افضل کی پھانسی بنی حکومت کے گلے کا پھندا

مرکز کی یوپی اے حکومت اپنی مدت ِکار ختم کر تے کرتے ایک سے ایک عجیب اور ناقابل فراموش کارنامے انجام دیتی جارہی ہے ۔کچھ اس کے اپنے کرتوت ہیں اور کچھ اس کے کرتوتوں کا پھل ۔ایک مصیبت سے اس کا پیچھا نہیں چھوٹتا ہے کہ دوسری پیش آجاتی ہے جس سے وہ پوری طرح بوکھلا جاتی ہے اور اپوزیشن اس کا محاسبہ کر کے ناطقہ بند کردیتی ہے۔یوپی اے IIاپنے پہلے دن سے ہی اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ ابھی تک ایک گھپلے کے بعد اٹھنے والے ہنگاموں کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں کہ پھر کو ئی اور مصیبت گلے پڑی گئی جو اس سے پہلی سے زیادہ پریشان کن ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں ’’وی وی آئی پی ہیلی کاپڑ ڈیلنگ ‘‘معاملے نے حکومت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں‘پھر جب خدا خدا کر کے یہ معاملہ ذرا سرد ہونے کو ہے تو ایک مظلوم کی آہوں نے پھر حکومت کی نیندیں اڑادی ہیں۔

کو ئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ افضل گر و‘جسے انتہا ئی راز داری اور خفیہ طور پر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا اور حکومت بگلیں بجانے لگی کہ ہم نے ایک ملک دشمن عنصر بلکہ دہشت گر دی کے ماسٹر ماینڈ کو ختم کر دیا۔اس کی مظلوم موت اور مظلوم لہو ایساہنگا مہ کھڑا کر ے گا کہ بدعنوانی کی آلودگیوں میں گر دن گر دن غرق حکومت پر یشان ہو جا ئے گی اور یہ پھانسی خود اسی کے گلے کی ہڈی بن جا ئے گی ۔مگر کسی کے کہنے سے یا سو چنے سے کیا ہوتا ہے ‘ہوتا یہ ہے کہ مظلوم کی آہیں فلک تک جاتی ہیں اور عرش الٰہی کو ہلا کر اپنے لیے انصاف مانگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے آج نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی حکومت پر تھو تھو کر رہے ہیں اور اس کی غلط پالیسیوں سے تنگ آکر دیس نکالا دینے کی مانگ کررہے ہیں۔

میں افضل گر و کا حامی یا ہم نوا نہیں ہوں ‘بلکہ عام ہندوستانیوں کی طرح حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کر تا ہوں مگر جس طریقے اور بے رحمی سے حکومت نے یہ انتہا ئی قدم اٹھا یا ہے اس کی بھر پور مذمت کر تا ہوں ۔ایسا طریقہ نہ صرف حقوق انسانیت کے منافی ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ‘جس نے یہ دنیا اور یہ کائنات سجائی ہے ‘ان کے فرامین کے بھی خلاف ہے ۔ہم مانتے ہیں کہ افضل گرو ایک انسانیت دشمن شخص کا نام ہے اوراب اس کا خاتمہ ہو گیا مگر حکومت کا رویہ دیکھیے جس نے تما متر انسانی حقوق کو ٹھکراتے ہو ئے نماز جنازہ اور اسلامی طریقے سے تدفین کے لیے اس کی لاش تک دینے سے انکار کر دیا ۔حکومت کی یہ ضد مذہب اور اسلامی اقدارکی آزادی پر کھلی قدغن ہے ۔گویا حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ہماری نگاہ میں مسلمان‘ اسلامی قوانین ‘اصول اور طریقے کو ئی معنا نہیں رکھتے ‘بلکہ ہوگا وہی جو ہم چا ہیں گے۔پھر یہ ملک جمہوری اور سیکولر کیسے ہو گیا ‘یہاں تو مذاہب کی تو ہین کی جارہی ہے ‘توہین کر نے والوں کو تحفظ دیا جارہا ہے اور اپنے ہی ملک کے شہریوں سے دوہرا سلوک کیا جا رہا ہے ۔

جس وقت میں یہ تحریر سپرد قرطاس کر رہا ہوں ‘میرے سامنے ایک نیوز ہے ۔جس میں لکھا ہے کہ کر ناٹک کے خونخوار ڈاکو ویرپن کے ساتھیوں کی پھانسی پر روک لگا دی گئی ہے حالانکہ‘صدر جمہوریہ نے ان کی رحم کی اپیل مسترد کر کے پھانسی کے احکامات بھی دیدیے مگر اس پر عمل درآمد کر نے کے بجائے عدالت پھانسی رکوانے کی تگ و دو میں مصروف ہے اور کسی چھوٹی سے چھوٹی شق کو بھی نظر انداز نہیں کر رہی ‘ہو سکتا ہے اس سے پھانسی کی سزا ختم ہو جا ئے ۔اس خبر کے ذریعے حکومت اور عدلیہ کا دوغلا پن ‘دوالگ الگ قانون ‘دو ہرا رویہ صاف جھلکتا ہے۔ افضل گرو مسلمان تھا سو ثبوت ناتمام ہوتے ہو ئے بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘ویرپن کے ساتھی ’’ہندو‘‘ہیں لہٰذا ایک ایک شق پر غور کیا جا رہا ہے اور ان 22افراد کے قاتلوں کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔

