مثبت اقدام کا وعدہ، تیرا وعدہ

ہمارے لئے یہ کوئی خوش کن بات نہیں ہے کہ ہندستان کی مسلم اقلیت شدَّت کے ساتھ محسوس کرنے لگی ہے کہ کانگریس ان کے دیرینہ مسائل کے حل پر متوجہ نہیں ہے اور محترمہ سونیا گاندھی کی قیادت میں یوپی اے نے جو وعدے کئے تھے ان پر عملدرامد نہیں ہورہا ہے۔ دھولیہ میںمہاراشٹرا پولیس کی ظالمانہ فائرنگ ، دہشت گردی کے الزام میں بلا سند و شواہد مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں،گوپال گڑھ میںپولیس و انتظامیہ کی متعصبانہ کاروائی اور حال میں افضل گرو کی پھانسی کا طریقہ ¿ کار ، جس کی معقولیت پر لبرل دانشوروں نے سخت گرفت کی ہے وغیرہ کے علاوہ ریزرویشن کے معاملے میں پیداکردہ پیچیدگی اور مثبت اقدام (افرمیٹیو ایکشن) کے طور پر جاری اسکیموں کے نفاذ میں شدیدخامیوں وغیرہ کی بدولت مسلمان بیچینی محسوس کرر ہے ہیں۔

کانگریس کے رویہ سے اس مایوسی کا اثربھی نظر آنے لگا ہے جس کی نشاندہی جمعیة علماءہند کے جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی نے کی ہے۔ اس پر درشتی کا اظہار کرنے اور مولانا کے بیان کو جھٹلانے کی کوشش سے حقیقت بدل نہیں جائیگی۔ سنجید گی سے غور کیا جانا چاہئے کہ یہ رجحان یونہی بڑھتا گیا تو 2014 کے پارلیمانی الیکشن پر اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ سوال یہ نہیں کہ مودی کو معاف کیا جاسکتا ہے یا نہیں، سوال یہ ہے گجرات کے مسلم رائے دہندگان کے رجحان میں تبدیلی آخر کیوں آرہی ہے؟ بہار میں گزشتہ اسمبلی الیکشن کے بعد یہ خبر ملی تھی کہ مسلم رائے دہندگان نے ’جے ڈی یو-بھاجپا‘ اتحاد کے حق میں یہ دیکھے بغیر ووٹ دیا کہ امیدوار کس پارٹی کا ہے؟ گجرات جمعیة کے حوالے مولانا مدنی کا یہ بیان کہ مسلم رائے دہندگان میں کانگریس کی طرف سے مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کے رجحان میں تبدیلی آرہی ہے جس کی وجہ ہے کہ بعض اسمبلی حلقوں میں بی جے پی مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، محض قیاس نہیں جس کی مذمت کرکے تسلی حاصل کرلی جائے بلکہ ایک سچائی کا اظہار ہے جس کی پیشگی نشاندہی اسمبلی انتخاب سے قبل جناب سید شہاب الدین نے کردی تھی ۔ مگر مودی کے نام ان کے کھلے خط پر حقائق تک رسائی کی زحمت نہیں کی گئی اور مذمت سے دلوں کو بہلا لیا گیا۔

