کسی سیاسی جماعت نے اپنی وال
چاکنگ مہم میں لکھا تھا: ”ڈیم بنا کر ہمارا پانی لوٹنے والے کو ہم موسٹ
فیورٹ نیشن کیسے تسلیم کرلیں“۔ تمام پاکستانی اس بات سے سو فیصد متفق ہیں
کہ بھارت جو ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر بنادینا چاہتا ہے اس سے دوستی ممکن
ہی نہیں۔ اسی طرح بہت سے اور بھی ایشوز ہیں جن پر بھارتی ہٹ دھرمی کی بدولت
اسے ایسا درجہ دینا کسی حماقت سے کم نہیں ہوگا۔ اگر وال چاکنگ کی عبارت کو
مزید ٹٹولیں تو ایک اور سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ اگر بھارت دھڑا دھڑ
ڈیم بنا رہا ہے تو ہمیں ایسا کرنے سے کون روک رہاہے؟ ہم بھارت کی طرح ڈیم
کیوں نہیں بنا رہے؟ بھارت نے بگلیہار ڈیم کو آخری شکل دے دی ہے اورتو اور
عالمی عدالت کی طرف سے اسے متنازعہ کشن گنگا ڈیم پر تعمیر ی عمل جاری رکھنے
کی بھی اجازت مل گئی ہے اور ہم اس معاملے میں ابھی تک کوئی سنجیدہ اقدام
نہیں اٹھا سکے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان بجلی کے شدید بحران سے دوچار
ہے۔آبی ذخائر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ
گئی ہے جبکہ گھریلو صارفین بھی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں شدید پریشان ہیں۔ہماری
زراعت بنجر ہونے کے دہانے پر ہے اور ہم پانی ذخیرہ کرنے کے کسی منصوبے پر
متفق نہیں ہوسکے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور
سیاسی مفادات کی بدولت حکومتوں نے اس معاملے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
ڈیموں پر سیاست چمکانے والے حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ کیونکہ اگر حقیقت
کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کے پیش نظر
2020ءتک صرف کالاباغ ڈیم ہی نہیں تین بڑے ڈیموں کو ضرورت ہوگی۔ اگر ہم نے
ابھی سے حکمت عملی طے نہ کی اور اس اہم قومی معاملے کو نظر انداز کئے رکھا
تو قوم اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔جس تیزی سے ملکی آبی ذخائر
میں کمی واقع ہورہی ہے اگر چند سالوں میں تین چار بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے گئے
تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان ایک شدید بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔زراعت
پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن پانی کی کمی کی
وجہ سے اسے ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ دوسری انڈسٹری کا دارومدار بجلی پر
ہے اور سب کو معلوم ہے کہ ہائیڈرو پاور بجلی کی پیداوار کا سب سے سستا
ذریعہ ہے لیکن مناسب آبی ذخائر کی عدم موجودگی میں بجلی کی پیداوارمیں کمی
آئے گی جس کا ہماری صنعت وحرفت پر براہ راست منفی اثر پڑے گا۔تیزی سے بڑھتی
ہوئی آبادی کی وجہ سے بجلی اور پانی کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی تقریباََ ساڑھے تین کروڑ تھی جو ساٹھ
سالوں میں سولہ کروڑ تک جا پہنچی۔ جو آئندہ سات سالوں یعنی 2020ءتک 22کروڑ
ہوجائے گی۔ آبادی میں اس قدر اضافے سے خوراک اور دیگر ضروریا ت میں بہت
زیادہ اضافہ ہوا ہے۔واپڈا نے حال ہی آبی وسائل کے بارے میں جاری کردہ ایک
رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر جلد ہی چھوٹے بڑے ڈیموں کے بارے میں فیصلہ نہ کیا
گیا تو اگلے پانچ برسوں بعد ملک خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ واپڈا کی
رپورٹ کے مطابق پاکستان صرف 9 فیصد پانی سٹور کر رہا ہے جوکہ اس کی بڑھتی
ہوئی آبی ضرورت سے کم ہے اور اس کا یہ قیمتی آبِ حیات یونہی سمندر میں گر
کر ضائع ہو رہا ہے۔ پانی کے اس ضیاع کو اور بھی کم کرنے کے لئے نیشنل
پروگرام آف واٹر کورس کے تحت ملک بھر میں واقع تمام کھالوں کو پختہ کرنے کا
منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ 22 ارب روپے کے اس قومی منصوبے میں سے 18.5 ارب
روپے صرف سندھ میں ہی خرچ کئے جائیں گے۔
پانی کی کمی سے ہماری زرعی پیداوار کا گراف مسلسل زوال کا شکار ہے۔جس سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان آئندہ چند سالوں میں زمینوں کے بنجر پن
اور قحط سالی کے عفریت سے دوچار ہوسکتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی
