احمقانہ فیصلے

فرض کریں کہ چند بچے ریل کی دو پٹریوں پر کھیل رہے ہیں، ان پٹریوں میں سے ایک پٹری پرانی ہوچکی ہے اور استعمال نہیں ہوتی، جب کہ دوسری پٹری باقاعدہ ریلوے ٹریک کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ان بچوں میں سے ایک بچہ ایسا ہے جو ناقابلِ استعمال پٹری پر کھیل رہا ہے، جب کہ باقی بچے اس ریلوے ٹریک پر کھیل رہے ہیں، جو آپریشنل ہے۔ اچانک سامنے سے ٹرین آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور آپ اس جگہ کھڑے ہیں جہاں سے کانٹا تبدیل کیا جاتا ہے، آپ کیا کریں گے؟ شاید آپ کانٹا بدل کر ٹرین کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں اور ان بچوں کی جان بچا سکتے ہیں، جو اس ریلوے لائن پر کھیل رہے ہیں، لیکن ایسا کرنے کے لیے آپ کو کانٹا بدل کر ٹرین کا رخ اس لائن کی طرف کرنا ہوگا جو ناکارہ ہو چکی ہے اور جہاں ایک ہی بچہ کھیل رہا ہے، لیکن اس ایکشن کے نتیجے میں اس ایک بچے کی جان ضرور چلی جائے گی۔کیا ایسا کرنا ٹھیک ہوگا؟ کیا بہت سے بچوں کی جان بچانے کی خاطر اس ایک بچے کی جان کی قربانی دینا ٹھیک ہوگا؟ یا پھر ٹرین کو ویسے ہی جانے دینا مناسب ہوگا؟

زیادہ تر لوگ شاید ٹرین کا رخ تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں، تاکہ ایک بچے کی قربانی دے کر بہت سے بچوں کی جان بچائی جا سکے۔آپ بھی شاید ایسا ہی سوچیں اور میں نے بھی جب یہ کہانی پڑھی تو شروع میں ایسا ہی سوچا کہ محض ایک بچے کی جان کے عوض بہت سے بچوں کی جان بچانا ہی دانش مندانہ فیصلہ ہے، جو اخلاقی اور جذباتی اعتبار سے بھی درست ہے، لیکن کیا آپ نے یہ سوچا کہ جس بچے نے اس پرانے ناقابلِ استعمال ٹریک پر کھیلنے کا فیصلہ کیا، اس نے درحقیقت ایک محفوظ جگہ پر کھیلنے کا درست فیصلہ کیا، تاہم اس کے باوجود بھی آپ یہی سوچیں گے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس ایک بچے کی جان کے مقابلے میں ان بچوں کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے، جنہوں نے ”ڈینجر زون “ میں کھیلنے کا فیصلہ کیا۔

اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ہمیں اسی قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے‘ دفتر ہو یا گھر بار‘ سیاست ہو یا نام نہاد جمہوری معاشرہ‘ اکثر اوقات اقلیت کو اکثریت کے مفاد میں قربان کر دیا جاتا ہے، چاہے اقلیت کتنی ہی دور اندیش اور اکثریت کتنی ہی احمق اور جاہل ہو۔

”لیو ویلسکی جولین“ جو اس شان دار حکایت کا خالق ہے، اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ کانٹا تبدیل کرنے والے شخص کی جگہ ہو تو وہ کبھی ٹرین کا رخ تبدیل نہیں کرے گا، کیوں کہ جو بچے اس آپریشنل ٹریک پر کھیل رہے ہیں، انہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ ریلوے لائن استعمال میں رہتی ہے، چناں چہ انہیں ٹرین کی آواز سنتے ہی بھاگ جانا چاہیے اور اگر ٹرین کا رخ تبدیل کردیا جائے تو دوسری طرف وہ بچہ جو اپنے تئیں ایک ناقابلِ استعمال اور محفوظ جگہ پر کھیل رہا تھا، یقیناً مارا جائے گا، کیوں کہ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوگا کہ یہاں سے ٹرین گزر سکتی ہے۔ کانٹا بدلنے میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ اگر ٹرین کو اس ٹریک پر ڈال دیا جائے جو استعمال میں نہیں، تو ممکن ہے کہ ٹرین کے سینکڑوں مسافروں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑجائیں، کیوں کہ یہ ریلوے لائن استعمال میں نہیں اور اسی لیے محفوظ بھی نہیں۔ لہٰذا ایسا نہ ہو کہ ایک بچّے کی قربانی دے کر چند بچوں کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے آپ سینکڑوں مسافروں کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔ پس ثابت ہوا کہ ضروری نہیں کہ جو فیصلہ درست ہو، وہ مقبول بھی ہو اور جو فیصلہ مقبول ہو، وہ ہمیشہ درست ہو۔