انہوں نے اس خط میں مودی کے رویہ میںجس تبدیلی کا ذکر کیا تھا،اس کے کچھ ثبوت اب مل رہے ہیں ۔ مثال کے طورپر گزشتہ منگل (12فروری) کو احمد آباد کے ایک سلم ایریا ’جوہو پورا‘ میں، جو مسلمانوں کی کچی بستی ہے، ایک جونیر یائی اسکول، آنگن واڑی اور ہیلتھ سنٹر کے لئے شہری ترقیات کے وزیرآنندی بین پٹیل نے ایک کثیر منزلہ عمارت کی بنیاد رکھی ہے۔اشارہ یہ بھی دیا گیا ہے کہ جلد ہی اس بستی کی کچی نالیوں، گلیوں اور سڑکوں کی حالت بھی بدلی جائیگی۔ مودی کے پیش نظر آئندہ پارلیمانی الیکشن سے قبل دہائیوں سے نظر انداز مسلم اکثریتی علاقوں میں کچھ کام کرانے کا ہے تاکہ وہ کہہ سکیں کہ گجرات میں مسلمانوں کی خبرگیری میں کوتاہی نہیں برتی جارہی ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین کے سفراءسے دہلی میں ملاقات کے دوران ، رسماً ہی سہی ،وہ فسادات پر افسوس ظاہر کرچکے ہیں اور یہ بھی کہ آئندہ فساد نہیں ہونگے۔ جس کی نظر وزیر اعظم کے منصب پر ہے وہ اگر اپنی ظاہر داری کو بدل رہا ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ۔ یہ کانگریس کو مات دینے کی سیاسی حکمت عملی ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے کچھ سیاسی اقدامات بھی کئے ہیں۔ ہرچند کہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دئے تھے مگر حالیہ میونسپل انتخابات میں خاصی بڑی تعداد میں مسلم امیدوار کھڑے کئے۔ ان میں بہت سے کامیاب بھی ہوئے۔ جام نگر کے قصبہ سلایا کی میونسپل کارپوریشن کے نتائج تو انتہائی چونکا دینے والے ہیں۔ 90فیصد مسلم آبادی والے اس قصبہ میں کانگریس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا حالانکہ 25 سال سے کارپوریشن پر اسی کا قبضہ تھا۔ تمام 27سیٹوں پر بھاجپا امیدوارجیتے جن میں 24مسلمان ہیں۔ اسمبلی الیکشن سے پہلے سید شہاب الدین نے مسلم رجحان میں تبدیلی کی جو نشاندہی کی تھی ، سید محمود مدنی نے جمعیة کے ذرائع سے اب اس کی تصدیق کردی ہے۔ اس تصدیق پرچڑنے یا کڑھنے کے بجائے اس تبدیلی پر ، جس کا آغاز گجرات سے بلکہ بہار سے ہوا ہے، جہاں آڈوانی کا رتھ روکا گیا تھا، سنجیدگی سے غوروفکر کیا جانا چاہئے۔ہرچند کہ بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلق سے کانگریس اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے، مگر آر ایس ایس کی جارحانہ ہندو پرستی اور ملک میں جمہوریت کی جگہ ’برہمنی -صہیونی ‘آمریت کے قیام کا منصوبہ صرف مسلم اقلیت کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔گجرات میں مسلمانوں کے ’قاتل‘ مودی کے رویہ میں تبدیلی کے جو اشارے ملے ہیں، بھاجپا ان سے دوسری ریاستوں میںبھی فائدہ اٹھانا چاہے گی اور بہار کا فارمولہ بھی کو دوہرانا چاہے گی۔ ان کوششوں کو اسی صورت میں بے اثر کیا جاسکتا ہے جب کانگریس اور یو پی اے اقلیت کو محض وعدوں پر بہلانے کے بجائے کچھ ٹھوس قدم اٹھائے۔

ان حالات میں مسلم یونیورسٹی کنونشن میںشرکت کے لئے یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی کی علی گڑھ آمد کے موقع پر زکوٰة فاﺅنڈیشن آف انڈیا نے وہاں بڑی بڑی ہورڈنگس، پوسٹرس لگوائے اوراردو اخباروں میں صفحہ اول پر اختصار کے ساتھ ایک 15نکاتی ’چارٹر آف ڈیمانڈس‘ (مطالبات کا محضر نامہ ) شائع کرایا ہے جو قابل توجہ ہے۔ میڈیا نے بھی اس کا نوٹس لیا اور ٹائمز آف انڈیا نے اس پر ایک روپورٹ شائع کی۔امید ہے کہ یہ آواز 10- جن پتھ تک پہنچی ہوگی۔ ہرچند کہ اس میں بعض اہم نکات مزید شامل کئے جاسکتے تھے، تاہم یہ تجاویز کم اہم نہیں۔ یہ الگ بات ہے عام طور سے ہمارے ملّی قائدین کی نظر ان پر کم ہی جاتی ہے۔ ہم یہاں ان کا اجمالی جائزہ پیش کرنا چاہیں گے۔

