حالیہ دنوں میں معاشرے کی
صورتحال ناگفتہ با لگتا ہے۔ معاشرے میں جس تیز رفتاری سے جرائم کی شرح میں
اضافہ ہوا ہے وہ نہ صرف ملک کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے بلکہ اقتدار
والوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ ہر روز ایک نئی شکل کے ساتھ یہ جرائم
پُر امن معاشرے کو متعفن کر رہا ہے۔ انسانیت سوز واقعات سے اخبارات بھرے
پڑے ہیں۔ کبھی اسمگلنگ اور بدعنوانی جیسے مذموم مسائل قومی لیڈروں کے سامنے
اپنا منہ کھولے کھڑا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سارے ادارے ان کو روکنے اور
جرائم پیشہ لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغن لگانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
لیڈران اور عدالتیں بھی اس جانب توجہ مبذول کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود
جرائم رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور جرائم کے مرتکبین دندناتے پھر رہے
ہیں۔ اور ان کی کارستانیاں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ ان تمام کوششوں
کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ادارے ان شرپسندوں کے سامنے بے بس ہیں۔
معاشرے سے ایسے قدغن لگانے والے افراد کا خاتمہ کرنے کی سعی اور جرائم کو
روکنے کی ابتدا کا فیصلہ اس دہکتی ہوئی آگ کے مانند ہے جس کے ایک طرف سے
پیٹرول کا چھڑکاﺅ کیا جائے تو دوسری طرف سے پھونک مار کر اسے بجھانے کی سعی
لا حاصل کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان جرائم کی جڑوں کا تدارک کیا
جاتا اور دیکھا جاتا کہ آخر ان کے اسباب کیا ہیں، اور کیوں ہیںجہاں سے روز
مرہ کے یہ جرائم پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومت کی عوام کی طرف سے بے لگاﺅ ہونا
اور جرائم کی طرف سے چشم پوشی سے دہشت گردوں کے حوصلے اب بڑھتے ہی جا رہے
ہیں،اور ان اسباب ہی کو اکھاڑ کر پھینکا جاتا کیونکہ اگر ایک ڈاکٹر مرض کے
اسباب کا تعین کئے بغیر مریض کو دوا دے دے تو بھلے ہی کچھ دیر کے لئے مریض
کو راحت مل جائے گی مگر بیماری کی ایک نئی شکل ابھر کر سامنے آجائے گی۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشاں ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
ہمارا ملک سب سے زیادہ جس آزار میں مبتلا ہے وہ دہشت گردی ہی ہے جس کی وجہ
سے کوئی بھی غیر ملکی ہمارے ملک میں آنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ اگر کوئی
شخص ایسا سوچ سکتا ہے تو سرمایہ کاری کرنے والے کیوں نہ سوچتے ہونگے۔ اس
لئے سرمایہ کاری بھی ہمارے یہاں بہت ہے جس کی وجہ سے معیشت پر بوجھ بھی پڑ
رہا ہے۔ اس مہلک جرثومہ دہشت گردی کو پاکستان سے ختم کرنا ہوگا کہ جس کی
وجہ سے سب سے بڑا مسئلہ امن و امان دگر گوں ہے۔
ویسے بھی آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے لافانی انقلاب نے اس قسم کے جرائم کا
دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں ملٹی میڈیا اور وائی
فائی موبائل نے انہیں قبل از وقت ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رنجہ کر دیا ہے
اور یہ بچے اپنی کم سنی میں ہی ان تمام باتوں کا ادراک کرنے اور ان احساسات
سے لطف اندوز ہونے لگے ہیں جو ان کے اذہان و اعصاب کے لئے بہت زیادہ مضر ہے۔
موبائل کے اندر موجود ناقابلِ دید عریاں اور بوس کنار پر مبنی فلمیں اور
ہیجان انگیز مناظر سادہ لوح بچوں کے خوابیدہ خیالات کو برانگیختہ کر دیتے
ہیں جس کے بھیانک نتائج معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا نے جہاں دنیا کو
برق رفتاری کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرنے کے قابلِ دید بنا دیا ہے اور بہت
ساری جدید ٹیکنالوجی سے روشناش کرایا ہے وہیں اس نے صاف شفاف اور پُر امن
معاشرے کو متعفن کرنے اور ناجائز جنسی تعلقات جیسے انسانیت سوز جرائم کی
آما جگاہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایسے ایسے ڈرامے آن ایئر کئے جا
رہے ہیں اور ایسے ایسے موزیکل پروگرام دکھائے جا رہے ہیں جس سے فحش و