پاکستانی قیادت جو ملک کے لئے سنجیدہ یا ہمدرد ہو گی اس سے مسئلے کو نظر
انداز نہیں کرسکتی۔دنیا بھر پانی کا ضیاع روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے
ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے کے باوجود آبی ذخائر کی
تعمیر کو متنازع بنا کر اوسطاً 38ملین ایکٹرفٹ پانی ضائع کر رہے ہیں۔ اگر
ہم نے دس سال قبل کوئی بڑا ڈیم تعمیر کر لیا ہوتا تو آج ہمارے مسائل اتنے
زیادہ سنگین نہ ہوتے جتنے اب نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کی 70فیصد افراد زراعت
کے پیشے سے منسلک ہیں۔ جس کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں بڑے ڈیم کی تعمیر کا
فوری فیصلہ کر لینا چاہئے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے معاشی ترقی کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔ اس سے
غذائی اجناس کی پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ کثیر مقدار میں بجلی
پیداکی جاسکے گی جو ہماری معیشت کے لئے ایک ستون کا کام دے گا۔ اس ڈیم سے
جہاں پانی کی ضروریات پوری ہوں گی وہاں پاکستان کو سستی بجلی بھی حاصل ہو
گی اور قیمتوں میں استحکام آئے گا۔عوام کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس ڈیم
سے ملک کو کتنا زیادہ فائدہ ہو گا۔ اگر کچھ تھوڑا سا نقصان بھی ہو‘ تب بھی
زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے تھوڑا نقصان برداشت کر لینا چاہئے۔اس مجوزہ
ڈیم سے بلوچستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ کچھی کینال جس میں اس وقت سال
میں صرف تین ماہ پانی ہوتا ہے‘ ڈیم بننے سے سارا سال اس میں پانی چلتا رہے
گا اور ان نہری علاقوں میں پانی سے بھر پور زندگی شروع ہو جائے گی۔ اور ہر
طرف ہریالی کا دور دورہ ہو گا اور خوشحالی آئے گی۔
عالمی ادارہ کی رپورٹوں کے مطابق آئندہ سالوں تک دنیا کی پیشتر آبادی کو
پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا اور پاکستان بھی ان ملکوں کی فہرست میں
شامل ہے۔اس وقت نہ صرف کالا باغ ڈیم بلکہ چھوٹے چھوٹے بہت سے ڈیم دریائے
سندھ پر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کم سے کم ریت تربیلا ڈیم میں جائے۔ نہ صرف
مذکورہ ڈیموں سے بجلی پیدا ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ علاوہ
ازیں جن علاقوں کے ندی نالوں سے پانی گزر کر آتا ہے وہاں پانی سٹور کر کے
نہ صرف ڈیم بنا کر پانی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ جگہ جگہ مچھلی فارم
اور پکنک پوائنٹ بن سکتے ہیں اور بیروزگاری کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام
کو سیروتفریح کے مواقع بھی میسر آ سکتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں بہت سے ڈیم کام کر رہے ہیں اور کئی ممالک میں ان کی تعمیر
پر کام جاری ہے۔ جبکہ پڑوسی ملک بھارت بھی پاکستان کے تمام تراعتراضات کے
باوجود متنازعہ بگلیہاراور کشن گنگا پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کو
اپنی زرعی معیشت کی بقا کے لئے اس اہم مقدمہ میں پیش رفت کے لئے بھرپور
اقدامات کرنا ہوں گے اور عالمی ثالثی عدالت میں بھرپور ثبوتوں کے ساتھ
بھارت کی بدنیتی اور کشمیر جیسے متنازعہ علاقہ میں پاکستان کو سیراب کرنے
والے دو اہم دریاﺅں کے پانی میں رکاوٹ ڈالنے والے منصوبے کو بے نقاب کرنا
ہو گا۔ ورنہ سندھ طاس معاہدے کے باوجود بھارت نے جس طرح پاکستان بنجر بنانے
کی کوششیں کر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اگر پاکستان کو ایتھوپیا اور
سوڈان جیسی صورتحال سے بچنا ہے تو اسے عالمی ثالثی عدالت میں بھی حال میں
اپنا موقف درست ثابت کرنا ہو گاکیونکہ یہ ہماری بقا کا سوال ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ جذبات اور تعصبات سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی ترقی
اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم سمیت دیگر آبی ذخائر کے
منصوبوں کی اہمیت اور حقیقت کو برملا تسلیم کیا جائے اورتمام تعصبات اور
ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ان کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔ |