پی پی پی اور ایم کیو ایم کی سیاسی چال

پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی حالیہ ناراضگی اس وقت نظر آئی جب آئی جی سندھ پولیس نے ارکانِ سندھ اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دی متحدہ قومی موومنٹ نے اس بریفنگ کا بائیکاٹ کردیا کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کا الزام تھا کہ پیپلزپارٹی کے کچھ عناصر بھتہ خوروں کی حمایت کر رہے ہیں متحدہ قومی موومنٹ کا یہ الزام اس اعلامیے کی روشنی میں سامنے آیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عذیر بلوچ، ظفر بلوچ، حبیب جان اور دیگر پر دائر مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں جبکہ شرجیل انعام میمن نے ان اطلاعات کو مسترد بھی کیا لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے اسی کو جواز بناکر خود کو وفاقی اور صوبائی حکومت سے علیحدہ کر لیا مزے کی بات یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اسپیکر سندھ اسمبلی کو دی گئی مہلت ختم ہو رہی ہے سندھ ہائی کورٹ نے مسلم لیگ فنکنشل، نیشنل پیپلزپارٹی کی درخواست پر اسپیکر کو دس روز میں قائد حزبِ اختلاف نامزد کرنے کی مہلت دی ہوئی ہے سندھ اسمبلی میں حکمران جماعت نے چار سال بغیر اپوزیشن کے گزارے ہیں صرف ارباب غلام رحیم گروپ اپوزیشن کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن ارباب غلام رحیم نے خود بیرون ملک میں روپوشی اختیار کر رکھی ہے پچھلی روایات سے ہٹ کر اس بار متحدہ قومی موومنٹ نے الٹی میٹم دیے بغیر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں شامل رہیں لیکن بلدیاتی نظام پر اختلاف رائے رکھتے ہوئے انہوں نے چھ ماہ قبل حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی مسلم لیگ فنکشنل، این پی پی اور اے این پی نے نصرت سحر عباسی کو قائد حزبِ اختلاف نامزد کیا لیکن اسپیکر نے نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیااور تینوں جماعتیں یہ معاملہ عدالت میں لے گئیں اسپیکر نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ انہیں قائد حزبِ اختلاف کے لیے دو درخواستیں موصول ہوئی ہیں ایک ارباب غلام رحیم کی ہے جنہیں ایوان نے نشست سے محروم کردیا ہے جس کا معاملہ عدالت میں ہے دوسری درخواست نصرت سحر عباسی کی ہے جس پر اکثریت کے دستخط نہیں جس پر وہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کر سکے سندھ کی اسمبلی بغیر اپوزیشن کے سربراہ کے چل رہی ہے جو کہ رولز کے خلاف ہے متحدہ قومی موومنٹ اگر اپوزیشن نشستوں پر جاتی ہے تو اس کے پاس سب سے زیادہ نشستیں ہیں اور قوانین کے مطابق قائد حزبِ اختلاف کے منصب کی حقدار متحدہ قومی موومنٹ ہوگی حالیہ آئینی ترامیم کے بعد نگران حکومت کے لیے قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت لازمی ہے اتحادی ہونے کے علاوہ اپوزیشن میں رہ کر بھی متحدہ قومی موومنٹ اپنی رائے دے سکتی ہے یہی وہ اصل نقطہ ہے جو اس بات کا غمازی ہے کہ آخر کو اس مرحلے پر متحدہ قومی موومنٹ نے خود کو حکومت سے علیحدہ کیوں کیا ؟صوبائی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کا کردار روایتی ہے اس کو آئینی اور قانونی بنانے کے لیے قومی اسمبلی کی طرح رولز آف پروسیجر میں ترمیم کرنا ہوگی مسلم لیگ فنکشنل نے چند ماہ قبل حیدرآباد میں جب عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا تو جماعت کے سربراہ پیر پگارہ صبغت اﷲ شاہ راشدی نے متنبہ کیا تھا کہ حکومت اپنے اتحادیوں کو قائد حزبِ اختلاف بنانا چاہتی ہے تاکہ نگران سیٹ اپ بنانے میں کوئی دشواری نہ ہوحکومت سے علیحدگی کا ایک جواز بلدیاتی نظام نافذ کرنے میں تاخیر بتایا گیا ہے اس نظام کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس ایک نقاطی ایجنڈہ پر قوم پرست جماعتوں نے مسلم لیگ فنکشنل اور بعد میں مسلم لیگ ن سے اتحاد کیا تھادیگر کئی معاملات کی طرح سندھ میں بلدیاتی نظام کا نفاذ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے مستقبل کا فیصلہ اب سیاسی قیادت کے بجائے عدلیہ کے ہاتھ میں ہے متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے مذاکرات جاری ہیں متحدہ قومی موومنٹ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے روایت سے ہٹ کر اس بار متحدہ قومی موومنٹ نے الٹی میٹم دیے بغیر ایکشن لیا ہے متحدہ قومی موومنٹ کا ہر ایکشن ہمیشہ ہی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے لیکن بعد کی صورتحال کچھ اور ہوتی ہے ماضی کی طرح متحدہ قومی موومنٹ کو عوام میں پذیرائی انتہائی کم ہے اور بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ایسی سیاسی جماعت ہے جس کا اقتدار کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے اور اب کی بار متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت سے علیحدہ ہو کر ایک سیاسی چال چلی ہے اس لئے کہ چار ساڑھے چار سال حکومت کے مزے لینے کے بعد نسبتا ایک چھوٹے سے اختلاف پر حکومت سے علیحدہ ہو جا نا وہ بھی اس وقت جب الیکشن بلکل سرپر ہیں اور گزرنے والے سالوں میں حکومت میں حصہ دار بھی ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے وہ یہ کہ متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن میں جا کر حکومت کے ساتھ نگران حکومت میں گٹھ جوڑکر سکے اور ایک بار پھر وہ اپوزیشن بن کر نگران سیٹ اپ میں اپنی مرضی کے نمائندے شامل کرا سکے جن سے نہ تو متحدہ قومی موومنٹ اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ ہو اور آنے والے الیکشن میں ان دو حلیف جماعتوں کے لئے کوئی خطرہ پیدانہ ہو شاید یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے یوں اچانک سے اپوزیشن میں جانے سے کوئی خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آیا جس طرح کا ردعمل ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ کے حکومت سے جدا ہونے کے الٹی میٹم پر آیا کرتا تھا اور اب کی بار عوام کو بھی یہ بارآور ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو اپوزیشن میں بجھوانے میں سارا کردار پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں کا ہے جن کاخیال ہے اس موقع پر سندھ کی حکومت بھی اپنی اور اپوزیشن بھی اپنی نہ کوئی ڈر نہ کوئی خطرہ جیسے چاہو نگران سیٹ اپ بناؤ لیکن باقی جماعتیں بھی اب شایداب انھیں اس میں کامیاب نہ ہونے دیں اگر ایسا ہو گیا تو سندھ میں اگلی باری بھی انھیں دو جماعتوں کی ہو گی ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227147 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More