر اعظم بن گئے اور وزیرِ اعظم بننے کے بعد انہوں نے
سب سے پہلا جو بیان داغا وہ یہ تھا کہ ”میں نوڈیرو اور گڑھی خدابخش کا
مجاور ہوں“اُن کی اس بات کو یار لوگوںنے ہنسی ٹھٹھول کا موضوع بنا لیا اور
آزادکشمیر کی موجودہ حکومت کو مجاور حکومت ، مجاور کابینہ اور مجاور نظام
سے موسوم کر دیا گیا۔چوہدری عبد المجید مجاورانہ اعلان کے باوجود انتہائی
سمجھدار ، دور اندیش اور معاملہ فہم قسم کے وزیر اعظم ثابت ہوئے۔ ڈیڑھ سال
کے قلیل عرصے میں مجاور حکومت نے وزیر اعظم چوہدری عبد المجید کی قیادت میں
آزادکشمیر میں تین میڈیکل کالجز، متعدد یونیورسٹیاں اور تعمیر و ترقی کے
بڑے بڑے منصوبے شروع کروا دیئے اور اُن کے تمام اعلانات عملی اعلانات نکلے۔
ایک بھی اعلان ہوائی نہ تھا۔حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا
گیلانی جب میرپور کے دورے پر تشریف لائے تو اسلام گڑھ کے مقام پر ایک بہت
بڑے جلسہ عام میں چوہدری عبدالمجید نے وزیر اعظم پاکستان کے منہ سے میرپور
میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ قائم کرنے کا اعلان بھی کروا دیا۔ مزے کی بات کہ
یہ اعلان بھی ہوائی نہ نکلا اور آخری خبریں آنے تک سول ایوی ایشن اتھارٹی
اور دیگر ذ مہ داران ادارے میرپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کام شروع کر چکے
ہیں۔
قارئین! یہاں تک کی کہانی ساری کی ساری”گڈی گڈی“ یعنی ”اچھی اچھی “
تھی۔آئیے اب کچھ بُری بُری باتیں کرتے جائیں۔ چوہدری عبد المجید کی وزارت
عظمیٰ تین اشخاص اُن کے سب سے بڑے ناقدین ثابت ہوئے ہیں۔ پہلے نمبر پر
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیر اعظم آتے ہیں جنہوںنے روزِ اول سے ہی
چوہدری عبد المجید کی شخصیت او ر اُن کے ”سجے کھبے“گھومنے والے فرنٹ مینوں
پر کرپشن اور لوٹ مار کے سنگین الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جناح
ماڈل ٹاﺅن سکینڈل، ایم ڈی اے سکینڈل، اراضی سکینڈل اور نہ جانے کون کون سے
سکینڈلز کے الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے
سیاسی پتے بھی کھیلنا جاری رکھے اور چوہدری عبد المجید کے لیے مستقل دردِ
سر بنے رہے۔ دوسرے نمبر پر موجودہ اپوزیشن لیڈر سابق وزیر اعظم راجہ فاروق
حیدر خان آتے ہیں جنہوںنے چوہدری عبد المجید کے تمام میگا پراجیکٹس کو میگا
کرپشن کا نام دیا۔ اُنہیں مدہوش وزیر اعظم قرار دیا۔ اُنہیں جھوٹوں کا امام
کہا اور منافق تک کہہ ڈالا۔ جب کہ تیسرے نمبر پر آزادکشمیرکی سوادِ اعظم
جماعت مسلم کانفرنس کے صدر سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان جنہوںنے
باوجود محض پانچ اراکین قانون ساز اسمبلی کے ایسی سیاسی گیم کھیلی کہ آج
قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن وجود میں آچکی ہے اور ہمارے خفیہ ذرائع
یعنی جادو کی چڑیا کے مطابق چوہدری عبد المجید کی حکومت ختم کرنے کے لیے
تمام گیم تیار کرنے میں سردار عتیق احمد خان نے مرکزی نوعیت کا کردار ادا
کیا ہے۔
قارئین! یہ تمام وہ پسِ منظر ہے جو آج کی کہانی کی جڑ تک پہنچنے کے لیے
ضروری ہے۔ آزادکشمیر میں چونکہ چوہدری عبدالمجید حکومت نے میڈیکل کالجز
سمیت کئی میگا پراجیکٹس شروع کیے۔ ظاہر ہے یہ تمام منصوبے منہ زبانی تو
چلنے سے قاصر ہیں۔ انگریزوں کا ایک محاورہ ہے ”Money Makes Mare Go“تو ان
تمام منصوبوں کو چلانے کے لیے”روکڑے“ کی ضرورت تھی اور یہ تمام رقم چوہدری
عبد المجید نے انتہائی ”ذہانت“سے جاری ترقیاتی منصوبوں میں سے نکالی۔ جس کے
متعلق ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق انتہائی واضح الفاظ میں کہہ چکے
ہیں کہ اُن کی اس حرکت کے نتیجہ میں وہ ترقیاتی منصوبے کہ جو پانچ سال میں
مکمل ہونا تھے اب پندرہ سال بھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔کیونکہ رقم ہی
ٹرانسفر کر دی گئی ہے۔اس تمام صورتحال میں منطقی نتیجہ وہی نکلا جس کی توقع
تھی۔ آزادکشمیر حکومت مالی طور پر بحران کا شکار ہو گئی۔مجاور وزیر اعظم
بھاگے بھاگے وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کے پاس گئے۔ صدر پاکستان
آصف زرداری سے میٹنگ کی اور مالی مشکلات کا رونا رویا۔انہوںنے ترس کھاتے
ہوئے میڈیا پر اعلان کر دیا کہ آزادکشمیر حکومت کو بیس ارب روپے کا بیل آﺅٹ
پیکیج دیا جائے گا۔لیکن صدر آصف علی زرداری نے اپنے ہی چاہنے والے مجاور
وزیر اعظم کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ گزشتہ پانچ سالوں سے میاں محمد نواز
شریف کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ یعنی ”وعدہ کوئی قرآن یا حدیث تھوڑا ہے کہ
پورا کیا جائے“چوہدری عبد المجید کو انہوں نے یہ کہا تو نہیں البتہ کر ایسے
ہی کچھ رہے ہیں۔اب یہاں سے مرکزی کہانی....میرپور میںموجود بھٹو پارک جو
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذو الفقار علی بھٹو شہید کے نام پر آج سے
پندرہ سال قبل قائم کیا گیا تھا اُس سمیت 239کنال اربوں روپے مالیت کی
اراضی وزیرِ اعظم چوہدری عبد المجید نے ہاشو گروپ جو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل
کا مالک ہے اُسے پچاس سالہ لیز پر دے دی ہے۔ہمیں اس پر اعتراض نہیں کہ اپنے
ہی قائد کے نام پر بننے والے پارک کے ساتھ وہ کیا سلوک کرنے جارہے ہیں
کیونکہ پارٹی بھی انہی کی ، قائد کے بھی انہی کے۔وہ اُن کی عزت کریں یا نہ
کریں یہ اُن کا مسئلہ ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست جموںوکشمیر کی وحدت
برقرار رکھنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی
قانونی حیثیت رکھتی ہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر میں یہ ایک قانون
ہے کہ کوئی بھی غیر ریاستی فرد یا کمپنی یہاں کی زمین نہیں خرید سکتی۔ہمیں
نہیں سمجھ آرہا کہ مجاور وزیر اعظم چوہدری عبد المجید نے کس لہر میں آکر یا
کس مجبوری کے عالم میں یہ معاہدہ کر کے آزادکشمیر نہیںبلکہ پوری ریاست
جموںوکشمیر کی آئنی حیثیت متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ہاشو گروپ پاکستان میں
اربوں نہیںبلکہ کھربوں روپے کے اثاثے رکھتا ہے۔ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کی
چین بھی بہت مشہور ہے لیکن جناب کشمیر کی قیمت پر اور آزادی کشمیر کے کیس
کو کمزور کرنے کی قیمت پر یہ کام مت کیجئے۔بقول ساغر صدیقی
ستم جاگتے ہیں کرم سو رہے ہیں
محبت کے جاہ و حشم سو رہے ہیں
مرے نکتہ سازو سخن کے خداﺅ
پکارو کہ لوح و قلم سو رہے ہیں
ہر اک ذہن میں ہے خدائی کا دعویٰ
ہر اک آستیں میں صنم سورہے ہیں
یہاں خوابِ راحت فریبِ یقین ہے
نہ تم سو رہے ہو نہ ہم سو رہے ہیں
میری اُجڑی سی آنکھوں میں ساغر
زمانے کے رنج و الم سو رہے ہیں
قارئین! ہم آج کے کالم کی وساطت سے عزت مآب وزیرِ اعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ فی الفور منسوخ کیا جائے۔ بصورتِ
دیگر کشمیر کی آئینی حیثیت متاثر کرنے کا تمام سہرا آپ کے سر بندھے گا۔
یہاں پر ایک سینہ گزٹ سے پھیلنے والی افواہ بھی آپ سے شیئر کرتے چلیں۔ آج
سے تین ماہ قبل میرپور میں یہ خبر پھیلی تھی کہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید
کے ایک قریبی ترین عزیز نے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کی اس ڈیل میں نو کروڑ
روپے حصہ وصول کیا ہے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ یہ درست ہے یا غلط لیکن افواہ
میرپور میں خوب گرم ہوئی تھی اور ہم نے FM93ریڈیو کے مقبول ترین پروگرام
لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں اپنے استادِ گرامی راجہ حبیب اللہ خان کے
ہمراہ ایک خصوصی پروگرام رکھا تھا جس میں چوہدری قاسم مجید جو وزیرِ اعظم
عبد المجیدکے فرزند ہیں انہوں نے شرکت کی تھی۔ پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے
شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری بلقیس صابر راجہ نے بھی شرکت کی تھی۔ چوہدری
قاسم مجید نے میرپور میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل سمیت دیگر فائیو سٹار ہوٹلز
کا قیام معاشی ترقی، کرکٹ میچز اور معاشی سرگرمیوں کے لیے ضروری قرار دیا
تھا۔ لیکن ہم اُن سے یہ نہ پوچھ سکے تھے کہ اس کام سے ریاست جموں کشمیر کی
آئنی حیثیت متاثر ہوئی تو ذمہ دار کون ہو گا۔ہمارے آج کے سوال پر آپ بھی
غور کیجئے گا۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے ۔
”گاہک نے انتہائی غصے سے دوکاندار سے کہا میں نے تم سے جو پنکھا خریدا تھا
وہ رُک رُک کر کیوں چلتا ہے۔ دوکاندار نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا۔
بھائی جان آپ قیمت بھی تو قسطوں میں دے رہے ہیں۔“
قارئین!کشمیری قوم بھی اپنی غیرت ، خودداری اور عزت کی قربانی ایک تو بھارت
میں دے رہی ہے جہاں لاکھوں بھارتی فوجی آزادی مانگنے کے جرم میں کشمیریوں
پر ظلم کر رہے ہیں اور دوسری جانب آزاد خطے میں ہمارے لیڈرز ہمیں بیچ رہے
ہیں۔ اللہ کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائیں۔ |