کسی جمہوری اور سیکولر ملک کے عوام پر جب حملے ہوتے ہیں ‘ان کے کلچر ‘مذہب‘ ناموس ‘ آبرو ‘جان ‘مال اور وقار پر آنچ آتی ہے تو ان کا آخری سہارا حکومت اور عدلیہ ہوتی ہیں ‘مگر کتنے دکھ اور افسوس سے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان دونوں سے محروم ہیں ‘نہ حکومت انھیں تحفظ دیتی ہے اور نہ عدلیہ ان کی پشت پنا ہی کر تی ہے بلکہ دونوں آنکھ بند کر کے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ ناانصافیوں پر ناانصافیاں کر رہی ہیں ۔افضل گر و کے اہل خانہ بلکہ پورا کشمیر اب تک پر امید تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کی لاش یہاں آئے گی اور وہ اسلامی طریقے اس کی نماز جناز ہ پڑھ کر دفنا دیں گے  مگر اس وقت تما متر امید یں دم توڑ گئیں جب حکومت نے لاش دینے سے صاف انکار کر دیا اور مسلمانوں کو بتا دیا کہ تمہاری باتیں صرف سنی جاسکتی ہیں ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔

مجھے حیرت ہوتی ہے حکومت کی اس جسارت پر کہ جب لوک سبھا الیکشن یا عام انتخابات عین سر پر آگئے ‘ایسے وقت میں حکومت کو اپنی آیندہ معیاد کے ملک میں پرامن فضا مہیا کر نے کی کوششیں کرنی چا ہئیں ‘حالانکہ یہ اس کا پہلے دن سے ہی فرض تھا مگر اب سہی ‘لیکن وہ تو زخم پہ زخم دیتی ہی جا رہی ہے اور ایک سے ایک گہرا ہے ۔اسے ذرا بھی احساس نہیں کہ اس کی شبیہ بالکل خراب ہو چکی ہے جسے درست کر نے کے لیے اب اس کے پاس صرف چند ماہ ہیں۔حکومت کو اپنی تباہی اور آنے والے طوفان سے بالکل خوف نہیں ہے ۔واہ بھی واہ مردانگی ہو تو ایسی ‘ دو سر ے لفظوں میں حکومت کہنا چاہتی ہے کہ اپنی موت کے دن بھی اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کر سکتی اور اپنے پاپوں کی معافی نہیں مانگ سکتی۔وہ70 لاشوں پر بیٹھ کر بھی وائلن بجا سکتی ہے‘وہ اتنی پتھر دل ہو چکی ہے کہ بڑا سے بڑا حادثہ‘سانحہ‘اور بات اس کے لیے معمولی سے بھی کم تر ہے۔

یہ میری نہیں بلکہ عام دنیا کی را ئے ہے کہ ایسا طریقہ صرف جمہوریۂ ہند میں ہی نظرآسکتا‘جہاں حکومت عوام کی نہیں بلکہ حکمرانوں کی ہوتی ہے اور فیصلے عوامی رائے سے نہیں بلکہ من مانیوں اور ہٹ دھرمیوں سے طے ہوتے ہیں پھر انھیں بے بس عوام پر زبردستی لاد دیا جاتا ہے۔یوپی اے دو نے اپنے پہلے دن سے عوام کش فیصلوں ‘عوام مخالف اسکیموں اور عوام دشمن منصوبوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا تھا جو اس کے دو ر میں بھی جاری رہا اور اس کے بعد جو بھی حکومت بنے گی عوام کو نجات کی امید نہیں ہے۔بالخصوص مسلمانوں کی تر قی ‘وقار ‘عزت ‘جان ‘مال آبرو پر اس حکومت نے اتنی بری طرح حملہ کیا کہ انھیں کہیں جائے پنا نہیں مل رہی ‘وہ حکومت سے لوہا بھی نہیں لے سکتے ‘انھیں ملک عزیز ہے لہٰذا صبر کر کے رہ جاتے ہیں اور صبر روح کو اندر تک سے کاٹ دیتا ہے۔یعنی جیتے جیتے جی مار دیتا ہے ‘باالفاظ دیگر ہندوستانی مسلمان چلتی پھرتی لاشیں ہیں جن کی رو حیں حکومت نے غصب کر لی ہیں ۔

احساس
مجھے حیرت ہوتی ہے حکومت کی اس جسارت پر کہ جب لوک سبھا الیکشن یا عام انتخابات عین سر پر آگئے ‘ایسے وقت میں حکومت کو اپنی آیندہ معیاد کے ملک میں پرامن فضا مہیا کر نے کی کوششیں کرنی چا ہئیں ‘حالانکہ یہ اس کا پہلے دن سے ہی فرض تھا مگر اب سہی ‘لیکن وہ تو زخم پہ زخم دیتی ہی جا رہی ہے اور ایک سے ایک گہرا ہے ۔اسے ذرا بھی احساس نہیں کہ اس کی شبیہ بالکل خراب ہو چکی ہے جسے درست کر نے کے لیے اب اس کے پاس صرف چند ماہ ہیں۔حکومت کو اپنی تباہی اور آنے والے طوفان سے بالکل خوف نہیں ہے ۔واہ بھی واہ مردانگی ہو تو ایسی ‘ دو سر ے لفظوں میں حکومت کہنا چاہتی ہے کہ اپنی موت کے دن بھی اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کر سکتی اور اپنے پاپوں کی معافی نہیں مانگ سکتی۔وہ70 لاشوں پر بیٹھ کر بھی وائلن بجا سکتی ہے‘وہ اتنی پتھر دل ہو چکی ہے کہ بڑا سے بڑا حادثہ‘سانحہ‘اور بات اس کے لیے معمولی سے بھی کم تر ہے۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62400 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More