اتحادیوں کو بریک چاہئے

باالآخر توقع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ عین اس وقت حکومت سے علیحدہ ہوگئی جب حکومت کی عمر صرف ایک یا دو ماہ رہ گئی ہے۔اطلاع ہے کہ 16مارچ تک اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی۔اس صورتحال میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مبارکباد کی قابل ہیں کہ پانچ سال تک قوم کو بغیر کچھ دیئے حکومت کرنے کے بعد اب آئندہ کی حکمرانی سے قبل نگراں دور میں بھی ”پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں“ میں رکھنے کا مشترکہ اور متفقہ فیصلے پر عمل درامد شروع کردیا ہے۔

اس بار متحدہ کی ناراضگی لیاری گینگ وار کے ملزمان کے خلاف مقد مات کی واپسی کے مسلے پر ہوئی ۔ فوری طور پر متحدہ نے جمعرات کو سندھ اسمبلی کے اس اہم اجلاس کا بائیکاٹ کیا جس میں آئی جی سندہ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے بارے ان کیمرہ بریفنگ دے رہے تھے ۔ متحدہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں آئی جی کی گزارشات ہوا مین اڑ گئی جبکہ متحدہ کی عدم موجودگی کے باوجود پیپلز پارٹی کے اراکین نے پولیس افسران سے عوامی نمائندوں کی حیثیت سے جرح نہیں کی اس طرح امن وامان کی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے یہ اسمبلی کے اندر طے نہیں ہوسکا جبکہ عدالت امن و امان کا ذمہ دار پہلے ہی تینوں جماعتوں پیپلز پارٹی ، اے این پی اور متحدہ کو قرار دے چکی ہے۔شائد یہ ہی وجہ ہے کہ اس اہم ایشو پر اراکین اسمبلی کی وہ دلچسپی نظر نہیں آئی جو آنی چاہیے تھی۔

اب کوئی کچھ بھی کہے اور کسی وجہ سے کچھ بھی سوچے لیکن میری نظر میں اب دراصل جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے سلسلے کا ان جمہوریت کی دعویدار پارٹیوں نے آغاز کردیا ہے۔ابتدائی طور پر ان کی خواہش یہ ہی ہے کہ کسی بھی طور پر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہوجائے ۔انتخابات میں تاخیر کے نتیجے میں پیپلز پارٹی جو اب اصل میں زرداری اوران کے خاندان کی میراث بن چکی ہے کوفوری فائدہ ہوگا۔زرداری اور ان کے ساتھیوں کی یہ بھی خوش فہمی ہے کہ وہ حالات کا بہانہ بناکر موجودہ حکومت یا پھر نگراں حکومت کو طوالت دے سکیں گے جس کی مدت دو ڈھائی سال تک بھی ہوسکتی ہے ۔

امن و امان کی صورتحال تو اس جمہوری دور میں کبھی بھی بہتر رہی ہی نہیں لیکن آج یعنی 16 فروری سے کوئٹہ اور کراچی میں جودہشت گردی کی لہر آئی ہے وہ وہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا، یعنی امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بناکر انتخابات کا التوا۔ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد حکومتی اقدامات سے پوری طرح واقف تھے یا پھر حکومتی پارٹیوں کے لوگ ان میں شامل ہیں ۔ جیسے ہی متحدہ نے کراچی میں پریس کانفرنس اور اس میں اہم اعلان کا عندیہ دیا اس کے کچھ دیر بعد ہی کوئٹہ میں دھماکہ ہوا جس میں 69سے زائد افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔کراچی کی صورتحال تو مسلسل خراب ہی چلی آرہی ۔ لیکن متحدہ کی جانب سے حکومت سے علیحدگی کی اطلاع اور کوئٹہ کے واقعہ کے بعد صرف کراچی میں چند گھنٹوں میں مزید نو افراد اپنی جانوں سے چلے گئے۔جبکہ جمعہ کو دہشت گردوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 16تھی جن میں ایک دلہا بھی شامل تھا۔

کوئٹہ میں گزشتہ ماہ 82افراد دہشت گردی کا شکارہوگئے تھے جس کے بعد بلوچستان کی حکومت کو معطل کرکے وہاں گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔

دہشت گردی کے خوف میں مبتلا قوم کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے شائد ہی کوئی غرض ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ پوری قوم سیاست دانوں خصوصاََ موجودہ حکومت کے اتحادیوں سے بیزار آچکی ہے۔ عام لوگوں کو سیاست دانوں اور ایسی جمہوریت سے اب کوئی لگاﺅ نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کرپشن ،لاقانونیت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی اصل وجہ جمہوریت ہے تو ہمیں ایسی جمہوریت سے کوئی غرض نہیں ہے۔
بہرحال متحدہ اور پیپلز پارٹی میں ہونے والی تازہ دوریاں اگرلوگوں کے خیال میں کوئی نورا کشتی یا ٹوپی ڈرامہ نہیں ہے تو پھر متحدہ کو چاہئے کہ اپنے گورنر سے بھی فوری استعفیٰ لیکر انہیں 90 یا لندن بلوالے۔بصورت دیگر لوگوں کا خیال غلط نہیں ہوگا۔

متحدہ اور پیپلز پارٹی دونوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ آئندہ انتخابات تک اور اس کے بعد بھی” آف دی ریکارڈ “اتحادی رہیں ۔لیکن اس معاملے میں پیپلز پارٹی سے زیادہ متحدہ مجبور اور بے بس نظر آتی ہے۔انتخابات ہونے کی صورت میں (جس کے امکانات کم ہیں ) پیپلز پارٹی اور متحدہ کو ہدف کے مطابق نشستیں ملنے کو کوئی امکان نہیں ہے۔ اگرچہ ہر پارٹی کی طرح متحدہ کا بھی یہ ہی دعویٰ ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کریگی۔متحدہ کو سیٹیں اسی صورت میں مل سکتی ہیں جب مذکورہ دونوں جماعتیں حقیقی طور پر جد ا ہوجائیں۔اسی طرح کراچی کی لیاری اور اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی کو اسی صورت میں کامیابی حاصل ہوگی کہ وہ اپنے لوگوں او رقوم پرستوں خصوصاََ بلوچوں اور سندھیوں کو یہ یقین دلائے کہ اس کا متحدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کے باوجود دونوں جماعتوں کے سامنے لوگ یہ بھی سوال رکھیں گے کہ وہ کن وجوہات کی بناءپر ان کو ووٹ دیں؟اورکیوں انہیں کامیاب کرائے؟ کیونکہ اس پانچ سال کے دوران عام لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملا ، سکون بھی نہیں۔ اگرمتحدہ اچانک ،مہاجر پرستی پر اتر آئے تب بھی متحدہ پر عام لوگوں کا اعتماد کرنا مشکل ہے۔دوسری طرف اس بار کسی بھی جماعت کی طرف سے طاقت کا استعمال بھی خطرناک بلکہ تقریباََ ناممکن ہے۔کیونکہ یہ بات طے کی جاچکی ہے کہ انتخابات کے دوران فوج موجود ہوگی ۔اس کے باوجود کسی جانب سے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں ۔ایسی صورت میں بھی وقتی طور پر ہی سہی فوج کو اقتدار سنبھالنے کا موقع مل سکتا ہے۔فوج اقتدار میں آئی تو اس کے ذمہ دار بھی یہ ہی جمہوریت پسند ہونگے۔

پانچ سال تک جیسے تیسے اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کی ترجیحات یہ ہی ہوسکتی ہے کہ انہیں کچھ عرصہ آرام کرنے یا اپنے داغوں کو دھونے کے لیے ” بریک “ ملنا چاہئے۔جس کی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ انہیں ” بریک“ چاہئے۔اگر انہیں بریک نہ ملا تو ان کے برسٹ ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165878 views I'm Journalist. .. View More