کوئٹہ میں دس جنوری کو علمدارروڈ
پر پیش آنے والے سانحہ کے بعد مُلک بھر میں تین روز تک کئے جانے والے
احتجاجوں اور مظاہروں میں شامل مظاہرین کے مطالبے پر بلوچستان میںجو گورنر
راج نافذکیاگیاتھا افسوس ہے کہ آج وہ گورنرراج بھی صوبہ بلوچستان میں دہشت
گردی کو کنٹرول کرنے میں کارگرثابت نہ ہوسکااورآج ایک بار پھردہشت گردوں نے
سولہ فروری کو کوئٹہ کی ہزارہ منگول برادری پر ریموٹ کنٹرل دھماکہ کرکے
قیامت صغریٰ برپاکردی ،یوںآج جس کے نتیجے میں کئی خاندانوں میں صفِ ماتم
بچھی ہوئی ہے ، اِس المناک واقعہ کے بعدساراملک غم و غصے میں متبلاہے ، اور
آج ایک مرتبہ پھر کوئٹہ کی ہزارہ منگول برادری کے متاثرین 84میتوں کے ساتھ
سخت سردی میں کُھلے آسمان تلے ، بے یارومددگار دھرنادیئے بیٹھے ہیں ، دھرنے
میں خواتین ، بچے ،بزرگ اور سب ہی شامل ہیں، ورثاءلاشوں کی تدفین سے
انکارکررہے ہیں، اور مطالبہ کررہے ہیں، فوج کی نگرانی میںٹارگیڈ آپریشن
کیاجائے ، ہزارہ منگول برادری کے متاثرین نے فوجی آپریشن اور ملزمان کی
گرفتاری کے لئے 48گھنٹوں کا الٹی میٹم دیاہے ، تادم تحریر اِس الٹی میٹم کے
اختتام کو چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں،مگرافسوس ہے کہ اَب تک دہشت گردوں
کا کوئی سراغ نہیں مل سکاہے، جس پر ملک بھر میں سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے
متاثرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے مجلسِ وحدت المسلمین کی اپیل پر
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، سُنی تحریک، جے یو پی، جماعت اسلامی اور دیگر
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ، تاجربرادری، کراچی بار اور ٹرانسپورٹرز نے
بھی 17 فروری اور 18فروری کو ملک بھر میں سوگ، دھنرنے اورہڑتال کا اعلان
کیا۔
کوئٹہ میں چالیس دنوں میں دہشت گردی کے دوبڑے پیش آنے والے واقعات کے نتیجے
میں سیکڑوں انسانوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے پر محب وطن پاکستانی بس یہی
سوالات کرتادکھائی دے رہاہے کہ اَب فوج کس کا انتظارکررہی ہے ...؟مُلک میں
بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو کون کنٹرول کرے گا...؟حکمران اَب کب اپنے مصالحت
پسندی اور مفاہمتی عمل کے لبادے سے باہر نکلیں گے...؟اوراَب کب عوام کو
دہشت گردوں سے نجات دلائیںگے ..؟آج قوم پوری طرح اِس بات پر متفق ہے اور
اِس کا کہناہے کہ حکمران تو عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے
ہیں..اور آج ساری پاکستانی قوم اپنی اور ملک کی سالمیت کے خاطر اپنی فوج کی
جانب حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہی ہے ..اور اپنی فوج سے سوال کررہی ہے کہ
اَب کون ساوقت آئے گاجب ہماری فوج عوام کی حفاظت کے لئے سامنے آئے گی ..؟اور
دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے ملک کو امن و سکون کا مثالی گہوارہ بنائے گی
...؟اور اِسی کے ساتھ ہی ہر محب وطن پاکستانی عالمِ کل سے یہ سوالات بھی
کررہاہے کہ یہ کہاں کی انسانیت ہے ...؟اور یہ کونسامذہب ہے...؟جس کے
پیروکار اپنے جنون اورپاگل پن کی تسکین کے خاطر معصوم اِنسانوں کا خون
بہاناعبادت اور اپنے لئے راحت اورباعث سکون سمجھ رہے ہیں...!یہ کون سادین
ہے ..؟کہ جس کے ماننے والے میرے ملک کے کمزوراور ناتواںاقلیت سے تعلق رکھنے
والے طبقے اور معصوم لوگوں (عورتوں، بچوں ، بزرگوں اور جوانوں)کو مارنے کے
طرح طرح کے بہانے ڈھونڈرہے ہیں...جبکہ عالمِ کُل کے ادیان کسی بھی انسان کا
ناحق خون بہانے کو اپنے اپنے لحاظ سے ممنوع قراردیتے ہیں،میں یہاں صرف اپنے
افضل و اعلیٰ دین اسلام کی تو بات ہی نہیں کررہاہوںمیرادین اسلام توسردارِ
ادیان ہے اِس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور چلنے والے اور اِس کے ماننے والے
کسی اِنسان کا خون کرنااپنے لئے گناہِ عظیم سے بھی بڑھ کرگناہ تصورکرتے ہیں
وہ اِس بنیاد پر کسی بھی مذہب و ملت اور رنگ و نسل اور زبان و سرحد سے تعلق
رکھنے والے کو قتل ہی نہیں کرسکتے ہیں، یوں آج جو لوگ اپنی دہشت گردی سے
