ڈرون حملوں سے انخلا تک

افغانستان پر دہشت گردی کے نام پر مسلط کی جانیوالی طویل ترین جنگ میں ناٹو فورسز اور امریکیوں کی فاٹا پر ڈرون حملوں کی پے درپے یلغار نے ایک طرف ہزاروں ستم رسیدہ بے گناہ قبائلیوں کو ہلاک کردیا تو دوسری طرف درجنوں ہنستی بستی ترائبل بستیاں نیست و نابود ہوگئیں۔ ڈرون میزائلوں کی سفاکانہ موت کے جبڑوں میں جانے والے ہلاک شدگان کی95 فیصد تعداد سوویلین ہے جنکا طالبان کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ تعلق نہ ہے۔ ڈرون حملوں کے بہیمانہ سفاکانہ نتائج اور سویلین انسانوں کی بے رحمانہ ہلاکتوں پر اس جہاں رنگ بو کے اربوں امن پسند انسان بلبلا اٹھے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ امریکیوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ڈرون میزائلوں کی ژالہ باری آج تک جاری و ساری ہے۔ افغان امریکہ جنگ کی10 سالہ ہسٹری میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ امریکیوں نے ڈرون حملوں پر تنقید شروع کردی ہے۔ کیا یہ محض مذاق ہے یا اتفاق یہ شعبدہ بازی ہے یا حقیقت کہ امریکہ میں ڈرون حملوں کی مخالفت کا ڈیبیٹ ایک ایسے موڑ پر سامنے آیا جب امریکی فورسز نے کابل سے انخلا شروع کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نیٹو کے فوجی سازوسامان سے بھرے ہوئے پچیس کنٹینرز بگرام اور طورخم کے راستے کراچی کی بندرگاہ پر پہنچے اور پھر بحری راستوں سے اپنی اصل منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ امریکی میرین کور کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کابل میں ناٹو فورس کی سربراہی سنھال لی ہے۔ توقع کی جاری رہی ہے کہ جنرل جوزف کابل میں ناٹو کے آخری سربراہ ہونگے۔ رسی جل گئی مگر بل نہ گیا کے مصداق سبکدوش ہونے والے امریکی جنرل ایلن نے کیا خوب شوشہ چھوڑا کہ افغانستان میں انکی افواج فتح کے راستے پر گامزن ہیں۔ امریکی پارلیمان میں پہلی مرتبہ ڈرون حملوں پر لب کشائی ہوئی اور ممبران کے مابین بحث و مباحث کا معرکہ ہوتا رہا۔ محکمہ انصاف نے پارلیمان میں18 صفحات پر مبنی میمو بھجوایا ہے میمو کا سارا مواد صرف ایک ہی نقطہ نظر کے گرد گھومتا ہے کہ اگر امریکی شہری خطرے کی لائن کو کراس کرجائیں تو کیا وہ بھی ڈرون شب خون میں ہلاک کئے جاسکتے ہیں کیا یہ درست ہوگا ؟ کیا اسکا قانونی اور معاشرتی سماجی اور اخلاقی جواز موجود ہوگا؟18 صفحات پر مشتمل میمو کو سب سے پہلے بی بی سی نیوز سروس نے ٹیلی کاسٹ کیا۔ امریکہ میں انسانی حقوق اور شخصی ازادی کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے میمو کو حیرت زدہ قرار دیا۔ امریکی سینیٹرز نے اوبامہ سرکار سے میمو دستاویزات کی وضاحت طلب کرلی ہے۔ ری پبلکن اور اوبامہ کے پارٹی فیلوز سینیٹر زنے مطالبہ کیا ہے کہ صدر اوبامہ خفیہ دستاویزات کوایوان میں پیش کریں جس میں ڈرون ٹیکنالوجی کو اخلاقی اور قانونی جواز دیا کیا گیا ہے۔ صدر اوبامہ نے وزارت انصاف کو ہدایات جاری کی ہیں کہ خفیہ دستاویزات تک سینیٹرز کو رسائی دی جائے۔ امریکہ کے نیو cia چیف جان برٹن اپنی نئی نوکری کی توثیق کے لئے سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو سینیٹرز آگ بگولہ بن گئے۔ cia چیف ممبران پارلیمان کو رام کرنے کی کوشش فرماتے رہے کہ امریکی عسکری ادارے ڈرون کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ حفاظتی اقدامات کو پول پروف بنانے کی جانب بھرپور توجہ دی جاتی ہے تاکہ سوویلین کی ہلاکتوں کا سکور کم سے کم رہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال 2004 میں شروع ہوا۔ رپورٹ میں جاری کردہ اعداد و شمار کی رو سے امریکہ نے دنیا بھر میں 400 ڈرون حملے کئے پاکستان میں ڈرون حملوں اور ہلاکتوں کا سکور بالترتیب350 اور 4000 ہے۔ امریکی فورسز پینٹاگون وائٹ ہاؤس اور سول انتظامیہ کو اتنی زہریلی تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر گیارہ سالہ لاحاصل جنگ نے امریکی قوم کو معاشی بحران بیروزگاری اور دنیا بھر کی نفرت کے علاوہ اور کچھ نہیں مل سکا۔ شائد امریکی قوم اکتا چکی ہے ۔ ڈرون ٹیکنالوجی کو قانونی اور اخلاقی جواز سے ہم آہنگ کرنے پر امریکی انتظامیہ سنگین ترین تنقید کی زد میں ہے۔ امریکہ میں ڈرون موت کی مخالفت اس وجہ سے نہیں ہورہی کہ یہ پاکستان کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے مگر مخالفت کا حقیقی عنصر ڈرون حملوں کو امریکی شہریوں کے خلاف قانونی اور اخلاقی جواز دینے میں مضمر ہے۔ امریکہ میں پاکستانی ایمبیسڈر شیریں رحمن نے امریکی صحافیوں کو ناشتے کی میز پر آگاہ کیا کہ ڈرون حملے جہاں ایک طرف پاک امریکہ ریلیشن شپ کے مابین سرخ لائن کا درجہ رکھتے ہیں تو وہاں دوسری طرف ڈرون حملے ہماری ازادی خود مختیاری کو تار تار کررہے ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر میں ڈرون ٹیکنالوجی کا پہلا استعمال کیا ۔یوں سپرپاور کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال پر پابندی عائد کرے۔ دنیا کے پچاس ممالک میں ڈرون ٹیکنالوجی پر ریسرچ کی جارہی ہے۔ اگر ڈرون کا غلط استعمال جاری رہا تو پھر دوسرے ملک بھی اسے استعمال کرنے میں تامل کا مظاہرہ نہ کرسکیں گے۔ ہیومن رائٹس سے منسلک اقوام عالم کی تمام امن پسند تنظیمیں وائٹ ہاؤس پر کڑی تنقید اور لعنت و ملامت کے پھول بکھیر رہی ہیں۔ امید و حوصلہ افزا بات تو یہ ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے خلاف آہ و بکاہ امریکی حکومتی ایوانوں میں گونج رہی ہے۔ امریکہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فوری طور پر ڈرون ٹیکنالوجی کے شیطانی کھیل پر پابندی عائد کی جائے۔

امریکہ نو دوگیارہ کے بعد اپنے صلیبی و صہیونی اتحادیوں کے ہمراہ جس چنگھاڑ شورو غل اور رعونت کے ساتھ افغانستان پر قابض ہوا تھا اج اتنی خاموشی پردہ داری اور رات کی تاریکیوں میں کابل سے بے نیل ومرام اپنا جنگی سازوسامان نکال رہا ہے۔ جنرل ایلن کا یہ کہنا کتنامضحکہ خیز ہے کہ ہم جیت رہے ہیں۔ ان سوالات کا جواب ڈھونڈ کر جنرل ایلن کی فریب کاری کی اصلیت کا صد فیصد اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کیا اسکندر اعظم سے لیکر موجودہ سپرپاور امریکہ تک دنیا کی طاقتور ترین جنگی قوت نے کبھی کمزور ترین حریف کے ساتھ 10سالہ جنگ کے بعد مذاکرات کئے ہوں؟ امریکہ نہ صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے بلکہ امریکی درخواست پر مارچ میں علما کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میںپاکستان اور افغانستان کے جید علمائے کرام شامل ہونگے ۔کانفرنس میں ان علمائے کرام اور دینی رہنماؤں کو دعوت دی جارہی ہے جو طالبان ملاعمر گروپ اورttp کے جنگجووں پر گہرا اثر و نفوز رکھتے ہیں تاکہ کابل سے بگرام اور قندھار سے کراچی تک درانداز فورسز کے پر امن انخلا کے لئے انکی خدمات سے استفادہ کیا جائے ۔ جنرل ایلن کے لشکر کے 3 ہزار جواں خود کشی کو سینے سے لگا کر طالبان کی ہیبت سے ہمیشہ کے لئے ازاد ہوگئے۔کیا خود کشی کرنے والے بزدل فوجی جوانوں پر مشتعمل فورس جنگی میدان کی فاتح بن سکتی ہے؟ امریکہ کالعدم تحریک پاکستان اور حکومت پاکستان عساکر پاکستان کے مابین مذاکرات کا سخت مخالف ہے۔ اگر دونوں میں خون ریزی ختم ہوگئی تو تحریک طالبان کے سرکش سرفروش راستے میں جگہ جگہ ناکے لگا کر گوروں کو امریکہ جانے سے پہلے ایسی گذند پہنچائیں گے کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا دشنام طالبان کے سرتھوپ کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جنرل شاہد عزیز اپنی بائیوگرافی میں لکھتے ہیں کہ امریکی فورسز کی کابل تک رسائی عام نہ تھی مگر جنرل مشرف نے اقتدار کو طول دینے اور امریکی انتظامیہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی خاطر لاجسٹک سپورٹ کے نام پر مملکت خداداد کے زمینی اور فضائی راستے امریکہ کے سپرد کردئیے۔ مشرف نے امریکی خوشنودی کی خاطر قوم کی ازادی و خودداری بھی فروخت کردی۔ مشرفی عنایات کے طفیل امریکہ نے پاکستانی ہوائی اڈوں کا بے رحمانہ استعمال کیا اور لاکھوں بے گناہ افغانیوں کی لاشوں کے پشتوں کے کشتے لگادئیے۔ ناٹو نے افغانستان کے چپے چپے پر کارپٹ بمباری کی کہ خطہ افغان اگ و خون کے سمندر میں ڈوب گیا۔پینٹاگون نے اپنی جنگی حکمت عملی کے تحت ایک تیر سے دو شکار کئے امریکی فتنہ گروں کی آماجگاہ سی آئی اے نے افغان جنگ کا دائرہ کار پاکستانی قبائلی علاقوں تک دراز کردیا۔ افغانستان میں امریکہ کی بھڑکائی ہوئی آگ آتش فشاں بنکر وطن عزیز کے دامن تک دراز ہوگئی۔ امریکی حمایت کے جرم میں قبائلیوں نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی یہی جنگی تندور45 ہزار پاکستانیوں کی قتل و غارت اور ہلاکت کی راکھ بنانے کا سبب بن گیا۔ امریکہ اس وقت تک پاکستان میں مضبوط حکومت نہیں دیکھ سکتا جب تک امریکی فورسز کا پر امن انخلا اختتام پزیر نہیں ہوجاتا ۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.