یو پی اے سرکار نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلم اکثریتی اضلاع میں بنیادی سہولتوں کے فروغ کا ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے لئے مرکزی بجٹ میں خطیر رقومات بھی مختص کی گئیں۔ لیکن دفتری نظام کی پیچیدگیوں کی بدولت ریاستوں سے رقم کا بڑا حصہ بغیر خرچ واپس آجاتا ہے۔ جہاں کچھ خرچ ہوا وہاں سے یہ شکایتیں آئیں کہ مسلم آبادیوں کے بجائے، مختلف بہانوں سے رقم دیگر علاقوں میں خرچ کردی گئی۔ زکوة فاﺅنڈیشن نے یہ صائب سفارش کی ہے کہ اس اسکیم کے تحت منصوبے گاﺅں اور وارڈ سطح کے بنائے جائیں۔ ہم اس پر یہ اضافہ کرنا چاہیں گے کہ ہر ریاست کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ مسلم اکثریتی بستیوں کے ترقیاتی منصوبے پیشگی تیار رکھیں تاکہ رقم جاری ہوتے ہی کام شروع ہو جائے۔ نیز یہ کہ ایک سال کے لئے مختص رقم اگر اس سال خرچ نہیں ہوپاتی تو اس کو اگلے سال ترجیحی بنیاد پرخرج کیا جاسکے۔ ہوتا یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری کے بعد رقوم ریاست کو منتقل ہوتے ہوتے کئی ماہ گزر جاتے ہیں ۔ پھر ضلعی سطح کی کاغذی کاروائی مکمل ہونے کے بعداتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ منصوبہ نافذ ہوسکے چنانچہ رقم واپس کردی جاتی ہے۔یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ اقلیت کی بہبود کے لئے ، ہرشمندر رپورٹ کی بنیاد پر منصوبہ جاتی رقم کو بڑھا کر آبادی کے تناسب سے 19فیصد کیا جائے۔ اسی ضمن میں یہ سفارش بھی اہم ہے کہ مختلف اسکیموں سے متعلق واقفیت کو عام کرنے اورمناسب رہنمائی کے لئے بلاک سطح پر مسلم معلوماتی مراکز قائم کئے جائیں ۔ایک سفارش یہ کی گئی ہے کہ مسلم کاریگروں کی ہنرمندی کو جلا دینے کے لئے خصوصی تربیتی بندوبست ہو۔ مدرسہ تعلیم میں بہتری کے لئے امدادی منصوبوں کی مشتہری اردو اخباروں میں کی جائے۔ سب سے اہم یہ کہ مدرسہ کی اسناد اور دیگر نصابات کے درمیان مماثلت پیداکی جائے ، ریاستوں میں مرکزی اردو ٹیچرس اسکیم کے نفاذ کی نگرانی کی جائے، نیز چند افراد کے بجائے اسکیموں کا فائدہ پورے فرقہ کو پہنچایا جائے۔

تعلیم کے ضمن میں اسکالرشپ اسکیم کے نفاذ کا طریقہ کار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کو سہل بنانے کی سفارش کوشامل کیا جانا چاہئے تھا۔ ہماری این جی او ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘ کا مشاہدہ ہے کہ اسکالرشپ کے اجراءاور رقم کے طلباءتک پہنچنے میں بعض ایسی مصنوعی دشواریاں مقامی سطح پر پیدا کردی گئی ہیں جن کی وجہ سے مستحق طلباءوظیفہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔

