افضل گرو کی پھانسی پر میڈیا کا تبصرہ و تجزیہ

13دسمبر 2001ء کو پارلیمان پر دہشت گردانہ حملے کے اہم مجرم افضل گرو کو 9فروری کو پھانسی دے دی گئی یعنی جرم واقع ہونے کے تقریباً12 سال بعد افضل گرو کو دی گئی موت کی سزأ پر عمل درآمد ہوا۔ افضل گرو کو 18دسمبر 2002ء کو نچلی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی عدالت العالیہ نے 29اکتوبر 2003ء کو افضل گرو کی سزا ئے موت کی توثیق کی اور اس سزا کی توثیق عدالت عظمیٰ نے 4اگست 2005ء کو سات سال ماہ بعد پھانسی دے دی گئی۔ 3اکتوبر 2006ء سے 3فروری 2013افضل گرو کی اہلیہ کی درخواست رحم (چھ سال چار ماہ) صدر جمہوریہ کے پاس زیر غور رہی ۔ سابق صدر عبدالکلام پھر پرتیبھا دیوی نے اس درخواست کا کوئی فیصلہ نہیں کیا درخواست رحم صد پرنب مکرجی نے مسترد کردی۔

اگر درخواست رحم کا فیصلہ چھ سال قبل ہی ہو جاتا تو آج شائد وہ تمام سوالات اور اعتراضات نہ اٹھتے جو آج اٹھ رہے ہیں ان کو ہم اخبارات اور ٹی وی پروگراموں یعنی میڈیا کے حوالے سے مرتب کررہے ہیں۔ مندرجہ ذیل تحریر میں ہماری اپنی ذاتی رائے شامل نہیں ہے اور ان آرأ سے جو پیش کی جارہی ہیں ہمارا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔

صدر پرنب مکرجی نے جب اپنے عہدے کا جائزہ حاصل کیا تو رحم کی (14) درخواستیں زیر غور تھیں اس میں تین ماہ دو مجرموں (اجمل قصاب و افضل گرو) کی رحم کی درخواستیں مسترد کردیں جو آزادی کے بعد اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔سابق صدر پرتیبھا دیوی نے کسی کی درخواست رحم مسترد نہیں کی اور 35مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا تھا۔

افضل گرو کو پھانسی دینے کا خیرمقدم حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے یکساں طور پر کرکے قوی پیمانے پر اتفاق رائے کااظہار کیا ہے لیکن اس اقدام کے مقاصد پر شدید اختلاف ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی نے اسے انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لیے یہ فیصلہ اچانک کیا گیا ہے۔

ایک اردو اخبار کے بموجب کانگریس کے حالیہ اجلاس میں وزیر داخلہ سنیل کمار شنڈے نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو دہشت گردی میں ملوث بتایا تھا اور کہا تھا کہ سنگھ پریوار دہشت گردی کے کیمپس چلارہا ہے۔ ہندوتوا کے علمبردار اس پر چراغ پا تھے اور وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شدت سے کررہے تھے چنانچہ ہندوتوا کی علمبردار جماعتوں اور تنظیموں کی برہمی دور کرنے کا اسے حربہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ اس پھانسی سے کانگریس نے بی جے پی سے اس بات کا موقع چھین لیا ہے کہ وہ کہے کہ دہشت گردوں سے نرمی برتتی ہے اس طرح دہشت گردی کے موضوع پر کانگریس نے بی جے پی سے بازی جیت لی ہے۔ بائیں بازو کے لیڈر دیپانکر بٹھا چاریہ جو سی پی آئی (ایم ایل لبریشن) کے معتمد عمومی ہیں کہا ہے کہ یہ پھانسی فرقہ پرست فاشت قوتوں کی خوشامد ہے۔ انہوں نے اسے انصاف اور جمہوریت کو کچل دینے کے مترادف قرار دیا۔ بٹھاچاریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ افضل گرو نے خود کو بی ایس ایف کے حوالے کردیا تھا تب سے وہ کشمیر پولیس کے اسپیشل ٹاسک فورس کے لیے کام کررہا تھا اور ان کو پارلیمان پر حملے میں پھنسایا گیا تھا۔ بٹھا چاریہ نے سوال کیا کہ 1984ء میں سکھوں کے قتل عام 1992ء میں ممبئی کے اور 2002ء کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور دلتوں و آدی واسیوں کے قتل کے سلسلے میں کسی کو پھانسی کیوں نہیں دی گئی؟ایک انگریزی روزنامے نے 2006ء میں انگریزی رسالے ’’کاروان‘‘ کو دئیے گئے افضل گرو کے انٹرویو کے حوالے سے لکھا ہے کہ افضل نے کہا تھا کہ پارلیمان پر حملے کے ماسٹر مائنڈ (سرغنہ) کی تلاش میں ناکامی کے بعد پولیس نے مجھے قربانی کا بکرا بنالیا مجھ کو دہلی پولیس کے اسپیشل سیل اور کشمیر پولیس کی ٹاسک فورس نے مجھ کو پھنسایا ہے۔