میرے ملک میں معصوم انسانوں کو قبرکی آغوش میں دھکیل رہے ہیں یقیناوہ
انسانیت کے دائرہ کار سے خارج ہیں، اوروہ شیطان کے چیلے ہیں، اِن دہشت
گردوں نے، جنہوں نے اپنے گروہ( شیطان )سے نائب خداکو مارنے کا ٹھیکہ لے
رکھاہے، اِن ہی خبیثوں نے ایک بار پھر وادی کوئٹہ کے امن پسند ہزارہ ٹاؤن
کے مکینوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بناکر اِس علاقے کو آہوں اور سسکیوں
کی نظر کردیاہے، ابھی کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن کے نہتے مکین 10جنوری کواپنے
علاقے میں پیش آنے والے واقع اور اِس کے نتیجے میں شہیداور زخمی ہونے والے
اپنے پیاروں کے غم سے نکلنے بھی ناپائے تھے کہ قریب ٹھیک چالیس روزبعد
ہفتہ16فروری کی شام بلوچستان کی اِسی امن و محبت باٹنے والی ہزارہ منگول
برادری پردہشت گردوں نے اپنی اَنااور ضدکی تسکین کے خاطر دہشت گردی کا
نشانہ بناکراِس کے مکینوں پر قیامت صغریٰ برپاکردی،اِس بار دہشت گردوں نے
اِس آبادی کے مکینوں پر800سے ایک ہزارکلوگرام بارودی مواد سے بھرے پانی کے
خالی ٹینکر کاپُرہجوم مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول دھماکہ کیا،جس کے نتیجے میں
95سے زائدمعصوم انسان القمہ اجل بن گئے اور کئی سو زخمی ہوئے اِس دھماکے سے
متاثرہونے والوں میں بڑی تعدادعورتوں اور بچوں کی ہے۔
سولہ فروری کو ہزارہ منگول برادری پر دہشت گردوں کے دھماکے سے متعلق سرکاری
ذرائع کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سولہ فروری کو کوئٹہ ہزارہ منگول
برادری کی آبادی میں واقع مارکیٹ میں ہونے والادھماکہ 10جنوری کو علمدارروڑ
پرپیش آنے والے واقعہ سے کہیں زیادہ بڑااور تباہ کُن ثابت ہواجس کے نتیجے
میں مارکیٹ کی کئی دکانیں اور قریب کے بہت سے مکانات مکمل اور جزوی طورپر
تباہ ہوگئے ہیں جبکہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کہیںزیادہ ہے۔
اگرچہ کوئٹہ کی تاریخ کے اِس المناک سانحہ پر گورنربلوچستان نواب
ذوالفقارعلی مگسی نے عوامی غم وغصے اور اِس کے ردِ عمل پر اِس بات کو کُھلے
دل سے تسلیم کرتے ہوئے کہاہے کہ سولہ فروری کو کوئٹہ میں ہونے والا دھماکہ
یقیناسیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا ہی نتیجہ ہے، اِس
منظراور پس میںکوئی دورائے نہیںہونی چاہیئے کہ اَب جبکہ گورنربلوچستان بھی
یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ سولہ فروری کو ہونے والا دھماکہ سیکورٹی اور
انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے تو پھر اَب سوال یہ پیداہوتاہے
کہ جب یہ ادارے ہی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجائیں تو پھر عوام
کو کون سیکورٹی فراہم کرے گا..؟توکیاپھرعوام یوں ہی دہشت گردوں کے رحم وکرم
پر رہ کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوتے رہیںگے اور شیطان کے چیلے یہ دہشت
گردمعصوم انسانوں کا خون پی کر اپنے جنون اور پاگل پن کی تسکین حاصل کرتے
رہیں گے...میں ایک مرتبہ پھر فوج کو للکاررہاہوں کہ آخرفوج کب حرکت میں آئے
گی...؟اور کب اپنے ملک کے معصوم انسانوں کی حفاظت کے لئے اپنافعال کردار
اداکرے گی...؟اکیا تب یہ متحرک ہوگی جب پوراملک خانہ جنگی اور انارگی کا
شکارہوجائے گا...؟اور سارے ملک میں دہشت گرد وں کا راج ہوگااور وہ دندناتے
پھریں گے...؟کیاتب جب ملک کی سالمیت اور ایٹمی اثاثے خطرے میں ہوں گے....؟اورکیا
یہ دہشت گرد جو اغیار کے آلہ کار ہیں جب یہ ہمار ے سبز ہلالی پرچم کی توقیر
ختم کردیں گے توکیاتب ہماری فوج اِن دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کو آئے گی
...؟میں سمجھتاہوں کہ نہیں ابھی وقت ہے ہماری فوج اپنی قو م اور ملک کو
دہشت گردوں سے بچانے کے لئے اپنافعل کردار اداکرے۔اور ملک اور قوم کو دہشت
گردوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری فوج کو آناچاہئے مگرفوج کو یاد رہے کہ وہ
عوام اور ملک کو توتحفظ فراہم کرنے کے لئے ضرورآئے مگر جمہوریت اور جمہوری
بساط کو پلٹنے اور ملک میں مارشلاءلگانے کے لئے ن آئے۔ |