سچائیاں

سیاسی جماعتوں کے مختلف نظریات ہیں اور وہ اپنی نظریات کے تحت اپنی اپنی جماعت کو آگے کی طرف بڑھانے کی جستجو میں محو ہیں۔ یہ جماعتیں سیاسی نظریات کی ہی مرہونِ منت ہوتی ہیں ورنہ تو جب اپنے مقاصد کو پورا کرنا ہوتا ہے تو یہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کو بھول جاتی ہیں ۔ چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرتی ہیں اور پھر جب وقت کے ساتھ انہیں اور سہارا بھی میسر آ جاتا ہے تو چھوٹی جماعتوں کو دھوکہ دے جاتی ہیں۔ پھر بھی اگر ایسی پارٹیوں کا پیٹ نہیں بھرتا تو وہ اپنے حد درجہ دشمن پارٹی سے بھی گٹھ جوڑ کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتیںہیں۔ اس لئے سیاسی پارٹیوں کو ایک خالص اور جامع پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل پیرا ہونا چاہیئے ، اپنی سیاسی سوچ اور سیاسی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانی چاہیئے ۔ جمہوریت ، جمہوریت کی رَٹ لگانے والوں کو جمہوریت میں انصاف کا مذاق نہیں اڑانا چاہیئے کیونکہ آپ ہی اگر مذاق کا نشانہ بنائیں گے تو عوام کے لبوں پر جنبش تک نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اپنا وقت پڑے تو تمام جمہوری اصول اور قوانین کو بالائے تاق رکھ دیئے جائیں اور پھر ضرورت پڑے تو جمہوریت کو اوڑھنا بنا لیا جائے ۔ کیا آپ اس بات سے متفق نہیں کہ اپنے ہی ملک میں شہریوں کا قتلِ عام ہونے اور فرقہ پرستی کو کھلے عام فروغ پانے اور بدعنوانی جیسے جرائم میں ملوث پائے جانے والے افراد ملک دشمن عناصر میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ آج کوئٹہ سے لیکر خیبر تک لوگ لاشوں سمیت احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ احتجاج کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے کہ لوگ لاشوں کو دفنانے کے بجائے لاشوں کے ساتھ دھرنے دے رہے ہیں۔
اگر نافذ انصاف کا یہاں دستور ہو جائے
سارے شہر کی شام پھر پُر نور ہو جائے
گلی کوچوں سے منافقت تمام چھٹ جائیں
امن و امان ، سکون عوام کو راس آجائے

آج کے اس تیز رفتار دور میں کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں ملکی حالات کس نہج پر کھڑا ہے۔ امن و امان میسر نہیں، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے ، آج صرف دال ہی لینے دکان پر جائیں تو اس کا ریٹ سو روپئے فی کلوسے بھی زیادہ ہے۔ غریب کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام مزدور طبقہ افراد ہوٹلوں میں دوپہر کو دال اور روٹی ہی کھایا کرتے ہیں مگر اب دال بھی ان کے لئے نعمت سے کم نہیں اگر میسر آجائے۔ پیٹرول بھی ایک سو تین روپئے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔جب سے سپریم کورٹ نے سی این جی کی قیمت کی ہے اُس دن سے آج تک لوگوں کو سی این جی بمشکل ہی مل رہی ہے، کبھی مالکان فروخت نہیں کرتے کبھی سی این جی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہوتی ہے اور کبھی ہرتال کی وجہ سے یہ ناپید رہتی ہے ایسے میں عوام کہاں جائیں کس سے داد رسی چاہیں۔ٹارگٹ کلنگ کی وبا ءایسے پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ بحالتِ مجبور روزی روٹی کے لئے ہی گھر سے نکلنے کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ تو گھر میں بیٹھنے کو ہی اپنے لئے عافیت سمجھتے ہیں۔ بجلی کا بحران اپنی جگہ الگ عوام کو پریشانی میں مبتلا کئے رکھتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں کہیں ساڑھے سات گھنٹے اور کہیں ساڑھے چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ (وہ بھی اس سرد موسم میں) نے عوام کو بے چین کر رکھا ہے اور یہ بے چینی اُس وقت اپنے حدوں کو چھونے لگتا ہے جب بجلی کا بل ان کی نظروں کے سامنے آتا ہے۔

