استحکام پاکستان کراچی میں امن کے بغیر ناممکن

کراچی کو پاکستان کی اقتصادی و معاشی شہہ رگ کہا جاتا ہے۔ شہر میں رونما ہونے والے واقعات کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔ استحکام پاکستان کو ممکن بنانے کے لئے شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ کسی بھی قوم کی بقاءاور فتح اس وقت تک ممکن سمجھی جاتی ہے جب تک وہ معاشی لحاظ سے مضبوط ہو۔

دورہ حاضر کی ایک واضح اور مسلم مثال امریکا کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ امریکا افغانستان سے مہنگی اور مشکل ترین جنگ میں خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہ کر پایا البتہ اپنی معیشت ضرور ڈبو بیٹھا۔ جس کا نتیجہ اسے 22 سے زائد ریاستوں کی امریکا سے علیحدگی کے مطالبے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بعد ازاں یہ مطالبہ کچھ مزید ریاستوںنے بھی کر ڈالا جو کہ سپر پاور کہلاوانے والے امریکا کے لئے ایک نیا درد سر بن گیا۔ ایک طرف امریکا کی ڈوبتی معیشت کا مسئلہ تو دوسری طرف ایسے حالات میں ریاستوں کے مطالبات نے امریکا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا۔

بالکل اسی طرح جب معاشی شہہ رگ میں بے چینی ہوگی تو ملک کو سکون نہیں مل پائے گا۔ اگر شہر میں کشیدگی بدستور باقی رہی اور امن و امان کی صورتحال پیدا نہ ہوسکی تو پھر پورے ملک کو معاشی بحران کا خدشہ لاحق ہوسکتا۔ پہلے بھی ملک کو بھارت کی طرف سے پانیوں پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں گراں قیمت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ رہی سہی کسر استحالی قوتوں نے صنعتی جال بچھا کر پوری کردی اور بعد میں وہ صنعتیں بھی بجلی کے بحران کے باعث کچھ زیادہ دیر نہ چل پائیں۔ یوں عوام تو احتجاجاً روڈ پر نکل آئے اور جلاﺅ گھیراﺅ کر کے غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر اب وہ پوری طرح بے روز گار ہوچکے ہیں۔

جب ملک میں خانہ جنگی کا شکار ہوگا، حکمرانوں کی غلط اور ناقص پالیسیوں کے سبب معیشت داﺅ پر لگی ہوئی ہو تو ایسے میں معاشی شہہ رگ میں کشیدگی کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں کی جاسکتی۔ ایک طرف حالات یہ صورت اختیار کر چکے ہیں کہ رواں مہینے کے صرف 14 دنوں میں 100 سے زائد افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ مقتولین میں 3 علماءکرام ، 5 پولیس اہلکار، سینئر ڈاکٹر اور ایک وکیل شامل ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ 2 روز میں 6 دکانداروں اور تاجروں کو بھتہ نہ دینے پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد شہر کی اہم شاہراوﺅں پر تاجر براردی نے احتجاج کیا۔ اس دوران نیو سبزی منڈی ، گولی مار سینٹری مارکیٹ اور شیر شاہ مارکیٹ بند رہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں بھی کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔
مذکورہ صورتحال صرف چند روز پر مشتمل ہے جس سے با خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان حالات سے ملکی معیشت کو بے حد خطرات ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو مستحکم ہرگز نہ تو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی بنایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر میں امن و امان کی فضاءہموار کی جائے۔ اس کے لئے حکومت پاکستان سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ملک بیٹھ کر کوئی حل تلاش کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر کے دگرگوں حالات میں بلا تفریق سیاسی و مذہبی پارٹی اور جماعتوں کے نمائندگان، ذمہ داران اور عام شہری تک ہر شخص یکساں متاثر ہو رہا ہے۔ شہر کا امن کسی ایک شخص کی وجہ سے نہ تو خراب ہو رہا ہے اور نہ ہی کوئی ایک فرد یا جماعت فرداً فرداً اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔ اگر حالات نے کوئی نیا رخ نہ موڑا تو خدشہ ہے کہ مستحکم پاکستان کی سوچ دھر کی دھر رہے جائے گی۔
اک طرز تغافل ہے، سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے، سو ہم کرتے رہیں گے

کراچی میں کشیدہ حالات کے پیش نظر جماعة الدعوة کی جانب سے پروفیسر حافظ محمد سعید کی قیادت میں ”استحکام پاکستان کنونش“ کا انعقاد قابل تحسین عمل سمجھا جارہا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ کنونشن میں بلا تفریق شہر کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائ، علماءکرام، سماجی و فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران اور مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو مدعو کیا جانا ہے۔ 16 فروری کو منعقد ہونے والے اس کنونشن کے مثبت اثرات تو ضرور مرتب ہونگیں، جو کہ سب کے سامنے آجائیں گے۔ مگر آئندہ کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یہاں پر چند ایک سوالات ایسے ہیں جن کا جواب ہر اس شہری کو درکار ہے جو باشعور اور فہم و فراست رکھتا ہے۔

کیا کراچی میں یوں ہر روز دسیوں معصوم جانوں کو قتل کیا جاتا رہے گا؟
کیا کوئی ان کے حال پر رحم کر کے قاتلوں کے ہاتھوں کو روکے گا؟
کیا پھر کبھی گھر سے باہر بے فکر ہو کر رات گئے اپنے کام کیا جا سکیں گے؟
کیا پارکوں میں بوری بند لاشوں کے تحفے کی جگہ ایک مرتبہ پھر خوشبو بکھیرتے پھول کھلیں گے؟
کیا ہر وقت سینکڑوں اموات کے بعد بھی جھوٹی تسلیاں دی جاتی رہیں گی یا کوئی سچ بھی بولے گا؟

یہ اور اس جیسے بیسیوں سوالات ہیں کہ جن کے جوابات درکار ہیں مگر کوئی ہو جو ان کی داد رسی کرے۔ کاش ! کے کوئی اب کھڑا ہوجائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے! اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 69755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.