عریانیت فروغ پا رہا ہے۔ ایسے ایسے اشتہار دکھائے اور چوراہوں پر لگائے جا
رہے ہیں جن کا تعلق قطعی طور پر عورتوں سے نہیں ہوتا مگر اُس میں بھی عورت
کو دکھایا جانا ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔ ایسے پروگراموں سے اگر اجتناب نہ
کیا گیا تو یہ بات آنے والے دنوں میں واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ اس کی
وجہ سے خاندانی و موروثی وقار اور ماحول کے صدیوں پرانی اقدار کو بھسم کرنے
میں کافی بڑا کردار ادا ہو سکتا ہے۔ انٹر نیٹ گو کہ معلومات کا بحر ذخائر
ہے اور اس سے علم کے خواہاں لوگوں کو ضرور فائدہ ہو رہا ہے اور اس بات سے
کسی کو انکار بھی نہیں ہو سکتالیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر معلومات اور
خبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ارسال و ترسیل کرنے کے علاوہ بھی بہت سے
پہلو ایسے ہیں جس سے جرائم کے نِت نئے طریقے سمجھنے میں آسانیاں بہم
پہنچائی جا رہی ہیں۔ فحاشی کو فروغ دیا جا رہا ہے، بے ہودہ اور جنسی فلمیں
بھاری مقدار میں موجود ہیں جس سے نوجوان نسل تباہی کے دہانے کی طرف جا رہی
ہے ۔ غرض کہ ایسی ایسی خرافات موجود ہیں جو چند سال پہلے تصور انسانی سے
بالاتر تھی۔ حکومت کو ایسے سائٹس کو بھی گوگل کی طرح بلاک کر دینا چاہیئے
تاکہ معاشرے کو سنبھلنے اور خوشحال رہنے میں مدد مل سکے۔
اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کا شدید سامنا ہے اور کہیں بھی، کسی بھی وقت،
کسی بھی لمحہ کوئی بھی دھماکہ، کلنگ، دستی بم حملہ ہو جاتا ہے جس سے بے
گناہ جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد دیگر بنیادی ضروری مسائل ہیں جن
کی طرف بھی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے بھی عوام حکومتوں
سے خائف ہیں، جیسا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی،
بیروزگاری، غربت، مہنگی تعلیم، یہ تمام مسائل فوری توجہ طلب اور حل طلب ہیں
مگر کون عوام کی طرف دیکھتا ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام مسائل کے
ہر حرف اور لفظ کا مطلب ہی بھول چکے ہیں ۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی
عوام ان سب مسائل اور امن و امان کو ترس رہے ہیں۔اور ان کا کوئی پُرسانِ
حال نہیں۔میڈیا کہتا ہے کہ کرپشن کا بازار گرم ہے ، حکمرانوں نے ووٹ خریدنے
کے لئے کھربوں روپے کمائے ہیں اب ووٹر کی قیمت اچھی لگنے کی امید ہو چلی ہے۔
جبکہ حکومت ان تمام کرپشن کیسوں کو جھوٹ کا پلندہ کہہ رہی ہے۔ جبکہ عوام
اچھی طرح جانتی ہے کہ انہیں کیا ملا ہے۔ انہیں بجائے روزگارکے، لوڈ شیڈنگ
کے خاتمہ کے، امن و امان کے ملا تو بے روزگاری، بدامنی، کرپشن، اقربا پروری،
بیڈ گورننس، کرپٹ افسران و انتظامیہ، مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت،
ڈرون حملے، خود کش دھماکے، عریانی و فحاشی کا بڑھتا ہوا سیلاب۔
یہ مانا کہ زندگی ایک امتحان ہے، آزمائش ہے، قدم قدم پر نتِ نئی دشواریاں
ہیں، ہر موڑ پر ہمیں زندگی سے کھیلنے والے ملیں گے ۔ عرضِ وطن میں روز
ہزاروں قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، ہم ان پر گفتگو بھی کرتے ہیں، تبادلہ
خیال بھی کرتے ہیں اور آخر میں اپنی اپنی ذہانتوں کے حساب سے رائے بھی قائم
کر لیتے ہیں۔ سیاسی قہر انسانوں کی آزادی سلب کر لیتے ہیں، بلکہ قلم پر بھی
پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں گفتگو کیا اشاروں کی زبان میں ہوگی۔ یہ
صورتحال نہ صرف ہماری سیاست کی ہے بلکہ ہماری ذات کی بھی ہے۔ میں صرف اتنا
ہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیئے اور اس فیصلے میں
معیار کا تعین ضرور کریں تاکہ ہماری ذات کو بھی فائدہ پہنچے اور ساتھ ہی
ملک اور عوام کا بھی بھلا ہو۔ اور یہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب ہم سب اپنی
سوچ کو تبدیل کریں گے ، ایک اچھی اور نئی سوچ، ایک اچھا انسان اور ایک اچھا
معاشرہ مل کر ہی ایک اچھے ملک کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ |