کیا ہم محسن کش ہیں کہ یوم قائد بھی یاد نہیں؟

25 دسمبر 2012 آیا اور خاموشی سے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ کر گزرگیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش تھا وہ مرد آہن کہ جس نے مسلمانان ہند اور عالم اسلام کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں آج ان کا یوم پیدائش عام دنوں کی طرح سے حکومت کی سرد مہری کی نذر ہوگیا۔ چند ایک اہم مقامات و دفاتر کے علاوہ (جو کہ مجبوری کی بنا پر منایا گیا اور فارمیلٹی پوری کی گئی کہ دنیا کیا کہے گی )کہیں بھی قائداعظم کی پیدائش اور خدمات کے حوالے سے کوئی تقریب منعقد نہ کی گئی ۔دوسرے بہت سے اضلاع و تحصیلوں کی طرح کہروڑپکا تحصیل میں بھی یوم قائد کا یہی حشر ہوا۔ کسی بھی سرکاری و نیم سرکاری سکولز و کالجز اور دفاتر میں کوئی بھی تقریب نہ کی گئی۔ جس کا واضح اشارہ بانی پاکستان اور محسن قوم کی اہمیت و احساس کا دلوں کے نکلنے کا ہے اور یہ بالکل حقیقت کے قریب تر بھی ہے کیونکہ جس ملک میں ایک بڑے صوبے کا وزیراعلی تک کو یہ علم نہ ہو کہ آج 25 دسمبر یوم پیدائش ہے کہ یوم وفات حالانکہ موصوف ایک تقریب میں مدعو تھے لیکن شاید ان کے حواس پر نہ جانے کیا چھایہ ہوا تھا کہ انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ 25 دسمبرکی اہمیت و حقیقت کیا ہے؟

جب ملک کے حکمرانوں کا یہ حال ہو کہ وہ اپنے محسنوں رہنماؤں بانیوں اور نجات دہندہ کو یوں بھول جائیں تو پھر اس ملک کے طلبا و طالبات کو کیسے معلوم ہوگا کہ پاکستان کے بنانے کا مقصد کیا تھا؟ پاکستان کے بنانے والے کون تھے؟ کن لوگوں نے پاکستان کی تخلیق میں اپنا تن من دھن لگادیا؟ و ہ کس مٹی کے خمیر سے بنے تھے کہ ان کے پیش نظر صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبودتھی؟ کیسے آج کی نسل نو کو معلوم ہوگا کہ ہم جس ملک کے باسی ہیں وہ ہمیشہ سے اسی طرح ہمارے آباواجداد کی جاگیر تھا کہ اس کیلئے کوئی جدوجہد بھی کی گئی ۔ کس نے اس کیلئے اپنی جان و مال عزت و آبروکو قربان کیا؟جب سکولزو کالجز اور سرکاری دفاتر میں یوم قائد و اقبال منایا ہی نہ جائیگا تو ہماری نسل نو کے ہیروز تو پھر شان ریمبو شاہ رخ خان سلمان خان عامر خان و اکشے کمار ہونگے۔ جب قوم کے راہی و داعی صحیح حقائق ہی منظر عام پر نہ لائیں گے توکیسے قائدو اقبال کی پہنچان ہوسکے گی؟ کیسے اہمیت پاکستان ملک و قوم ذہنوں میں نقش ہوگی۔

اب تو ہم نے ان محسنوں نجات دہندوں اور رہبروں کو منفی انداز میں پیش کرنے کی قسم سی کھالی ہے آج کے دن ٹی وی چینلز پر شوز یہ ثابت کرنے کیلئے ہورہے تھے کہ قائد اعظم سیکولر ذہنیت کے مالک تھے کہ مسلمانیت کے جراثیم ان کے دل و دماغ تھے۔ اصل میں سیکولر ذہنیت کے مارے خود کو اس صف میں کھڑا کرناچاہتے ہیں حالانکہ ہسٹری کے اوراق پلٹیں تو قائداعظم محمد علی جناح کے خطابات و تقاریر ان کے منہ پر زوردار طمانچہ ہیں جیسا کہ 13 جنوری1948 کو پشاور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘ ایک دفعہ کسی نے قائداعظم سے پوچھا کہ آپ سنی فرقے کے تعلق رکھتے ہیں کہ شیعہ فرقے سے ؟ تو آپ نے جواب میں سوال پوچھ لیاکہ آپ ﷺ کا مذہب کیا تھا؟ وہی دین و مذہب میرا ہے

دوسری طرف ہمارے نام نہاد جمہوروں نے کسی بھی موت و فوت کو شہادت کا رنگ دے دیا ہے۔اور ان کے ڈیز (days) مخصوص کر دیئے ہیں یہ وہ ملک ہے کہ جس میں متنازعہ شخصیات کو کہ وہ کسی بھی حوالے سے ہوں کسی ایک طبقے یا جماعت کے حوالے سے یا کسی فرقے کی نسبت سے ہم نے اپنی پسند و ناپسند کے معیار کے مطابق شہید قراردے دیا ہے اور شہادت کا معیار داغدار کردیا ہے کوئی شہید جمہوریت ہے تو شہید قوم ۔کوئی ملک کا ہیرو تھا تو کوئی قوم کا کوئی کسی خاص طبقے سے تعلق رکھتا تھا توکوئی کسی خاص حلقے سے سب کے سب شہید۔ ان سب کیلئے گورنمنٹ اور تمام مشینری کو اور وسائل کو ان کی یاد و عقیدت میں جھونک دیااور اصل مستحق لوگوں اور رہنماؤں کی یادوں کو مسخ کرنے کی کوشش شعوری و لاشعوری طور پر سرکاری سطح پر نہایت بے شرمی و ڈھٹائی سے جاری ہے جس میں بانی پاکستان کا یوم پیدائش بھی شامل ہے جسے اپنے علاقے اپنے سکول کالج و دفتر میں منعقد کرنے میں بھی پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کا یوم وفات منانے کیلئے ملک کے شہر شہر اضلاع و صوبوں سے سرکاری کارندوں کی رفاقت و قیادت میں گڑھی خدا بخش پہنچتے ہیں۔

یہ تمام حقائق ونقائص ان بات کے غماز ہیں کہ جن کے والی وارث زندہ ہیں ان کے یوم ولادت و وفات منانے کیلئے کسی بھی حدتک جایا جاسکتا ہے لیکن قائد و اقبال کے ایام منانے کیلئے کوئی ہدایات کوئی ڈائریکٹو ایشو نہیں ہوتا بس خالی دعوے اور نعرے سنائی دیتے ہیں-

خدارا پاکستانی قوم پر ظلم مت کیجئے اس پر رحم کھائیے کیوں تم نے محسن کش ہونے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔پلیز اے قوم کے علمبرداروہوش کے ناخن لو اور محسن پاکستان کووہی اہمیت دی جائے جس کے وہ درحقیقت مستحق ہیں اور یوم قائدو اقبال نہ منانے والے افسران سربراہان ادارہ اس میں برابر کے مجرم ہیں اور ان کے خلاف ضابطہ کی کارروائی عمل میں لانی چاہئے تاکہ وہ اس جرم کو قومی جرم سمجھتے ہوئے دوبارہ دہرانے کی کوشش نہ کرسکیں-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211643 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More