ممتاز انگریزی روزنامے ہندو نے خصوصی اداریہ میں لکھا ہے کہ رازداری سے دی گئی اس پھانسی سے ہندوستان کا وقار کھوگیا ہے پھانسی ایک ایسے مقدمہ کے بعد دی گئی ہے جس میں بنیادی طریقہ کار کی غلطیاں کی گئیں۔ 2002ء میں روزنامہ ہندو کے لیے پارلیمان پر حملے کی رپورٹنگ کرنے والی انجلی مودی نے مقدمہ کی سماعت کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افضل گرو کو کسی بڑے اور معقول وکیل کی خدمات حاصل نہ ہوئیں افضل کے وکیل نے اعتراف کیا تھا کہ عدالت میں بطور شہادت پیش کی گئیں۔ وہ دستاویزات جو افضل کے خلا استعمال ہوئیں وہ ان کو دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ افضل کے لیے کسی دوسرے وکیل کے انتظام سے پہلے ہی مقدمہ سے دستبردار ہوگیا تھا۔ عدالت میں افضل جو قانون سے واقف نہ تھا اپنی پیروی کرنے پر مجبور تھا۔بتایا جاتا ہے کہ استغاثہ کے 80میں سے صرف 3گواہوں پر ہی جرأ کی گئی۔ ہائی کورٹ میں افضل کے وکیل نے صرف اتنا کہا کہ یہ درخواست دیدی کہ اگر اسے سزائے موت دی جاتی ہے تو اسے زہریلے انجکشن سے ہلاک کیا جائے!۔ انجلی مودی افضل گرو کی پھانسی کو ایک طرح کا قتل قرار دیا۔

ممتاز دانشور اور ادیب اروندھتی رائے نے افضل گرو کے مقدمہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پارلیمان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ طنزیہ انداز مین اروندھتی نے لکھا ہے کہ اس وقت کے وزیر داخلہ اڈوانی نے انہیں پاکستانی کہا تھا اور کیونکہ اڈوانی خود پاکستانی ہیں۔ لہٰذا ان کی بات تسلیم کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افضل گرو کو پروفیسر ایس اے آر جیلانی کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا جبکہ افضل گرو کو پروفیسر جیلانی سے قبل ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

عدالت کی جانب سے مقرر کردہ جونیر وکیل نے افضل گرو سے کبھی ملاقات نہیں کی۔ صفائی کا کوئی گواہ نہیں پیش کیا اور بغیر کسی قانونی مدد کے مقدمہ کافیصلہ ہوا۔ اس مبینہ سازش کے سرغنہ ماسٹر مائنڈ پروفیسر جیلانی کو ہائی کورٹ نے بری کرکے استغاثہ کی پول تو کھول دی لیکن افضل کی سزأ بحال رکھی۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ کرتے ہوئے واقعاتی یا قرأئن پر مبنی شہادت و ثبوت کے سوا کسی پختہ ثبوت کے نہ ہونے کا اعتراف تو کیا لیکن سماج کے اجتماعی ضمیر کی تسلی کے لیے سزائے موت بحال رکھی۔ بقول اروندھتی رائے سوال یہ ہے کہ پارلیمان پر حملے کے تعلق سے اجتماعی ضمیر آخر کس کی اختراع ہے؟

کئی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ افضل گرو کے مقدمہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ اروندھتی نے ’’تہلکہ‘‘ نامی رسالے میں 2008ء میں ہی لکھا تھا کہ افضل گرو کے مقدمہ کا عجیب پہلو یہ ہے کہ نہ ان کی کوئی بات سنی گئی اور نہ انہیں اپنا وکیل مقرر کرنے کی سہولت دی گئی ۔ اسی لیے ماہرین قانون کی رائے میں مقدمہ کو شفاف Fair Trialنہیں کہا جاسکتا ہے اور خود سپریم کورٹ کا فیصلہ وضاحت طلب ہے۔

پھانسی کے فیصلے اور اس پر عمل درآمد میں رازداری برتنے اور افضل گرو کو ان کے خاندان والوں سے ملنے نہ دینا اور ان کی لاش وارثوں کو حوالے نہیں کرکے جیل میں ان کی تدفین پر عام طور پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

افضل گرو کے معاملے میں اخبارات و ٹی وی چینلز کا رویہ اور اظہار مسرت معقولیت سے عاری ہے دوسری طرف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور درگاہوں کے متعلق سجادوں اور دیوان نے اظہار مسرت کرنا حیرت انگیز ہے۔ ٹی وی کے بعض میزبان انسانی حقوق کے ناطے دہشت گردوں کو کسی رحم و رعایت ہی نہیں بلکہ ان کا حق تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔

حقوق انسانی کے اداروں نے پھانسی پر اور سارے طریقہ کار پر شدید اعتراض کیا ہے۔ پھانسی کے دوسرے دن وزیر اعلیٰ کشمیر عمر عبداﷲ نے اپنا موقف بدل کر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کو انصاف نہ ملنے کا یقین ہوگیا ہے۔

راجیو گاندھی کی قاتلہ نلنی اور 1995ء میں قتل کئے گئے وزیر اعلیٰ پنجاب بے انت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجونہ سے پہلے افضل گرو کوپھانسی دینے پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

پارلیمان پر حملے کے واقعہ پر اسرار کے پردے پڑے ہوئے اور افضل گرو کو رازداری سے دی گئی پھانسی نے سارے مسئلہ کو مزید پراسرار بنادیا ہے اور ان کو اپنے اقارب سے آخری ملاقات کا موقع نہ دینا اور رازداری سے تدفین نے حکومت کے بے جواز جارحانہ رویہ کو ظاہر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں روزنامہ ہندو نے مضامین خبروں و ادارئیے پر مشتمل قابل قدر مواد سلیقے و بے باکی سے پیش کیا ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.