برسٹر اعتزاز احسن کے گھر میں
رونق افروز جنابِ محترم زرداری صاحب کی بمعہ ولی عہد تصاویر اور اعتزاز
صاحب کی شعلہ بیانیوں کے کیا کہنے۔ مہمانوں کی تو وہ جم کے خاطر تواضع کی
کہ جناب برسٹر صاحب نے گویا مہمانوں کو خوش کردیا ۔
اعتزاز صاحب کے ارشادات سے نجانے کیوں میمو گیٹ کیس کی سماعت کے بعد بابر
اعوان کی پریس کانفرنس یاد آگئی -
ملاحظہ فرمائیے ! زرداری صاحب کی مہمان نوازی کرتے وقت جناب قانون دان صاحب
فرماتے ہیں کہ سُپریم کورٹ نواز شریف کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔الیکشن میں
تاخیر نہ ہونے دینا نوازشریف کی خواہش کی تائید ہے اپنے مُلک کے صدر کو
دوسرے مُلک کی عدالت میں گھسیٹنے کی مثال نہیں ملتی وغیرہ وغیرہ
اعتزاز صاحب لگتا ہے بابر اعون والا فریضہ اب آپ نے سنبھال لیا ہے ۔
مہربانی ہو آپ کی اس بیان بازی سے آسانی سے خود کو حکومت کا ہمنوا اور ہم
پا لیسی ثابت کرکے خود سے قانون پسندی کالیبل آپ نے خود ہی اُتار پھینکا ہے۔
جناب ! صدر کو مجرموں کی طرح گھسیٹنے کی مثال نہیں ملتی تو کیا مجرموں کے
صدر ہونے کی مثال ملتی ہے؟؟؟
اعتزاز صاحب آپ کو نہیں لگتا ؟ کہ آپ کا بیان توہینِ عدالت کے زُمرے میں
آتا ہے۔ ایسے وقت میں جب حکومت نہایت چابُکد ستی اور ڈھٹائی سے اعلیٰ عدالت
کے فیصلوں کی کُھلی خلاف ورزیوں اور دن رات سٹیٹ بنک سے قرضے لے کے بُھوک
مٹانے میں مصروف ہے آپ کا یہ برمحل چبھتاہوا بیان اُن کے لئے تو غنیمت کا
باعث بن سکتا ہے مگر عدلیہ کے لئے پیپلز پارٹی کی طرف سے میں نہ مانوں کر
لو جو کرنا ہے کا اظہار ہے الیکشن بروقت کروانا نواز شریف کی خواہش ہے یہ
کہ کر گویا خود ہی انکشاف فرمادیا کہ حکومت کو الیکشن ہونے سے کتنی " خصوصی
دلچسپی" ہے ظلم کی انتہادیکھئے کیا اس قوم کا اتنا بھی حق نہیں کہ بر وقت
الیکشن ہوں اور یہ مظلوم قوم 5 سال تک مُلک کو لُوٹ لُوٹ کر بھکاری بنانے
دینے والوں کا احتساب کرے۔ الیکشن تو قوم کا آیئنی حق ہیں اور قوم کے" درد
میں تڑپنے" والی حکومت اسے نواز شریف کی مرضی قرار دے کر اُلٹا میاں نواز
شریف کا کام آسان کر رہی ہے۔
عدالتی فیصلوں کی تحقیر و تذلیل کے حوالے موجودہ حکومت تاریخ میں منفرد
مقام پائے گی۔بجائے کہ صدر کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا
اُلٹا قانون دان ہوتے ہوئے قانون شکنی کی انتہا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کہ
میرے گھر میں صدر کے سیاسی معاملات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں گویا
آپ کے گھر کو بھی استثناء حاصل ہے ؟ کیا آپ کے گھر آتے ہوئے زرداری صاحب
صدر ِ پاکستان نہیں رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ رقم کو دیوانی عدالت کے ذریعہ
واپس لیا جا سکتا تھا یعنی رقم کی وصولی کا حکم سپریم کورٹ کی بجائے سول
کورٹ کودینا چاہئیے تھا مثال تو ویسے اعتزاز صاحب اسکی بھی نہیں ملتی مثال
کے طور پر دیکھا جائے تو مثالیں اور بھی بُہت سی چیزوں کی نہیں ملتیں جیسا
کہ دو قومی مجرم اور لُٹیرے بیک وقت صدر اور وزیرِ اعظم کے عہدوں پر فائز
ہوں مثال تو اسکی بھی نہیں ملتی۔
ڈالر 100 روپے کا کردیا جائے مثال اسکی بھی نہیں ملتی۔ حکومتی ادارے مل کر
خود ڈاکو لُٹیرے فرار کروائیں عدالت کے احکام کی دھجیاں اڑائیں مثال اسکی
بھی نہیں ملتی۔ صوبائیت پھیلا کر مُلک کو ٹکروں ٹکروں تقسیم کرنے کی سازش
کی بھی مثال نہیں ملتی۔ قاتل کہ کر نائب وزیرِ اعظم بنانے کی بھی واقعی
مثال نہیں ملتی۔ مُلکی سلامتی تار تار کرنے کے لئے امریکی افواج سے مدد
مانگنے (میمو گیٹ)کی بھی مثال نہیں ملتی۔ مُلک کے اندر غیر مُلکی افواج کے
دندنانے اور راتوں رات آپریشن (ایبٹ آباد آپریشن) کرکے بندے مار کے جانے کی
بھی مثال نہیں ملتی۔
2 صوبوں کے مکمل حالتِ جنگ میں ہونے کی بھی مثال نہیں ملتی۔ مُلک کا سب سے
بڑا شہرعملی طور پر دہشت گردوں کے حوالے کرنے کی بھی مثال نہیں ملتی۔ لُوٹی
ہوئی قومی دولت کے حکومتی سطح پر دفاع کی بھی مثال نہیں ملتی۔ آخر میں 2013
کا بہترین لطیفہ پیشِ خدمت ہے جمہوریت کے دو عظیم علمبرداروں (چوہدری شجاعت
حسین اور پرویز الٰہی)سے ملاقات کے دوران مُلکی تاریخ کے سب سے غیر جانبدار
صدر نے لاجواب ارشاد فرمایا ہے کہ ہماری پالیسیوں کے اثرات و ثمرات 4 ،5
سال بعد سامنے آیئں گے سبحان اللہ یعنی ابھی "ثمرات" باقی ہیں؟
خدا خیر کرے ویسے مثال تو اس بے مثال بیان------------ ّّّ |