پاکستان کثیر الفرقہ ملک کا سنگم کہلاتا ہے ہر شخص کو یہاں مکمل اظہارِ رائے کا اختیار ہے۔ شرط یہ ہے کہ کسی کے نظریے اور عقائد کو ٹھیس نہ پہنچے جو بھی فرد اس کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا اسے سزاﺅں سے دوچار ہونا چاہیئے۔ لیکن توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں فرقہ پرستی اور قتل و غارت گری نے انسانیت کی ساری حدوں کو پار کر لیا ہے ۔وہ عناصر جو اس ملک میں امن و امان کی خواہش نہیں رکھتے ایسے شرمناک کھیل رہے ہیں کہ جس کی امید کسی انسان سے نہیں کی جا سکتی ۔ حکومت آخر کیوں کاروائی عمل میں نہیں لاتی۔ آخر وہ کون سی چیز ہے جو اس کے خلاف کاروائی کرنے روک رہی ہے؟کوئٹہ شہر میں لاشوں کے انبار لگ چکے ہیں اور شہرِ کراچی میں روزآنہ بیس بیس لاشیں گِر رہی ہیں ،اب بھی حکومت کس کے انتظار میں ہے ، کیا کوئی اور ایکشن لینے سامنے آئے گا۔ کیا یہی عدل و انصاف کا طریقہ ہے ۔پڑوسی ملک میں بال ٹھاکرے کی موت پر Facebookپر تبصرہ کرنے والی شاہین دھادا اور رینو شری نیواسن کو صرف تبصرہ کرنے پر گرفتار کیا گیا بیشک بعد میں چھوڑ دیا گیا مگر گرفتاری عمل میں لائی گئی، اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ تبصرہ کرنے والیوں نے کسی کی دل آزاری کی ہوگی تب ہی گرفتاری عمل میں آئی مگر ہمارے یہاں لاشوں کے انبار لگنے پر بھی کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا جاتا ۔

ہمارے یہاں کے اکثر لیڈران نے پاکستان کی سیاسی حیثیت کو داغدار بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے یہ ملک سیاسی تاریخ کی حیثیت سے بہت اعلیٰ مقام رکھنے والا ملک ہے اور کسی ملک کو عالمی سطح پر اعلیٰ مقام پر پہنچانا یا نیچے گرانا سیاسی لیڈروں کی سیاست پر ہی منحصر ہے۔ جیسی سیاست ہوگی عالمی سطح پر ویسا ہی مقام حاصل ہوگا۔ اس لئے پاکستان کے عوام اب ایسے لیڈروں سے دور رہنا چاہتے ہیں جو ملک و قوم کو ترقی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور عالمی سطح پر ملک کو اپنے بد ترین عمل سے بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لیڈروں سے عوام کو ہوشیار رہنا چاہیئے تاکہ عوام دھوکا نہ کھا سکیں۔ اسی لئے آج عوام قادری صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کو اچھائی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور سپریم کورٹ سے پُر امید ہیں کہ کچھ اچھا فیصلہ ضرور سامنے آئے گا۔ کچھ سیاسی اکھاڑے اپنی گمراہ سیاست کے ذریعے عوام کو ورغلایا بھی ، یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی سیاست کس کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ، اس میں کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے۔ البتہ اب ملک کے ہر شہری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی ایسی سیاست اور سازشوں کو ہر شخص سمجھ چکا ہے۔ ان کی حقیقت سے ہر شہری آگاہ ہو چکا ہے۔ اور ووٹ کے ہتھیار کو استعمال کرکے ایسی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

وقت کے دھارے میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ شاید پچھلے ساٹھ پینسٹھ برسوں میں اس سے زیادہ بد ترین دور کبھی بھی پاکستان پر نہیں آیا ہوگا۔ بحرانی کیفیت کو دیکھا جائے تو کبھی آٹے کا بحران، عدلیہ کا بحران، لوڈ شیڈنگ کا بحران، بے روزگاری کا بحران، امن و امان کا بحران ، یہ مختلف النوع بحران تو اپنی شدت اور برائیوں کی وجہ سے نمایاں ہو چکا ہے۔ پاکستان پوری دنیا میں ایک زرعی ملک مشہور ہے مگر پھر بھی اپنے عوام کو کھانے کے لئے آٹا میسر نہیں کر سکا۔ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود یہاں کے عوام بے پناہ مسائل سے دوچار ہیں۔ جرائم کا نہ رکنے والا سیلاب اس ملک میں آپ کو ملے گا جس پر کوئی خاطر خواہ کاروائی عمل میں نہ لانے کی وجہ سے جرائم کی شدت میں روز بروز اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ منٹوں میں بینکوں کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں کے گھروں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ ایسے تمام تحائف یقینا پاکستانی قوم کو اس سے پہلے کبھی نہیں ملے ہونگے۔ گمان یہ ہے کہ تمام مسائل نئی حکومت کے لئے رکھ دیئے گئے ہیں ، کیا نئی آنے والی حکومت ان مسائل کے گرداب سے پاکستان کے عوام کو نکال سکے گی؟انتظار کیجئے کیونکہ ہم بھی اس انتظار میں لائین میں آپ کے ساتھ لائین میں کھڑے ہیں۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.