زکوٰة فاﺅنڈیشن نے ایک مسئلہ انڈین وقف سروسز کا بھی اٹھایا ہے جس کی سفارش سچر کمیٹی نے کی تھی۔ فاﺅنڈیشن کے چیرمین ڈاکٹر سید ظفر محمود ، آئی آر ایس (جو پنجاب وقف بورڈ کی تقسیم سے قبل اس کے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں) اپنے کئی مضامین میں اس کی وضاحت تفصیل سے کرچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ضابطہ کے مطابق وقف بورڈ کا منتظم اعلا کوئی مسلمان افسرہونا چاہئے لیکن سول سروسز میں مسلمان کم ہیں اس لئے یا تو کسی افسر کو اضافی چارج دیا جاتا ہے یا کسی نچلے درجہ کے سرکاری ملازم کو قایم مقامی بنادیا جاتا ہے جس سے بورڈ کا نظام درست نہیں رہتا۔دو اہم سفارشات یہ ہیں کہ مسلم اکثریتی انتخابی حلقوں کو ریزور نہ کیا جایا کرے اور پبلک پوزیشنز پر مسلم افسروں کی تقرری کا نظام العمل نافذ کیا جائے۔ وغیرہ

فاﺅنڈیشن کی پیش کردہ ان تجاویز کے علاوہ کچھ اور اہم مسائل بھی معلق ہیں۔ مثلاً حق تعلیم ایکٹ کے تحت عصری اسکولوںکے لئے آراضی، عمارات، طلباءکی تعداد وغیرہ کی جو مشکل شرائط عائد کی گئی ہیں ان کا اثر یہ ہوگا کہ کوئی مسلم اقلیتی این جی او یا فرد نئے اسکول قائم ہی نہیں کرسکے گا اور جو اسکول موجود ہیں وہ بھی غیر قانونی قرار پائیں گے۔اس ایکٹ کے تحت ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ 30بچوں کی شرط کا مطلب یہ ہے اسکول کےلئے عمارت بڑی بنانی ہوگی اور فیس بھی زیادہ رکھنی ہوگی تاکہ مصارف پورے ہوسکیں۔ یہ معیارات دراصل ہندستان جیسے ملک کے عوام کے لئے ایک بڑا بوجھ اور تعلیم کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں جن کو صرف ترقی یافتہ ممالک ہی اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں برداران وطن کے ساتھ مل کر یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان شرائط کو معقول حد تک نرم کیا جائے۔

مسلمانوں کا ایک دیرینہ مطالبہ عائلی معاملات میں شرعی عدالتوں کے نظام کے قیام کا بھی ہے۔ حج کے نظام کو ملائشیا کے تابوغ حاجی (حج فنڈ کارپوریشن ) کے طرز پر بدلنا، نکاح نامے کو لازمی شادی ایکٹ کے تحت سند تسلیم کرنا اور مسلم عوام کو مزید سرکاری رجسٹریش سے مستثنیٰ قراردیا جانا، قبضہ غیر سے مساجد کی بحالی اورفسادات کے متاثرین کی باز آبادکاری وغیرہ بھی اہم ہیں۔

یو پی اے کا دوسرا پانچ سالہ دورپورا ہونے والا ہے۔ انتخابی حکمت عملی طے کرنے کے لئے جے پور میں جو کانفرنس 19-20جنوری میں ہوئی تھی اس میں شندے صاحب نے ”ہندو“ دہشت گردی کا شگوفہ چھوڑ کر حقیقی مسائل سے توجہ کو ہٹادیا۔ اس کانفرنس میں انتخابی منشور میں خصوصاًاقلیتوں سے کئے گئے وعدوں اور ان کے مسائل کے حل پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کانگریس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ مسلم رائے دہندگان اس طرح کے وعدوں اور شگوفوں سے مگن رہیں گے، لیکن گجرات سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ کانگریس کے لئے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر دو تین فیصد بھی مسلم ووٹ بی جے پی کو چلا گیا تو بعد میں ان کا جو حشر ہوگا، وہ اپنی جگہ ،مگر کانگریس کودہلی کو اسی طرح بھول جانا پڑیگا جس طرح احمدآباد اور پٹنہ کو بھول جانا پڑا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180893 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.