ایڈوائز اور ایڈوائزر

سادہ مگرکشادہ ،روشن اورپروقارکانفرنس روم میں ایک بڑے ادارے کے ڈائریکٹراورایڈوائزربڑے مہذب اندازسے بیٹھے ہوئے ہیں،ایک اہلکار نے ان سب کے سامنے ایک ایک منرل واٹرکی بوتل رکھی اورباہرنکل گیا ۔میٹنگ نوبجے شروع ہوگی مگرابھی نوبجنے میں پندرہ منٹ باقی ہیں اورشرکاءکے درمیان غیررسمی گفتگوجاری ہے ۔اِدھر نوبجے اوراُدھر کانفرنس روم کابنددروازہ کھلنے کی مخصوص آوازآئی اورایک خوش لباس ،باوقاراورپراعتماد شخص ''گڈمارننگ ایوری ون''کہتا ہوا اندر آگیا۔آنیوالی شخصیت نے صدارتی سیٹ پربیٹھتے ہوئے کہا حضرات کاروائی شروع کرتے ہیں ،پھر اُس نے دائیں ہاتھ سے اپنامائیک آن کیااور ایجنڈا پڑھ کرسنایا اوراپنا نیامنصوبہ وضاحت سے بتانے کے بعد کہا جولوگ میرے اس پلا ن کے ساتھ متفق ہیں وہ کھڑے ہوجائیں اورجومتفق نہیں وہ بیٹھے رہیں ،یہ ہدایات سن کرچندلوگ کھڑے ہوگئے ،انہیں کہا گیا اس کانفرنس میں آپ کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پلان کے بارے میں ہماری سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذاء مجھے اس منصوبہ پرہونیوالی بحث یا ڈبیٹ میں آپ کی کوئی ضرورت نہیں ،جولوگ مجھ سے مختلف رائے رکھتے ہیں وہ اپنے منطقی دلائل پیش کریں،خواہ ہمیں آج شام تک بیٹھناپڑے ۔ہم سیرحاصل گفتگواور بحث کے بعدیقینا کسی مثبت نتیجہ پر پہنچ جائیں گے ۔جوشخص اس کانفرنس کی صدارت کررہا تھا اسے دنیا والے بل گیٹس کے نام سے جانتے ہیں ۔بل گیٹس کی طرح دنیا کاہرکامیاب انسان اورسرمایہ دار اپنا ہرفیصلہ کافی سوچ بچاراوربھرپورمشاورت کے بغیر نہیں کرتا ۔عہدحاضر میںدوراندیش ایڈوائزر اوردوررس ایڈوائزملنا غنیمت اوربیش قیمتی نعمت کی طرح ہے ۔مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں بااختیارپوزیشن یعنی اعلیٰ منصب پر بیٹھے لوگ خودکو سقراط اورحکیم لقمان کااستاد سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ان کے نزدیک کسی سے مشاورت کرناحماقت اورجہالت ہے لہٰذاءوہ تنہا بڑے اہم فیصلے کرگزرتے ہیں اورپھرجس وقت پانی سرسے گزرتاہے توپچھتاوے کے سواان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتامگرپوری قوم کوبھی ان کے ناقص فیصلوں کاخمیازہ بھگتناپڑتا ہے۔ ایک حکیم و دانا مشیرانسان کوہزاروں دشمنوں اورخطروں سے بچاتا ہے جبکہ ایک نادان دوست سے بڑابوجھ اور کوئی نہیں ہوسکتاجواپنے ساتھ ساتھ دوسروں کوبھی ڈبودیتا ہے۔جس کونادان دوست کی صحبت اورمشاورت میسر ہواسے پھر کسی اوردشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ۔

قرآن مجیدفرقان حمید میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے''تم آپس میں مشاورت کیا کرو''۔سرورکونین حضرت محمد کے عہدنبوت میں حضرت جبرائیل ؑ ان کی خدمت اقدس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کرآتے تھے اورآپ کی حکمت ودانائی بارے بھی کوئی ابہام نہیں تھا مگراس کے باوجود تاجدارانبیاءحضرت محمداپنی ازواج مطہرات اور اپنے معتمداور جانثارصحابیٰ اکرامؓ سے مختلف معاملات پر ان کی رائے طلب اوران کے ساتھ باضابطہ مشاورت کیاکرتے اوران کی آراءکواہمیت دیتے تھے ۔ایک بار حضرت علیؓ کواپنے دورخلافت میں کسی شورش کاسامنا تھا توان کے ایک معتمد ساتھی نے کہا ''اے امیرالمومنین آپ ؓ سے پہلے جوخلیفہ گزرے ہیں انہیں اپنے ادوارمیں اس قدرشورشوں اوربغاوتوں کاسامنا نہیں کرناپڑا تھاجس طرح آپ ؓ اپنے دورخلافت میں کررہے ہیں ،اس پرباب العلم اورشیرخداحضرت علیؓ نے فرمایا،ان کامشیرمیں تھا اورمیرے مشیرتم ہو ''۔

ہمارے ہاں ریاست کے اعلیٰ ایوانوں میں براجمان ارباب اقتداریاکسی ادارے کے مالکان جس وقت کوئی فیصلہ یانیا منصوبہ پیش کرتے ہیں توان کے وزیروں اورمشیروں میں سے نناوے فیصد ''واہ واہ ،کیا بات ہے،چشم بدور ،کیا ذہانت پائی ہے،کیا زبردست آئیڈیا ہے ،ملک میں معاشی انقلاب آجائے گا،آئندہ انتخابات میںووٹوں کی بارش ہوجائے گی''وغیرہ وغیرہ کی گردان شروع کردیتے ہیں اوراگران کاکوئی باضمیراورباشعورساتھی کسی ایشوپر اختلاف رائے کی جسارت کربیٹھے تواسے ''یو شٹ اَپ'' کہنے کے بعد اجلاس یامیٹنگ سے باہرنکال اوراس بیچارے کوباغی ،گستاخ ،گنوار اورزبان درازقراردے کراس کانام ہمیشہ کیلئے گڈبک سے خارج کردیا جاتا ہے ۔پاکستان میں اوپرسے نیچے تک جاہلوں،چاپلوسوں ،بھانڈوں اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں سے مشیروں کاکام لیا جارہا ہے ۔جس کوانڈاتک ابالنا نہیں آتاوہ معاون خصوصی ہے جوخوداپنے محلے کے حجام سے مشورہ مانگتا ہے اسے ایڈوائزر بنادیاجاتاہے۔یہ بھانڈنما مشیراورخوشامدی معاونین خصوصی فہم وفراست سے عاری مگراپنے سیاسی قائدین کومکھن لگانے میں ماہر ہوتے ہیں اورحکمرانوں کی خوشامدپسندی کاخوب فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اس شعبدہ بازی میں ملک وقوم اورقومی اداروں کابیڑاغرق ہوجا تا ہے۔ہمارے ہاں ایڈوائزربنانے کامیرٹ یامعیار اس انسان کی دانائی یاسمجھداری نہیں بلکہ صرف اس کی صاحب اقتدار کے ساتھ وفاداری اوراس کیلئے فداکاری دیکھی جاتی ہے ۔پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اوربدنامی کاسبب ہمارے حکمرانوں کاسیاستدانوں کامخصوص مائنڈ سیٹ ہے ،یہ لوگ سیاسی بونوں اوربونگوں کے حصار میں رہنا پسندکرتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں قدآوراورصاحب بصیرت سمجھا جاتاہے۔پاکستان میں دانشمندوں کاقحظ نہیں پڑامگران داناﺅں کی صحبت میں بیٹھنے سے ہمارے ارباب اقتدارکی جہالت اورحماقت کارازفاش ہوجانے کاڈرہوتا ہے لہٰذا ءیہ کند اذہان والے افرادکواپناوزیراورمشیربناتے ہیں جوان کی ہرجائزاورناجائزبات پرواہ واہ کاشوربرپاکرتے ہیں اورپھر اس شورکے نتیجہ میں کوئی مثبت اورتعمیری بات ان حکمرانوں کے کانوں میں نہیں پڑتی ۔ایک کہاوت ہے داناکی صحبت میں بیٹھنے سے انسان دانائی سیکھتا ہے جبکہ نادان کی بیٹھک میں انسان کوحماقتوں کے سواکچھ نہیں ملتا،ہمارے حکمران داناﺅں سے دوربھاگتے ہیں جبکہ انہیں بھی شہنشاہوں کی طرح بھانڈوں ،جگت بازوں اورفنکاروں کے ساتھ وقت گزارنا بیحد پسندہے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق درواندیشی اورمستقبل بینی کرنے والے ملکوں کی فہرست میں جرمنی کانام سب سے اوپر جبکہ پاکستان کانام سب سے نیچے ہے،میں سمجھتاہوں یہ اعدادوشمارمنظرعام پرآنے کے بعد ہمارے ارباب اقتدارواختیارکو شرم سے ڈوب مرناچاہئے۔ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیوں کی پسندیدگی کے سروے کاتوبڑاشورمچایا جاتا ہے مگرمستقبل بینی والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان کی شرمناک پوزیشن پرکسی حکمران یاسیاستدان نے کوئی تبصرہ نہیںکیا۔دنیا کے ہرمہذب اور متمدن ملک نے مختلف ریاستی شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے اورعصری چیلنجزسے نبردآزماہونے کیلئے علیحدہ علیحدہ تھنک ٹینک بنائے ہوئے ہیں جوبڑی عمدگی سے کام اورپرفارم کررہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہرشہرمیں ایک سے زیادہ سیاسی بگ گن توہیں مگرملکی سطح پرکوئی متفقہ تھنک ٹینک ہے اورنہ ہماری سیاسی قیادت کے پاس کوئی متفقہ قومی ایجنڈا ہے۔پاکستان میں جوبھی فوجی شخصیت یاسیاسی جماعت اقتدارمیں آئی اس نے اپنااپنا پروگرام شروع کیا جواس کے بعدآنیوالے حکمران نے رول بیک کردیاجبکہ امریکہ میں جارج بش کے بعدبل کلنٹن آئے یاکلنٹن کادورصدارت ختم ہونے پرجارج ڈبلیوبش آجائے یابراک اوباماکا عہدصدارت ہو ،وہاں ووٹ کی پرچی سے صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں پالیسیاں تقریباً وہی برقرار رہتی ہیں وہاں حکومت کے بیشتر معاملات میں تھنک ٹینک سے مددلی جاتی ہے۔ہمارے ملک میں وفاقی اورصوبائی کابینہ کے ارکان کو ان کی ذاتی قابلیت یااہلیت کی بنیاد پروزارتوں کاقلمدان نہیں دیاجاتا بلکہ چاروں صوبوں اورصوبوں کے ہرڈویژن اورڈسٹرکٹ کی نمائندگی یقینی بنائی جاتی ہے ۔ہمارے ہاں جس وقت تک کوئی آفت نہ ٹوٹ پڑے ہماری آنکھ نہیں کھلتی،ہم مصیبت آنے کے بعد سوچ بچارشروع کرتے ہیںمگراس وقت تک بہت ساراپانی پلوں کے نیچے سے گزرچکاہوتا ہے۔پاکستان کوجہازی سائزکابینہ بنانے اورہروزارت کو اربوںروپے کے صوابدیدی فنڈز دینے کی بجائے مختلف شعبہ جات کیلئے تھنک ٹینک بنانے اورہرسطح پرمشاورت کوفروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کئی اہم فیصلے کرتے وقت وفاقی یاصوبائی کابینہ کی منظوری لی جاتی ہے اورنہ اسمبلیوں میں بحث کرنے کاتکلف کیا جاتا ہے ۔درحقیقت مشاورت کرنے اورایک دوسرے کی رائے سننے سے غلطی اورنقصان کاامکان نہ ہونے کے برابررہ جاتا ہے مگر مشاورت صرف داناﺅں سے کی جائے تاہم دانش کسی کی میراث نہیں ہے کبھی کبھی کوئی نادان بھی بے دھیانی میں دانائی کی بات کرجاتاہے لہٰذاءمشورہ دیوار سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.