میں نے جب یہ کہانی ایک سرکاری افسر کو سنائی اور اُس سے پوچھا کہ ایسی صورت میں وہ کیا کرتا، تو اُس مردِ عاقل نے جواب دیا”یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں… میں اس پوری صورت حال کی ایک سمری تیار کرتا اور اُسے فائل میں لگا کر اوپر بھجوا دیتا۔“میں نے خشمگیں نگاہوں سے اُس افسر کی طرف دیکھا اور پوچھا”جناب والا! اگر آپ کی اس فائل موومنٹ کے دوران ٹرین بچوں کو ہلاک کردے، تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟“ اُس نے بھی جوابی خشمگیں نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بولا ”ایسی صورت میں سرکاری طور پر اُس شخص کو ذمے دار تصور کیا جاتا ہے، جو کم ترین گریڈ پر فائز ہو۔“ موصوف کا جواب چوں کہ مدلّل تھا، لہٰذا میں نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

ایک پڑھے لکھے شخص کو ٹرین والی مثال سنانے کے بعد میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی خاتون کی رائے لی جائے، سو میں نے ببلی کو فون کیا۔ پوری کہانی سنانے کے بعد میں منتظر تھا کہ ببلی اپنی رائے دی گی، لیکن الٹا اُس نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا”پھر کیا ہوا؟“ میں نے چونک کر کہا ”کیا مطلب؟ یہ تو تمہیں بتانا ہے کہ کیا ہونا چاہیے؟“ یہ سن کر ببلی فوراً بولی”اوئی اللہ جی! میں کیا جانوں، پھر کیا ہونا چاہیے… تم یہ سب باتیں چھوڑو اور مجھے بتاؤ کہ تمہارا کوئی دوپٹا پیکو کرنے والا واقف ہے؟ اگر میں نے آج اپنا دوپٹا پیکو نہ کروایا تو میں مرجاؤں گی‘ جس خبیث سے میں دوپٹے پیکو کرواتی تھی وہ…!“ میں نے ببلی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی فون کاٹ دیا، ورنہ دوپٹا پیکو کرانے کی ذمے داری اِس خاکسار کو سونپی جانی تھی۔

آج کل نئے امریکی صدر باراک اوباما کو بھی مشکل فیصلوں کا سامنا ہے‘ مثلاً عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا مسئلہ۔ اوباما چوں کہ الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہماری قوم اس بات پر لڈیاں بھی ڈال چکی ہے، لہٰذا میں انہیں اپنی ”سروسز“ فی سبیل اللہ ”آفر“ کر رہا ہوں، تاکہ انہیں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ گزشتہ بائیس ماہ کے دوران عراق میں تعینات تقریباً 160,000 امریکی فوجیوں میں سے 2112فوجی آپریشن میں ہلاک ہوچکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ عراق میں ”فائر آرم ڈیتھ ریٹ“ لگ بھگ60 فی 100,000 ہے۔ اس کے مقابلے میں خود امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں یہ شرح80.6 فی 100,000ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ امریکی ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں، تو کسی بندوق کی گولی سے آپ کے مرنے امکانات عراق کی نسبت 25 فی صد زیادہ ہیں!

فیصلہ نہایت آسان ہے… امریکا کو محض عراق سے ہی نہیں بلکہ واشنگٹن سے بھی نکل جانا چاہیے۔درست اور بروقت فیصلہ کرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے، لیکن احمقانہ فیصلہ کرنا بھی کچھ اتنا آسان نہیں‘ تاہم اکثر لوگ احمقانہ فیصلے کرنے میں بھی یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سردار جی اپنے گھر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی بیوی ڈرائنگ روم میں رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھی مالک مکان کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہے۔ سردار جی یہ دیکھ کر سخت غصّے میں آئے، مگر اس موقع پر کچھ نہ کہا۔کچھ دنوں بعد جب انہوں نے اس کا ذکر اپنے ایک دوست سے کیا تو اس نے حیرت سے پوچھا کہ ”سردار جی! آپ نے اس مالک مکان یا اپنی بیوی کو کیوں کچھ نہیں کہا؟“ سردار جی نے بے بسی سے جواب دیا کہ ”مالک مکان کو اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کہیں وہ مکان سے نکال باہر نہ کرے اور بیوی کو اس لیے چھوڑ دیا کہ اس سے مجھے بہت محبت ہے۔“ یہ کہہ کر تھوڑی دیر تک سردار جی چپ رہے اور پھر بولے”لیکن میں نے فیصلہ کر لیا ہے‘ اب میں یہ سب مزید برداشت نہیں کروں گا۔“ ان کا غصہ دیکھ کر وہ دوست بولا”پھر آپ کیا کریں گے؟“ سردار جی نے جواب دیا” میں وہ صوفہ ہی اٹھوا دوں گا!“۔

حکومتیں بھی اکثر ایسے ہی ”بروقت اور درست فیصلے“ کرتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ ”صوفہ اٹھوانے“ سے مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن افسوس کہ مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مزید گمبھیر ہوجاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں بھی عموماً ایسے سرداروں کے پاس ہوتی ہیں، جنہیں اپنی”بیوی“ سے بہت محبت ہوتی ہے اور وہ اپنے غیرملکی آقاؤں کے آگے بھی زبان نہیں کھول سکتے!۔

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.